• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خصوصی مراسلہ…رضا چوہدری
قومی رہنماوں اور زندہ قوموں کویہ بات ذہن میں رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ کوئی آئیڈیالوجی اپنی ذات میں طاقت صرف اس وقت بنتی جب وہ اپنی قوت سماج کے اندر ظاہر کر سکے۔ آئیڈیالوجی کو سماجی قوت بننے کے لئے تاریخ اور معاشرے کے کن عوامل کی ضرورت ہوتی ہے، یہ تفصیل بہت لمبی ہے مگر ہمارے بہت سے دانشور شاید وِل ڈیورنٹ کی کتاب جس کا عنوان ہے ’’روسو اور انقلاب‘‘ سے اتنے زیادہ متاثر ہیں کہ وہ روسو کے نظریات کو یا صرف نظریاتی سوجھ بوجھ کو ہی انقلاب کی پہلی اور آخری وجہ گردانتے ہیں۔ یہ بات تاثراتی خام خیالی ہے اور تاریخی دلیل کےمعیار پر کسی طور پوری نہیں اترتی۔بات انقلابِ فرانس کی ہو، روسی یا ایرانی انقلاب کی، ان سب کے مطالعے سے واضح ہوتاہے کہ انقلاب کے دوران بہت سے موڑ آتے ہیں۔ ان پر آئیڈلوجی اپنی شکل اس قدر بدلتی ہے کہ اگلے موڑ پر کبھی تو بالکل ہی مختلف ہو جاتی ہے۔ ایک موڑ پر کوئی ایک اور دوسرے پر کوئی اور آئیڈیالوجی زیادہ اہم ہوجاتی ہے۔وطن عزیر پاکستان میں نئی حکومت کو انقلابی تبدیلی قرار دیا جارہا اور عوام کو اس سے بہت سی انقلابی اقدامات کی توقعات وابستہ ہیں مگر یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ ’’انقلاب کا دورانیہ‘‘ہے ۔ یہ ایک بنیادی بات ہے جو انقلاب کی نوعیت کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ سماجی انقلاب کوئی ایک واقعہ نہیں ہوتا بلکہ ایک عرصے پر محیط واقعات کی ایک کڑی ہوتا ہے جن کو کئی حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ترجیحات کا تعین حکومت کوکرنا ہوتا ہےمگر ان کی تکمیل کےلئے وسائل مہیا کرنا اداروں اور سماج کاکام ہوتا ہے۔ ہمارےملک میں موجودہ ٹیکس نظام اتنا ناکارہ اور فرسودہ ہے جس سے تبدیلی کی توقع رکھنا خام خیالی ہے۔حال میں وطن عزیز میں پچاس سے زیادہ انتہائی اہم کاروباری شخصیات سے بات ہوئی جن کا کاروبار تو کروڑوں اربوں میں ہے مگر وہ تین چار ہزار سے زیادہ ٹیکس ادا نہیں کرتے یہی نہیں وہ لاکھوں کی بجلی وغیرہ بھی استعمال کرتے ہیں مگر ٹیکس چند ہزار ادا کرتے ہیں وہ ٹیکس چوری ، یوٹیلٹی بلوں کی رقم نہ ادا کرکےان کی رقم کو اپنی بچت قرار دیتے ہیں جب اصرار کیا تو معلوم ہواکہ وہ صحیح ٹیکس اور یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی سے خوفزدہ ہیں ان کا کہنا تھا کہ اگر ایک دفعہ صحیح ٹیکس ادا کیا تو ہر سال اس میں اضافہ ہمارے لئے وبال جان بن جائے گا یعنی وہ ٹیکس نظام سے خوف زدہ ہیں جبکہ فرانس میں ٹیکس وصولی کےلئے باقائدہ فنانس بریگیڈ قائم ہیں جو بڑی بڑی کمپنیوں، مارکیٹوں کا باقائدہ جائزہ لیتے اور رپورٹ تیار کرکے جانچ پڑتال کرتے ہیں کاروباری طبقہ اعلیٰ سرکاری افسران سے تعلقات رکھتے ہیں جو اگر کوئی جانچ پڑتال یا چیکنگ ہو تو ان کی مدد کےلئے سرگرم ہوجاتے ہیں اس لئے موجودہ حکومت کو تجاوزات ، ٹیکس چوروں کو پکڑنے کے لئےسخت اقدام کرنا ہوں گے ہر طرف قانون کی بالادستی قائم کرنا ہوگی ، لوگوں کو روزگا ر کی فراہمی کےلئے ہر یوسی کی سطح پر ہفتے میں دو دن بازار لگاکر چھوٹے کاروباری لوگوںکو ان بازاروںمیں اسٹال لگانے کےلئے مالی امداد کرنا ہوگی، اس طرح گھروں تک روزمرہ کی اشیا پہچانے کا سلسلہ شروع ہوجائے گا ۔یورپی ممالک میں یہ بازار بڑی کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں جن میں ہزاروں، لاکھوں افراد کو روز گار کے مواقع حاصل ہیں ۔ آجکل نئی حکومت کے ِخلاف افواہیں پھیلا کر ملکی معیشت کو نقصان پہنچایا جارہا۔ حکومت کو اس کے تدارک کے لئے فوری اقدامات کرنا چاہئےاور ان تمام پہلووئں کا جائزہ لینا چاہئے کیونکہ اس قسم کے واقعات پر اوورسیز پاکستانی سخت پریشان ہیں۔
تازہ ترین