• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ میں آباد کئی ملین آباد مسلمانوں نے پاکستان سے مختلف ماحول میں احساس تحفظ کے ساتھ اسلامی سال اور محرم الحرام کا آغاز کرکے مساجد اور امام بارگاہوں میں ذکر و فکر کی مجالس منعقد کیں اور اپنے اپنے روایتی اور ثقافتی تناظر اور مذہی عقائد کے ساتھ نواسہٴ رسول ،اہل بیت کے فلسفہٴ شہادت اور مقاصد کو خراج تحسین پیش کیا۔ نیو یارک کے مرکزی علاقے مین ہٹن کے مشہور عالم پارک ایونیو پر عاشورہ کا جلوس ،ذوالجناح بھی آزادانہ اور پُرامن ماحول میں برآمد ہوا۔ جلوس میں پاکستان، ایران، لبنان، بھارت، افریقی اور عرب ممالک کے شیعہ مسلمان اپنے اپنے طریقے سے امام حسین اور اہل بیت کے ساتھ ہونے والے مظالم کا سوگ منا رہے تھے۔ ان کے ساتھ ساتھ بہت سے سنی مسلمان بھی اسی جلوس میں خود بھی شریک اور نذر و نیاز تقسیم کررہے تھے جبکہ جلوس کے منتظمین کی جانب سے تقسیم کئے جانے والے لنگر سے تمام شرکاء بلکہ بعض گزرنے والے امریکی بھی حلیم، بریانی شوق سے کھاتے دیکھے گئے۔ البتہ گزرنے والے امریکی، نیویارک پولیس کے ڈیوٹی پر موجود بعض پولیس افسر اور امریکی میڈیا کے بعض افراد ماتم کے حوالے سے سوال و جواب اور معلومات حاصل کرتے نظر آئے۔ مجھے یاد ہے کہ چند سال قبل وہاں سے گزرنے والے ایک ناواقف امریکی نے ماتمی جلوس دیکھ کر ایک قدرے بیہودہ لفظ کے ساتھ ماتم اور ذوالجناح کے جلوس کی وجہ جاننے کی کوشش کی تو ڈیوٹی پر موجود ایک غیرمسلم نیویارک پولیس آفسر نے اس کو روک کر صرف اتنا کہا کہ یہ ایک مذہبی عقیدہ والوں کا جلوس ہے اسے خیال کرنا چاہئے۔ اتنا سنتے ہی اس امریکی نے نہ صرف اس پولیس آفسر سے معافی مانگی بلکہ میرے قریب کھڑے دو مسلمانوں سے بھی اپنی لاعلمی کا اعتراف کرکے معافی مانگتا ہوا وہاں سے شرمندگی کے ساتھ چلا گیا۔نیویارک میں سوگواران حسین کو مذہبی آزادی کے تحت نہ صرف عوامی شاہراہ پر ماتم، زنجیر زنی اور سڑک بند کرکے ظہر کی نماز ادا کرنے کی اجازت ہے بلکہ نیویارک کے باوردی پولیس آفیسرز ماتم گساران حسین کے جلوس ذوالجناح اور سڑک پر ادائیگی نماز کے وقت تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اس سال اسلامی سال کے آغاز سے عاشورہ محرم کی مجالس نیویارک، واشنگٹن، شگاگو، لاس اینجلس سمیت امریکہ اور کینیڈا کے ہر بڑے شہر میں کئی کئی مقامات پر منعقد ہوئیں۔ سنی اور شیعہ عقائد کے دنیا بھر کے مختلف ممالک اور ثقافت و روایات کے حامل مسلمانوں نے اپنے اپنے انداز میں اسلامی سال کا آغاز اور واقعہ کربلا کو خراج عقیدت پیش کیا لیکن نہ کوئی تشدد، نہ کوئی تصادم اور نہ ہی کوئی بم دھماکہ ہوا، نہ اس غیر مسلم سیکولر امریکہ میں محرم کے تناظر میں کوئی مسلم اور غیر مسلم یا مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر کے درمیان کوئی کشیدگی اس سال دیکھنے کو ملی۔ ہاں! گزشتہ چند سالوں کے دوران آبائی وطن پاکستان سے بعض ایسے مقررین اور عالموں نے محرم الحرام میں ڈالر والے امریکہ کا رخ کرنا شروع کردیا تھا جن پر خود پاکستان بھر میں یا بعض صوبوں اور ضلعوں میں تقاریر کرنے پر محرم الحرام میں پابندی عائد کی جاتی ہے لہٰذا وہ محرم میں امریکہ آ کر فرقہ وارانہ انداز کی تقاریر کے ذریعے فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑکانے کا کام کرنے لگے مگر غیر مسلم امریکہ کے امیگریشن حکام اور نیویارک پولیس نے بڑی خوش اسلوبی اور حکمت عملی کے ساتھ مسلمانوں کے اس مسئلے کو خاموشی سے حل کرکے مسلمانوں کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور باہمی برداشت کا ماحول امریکہ میں قائم رکھا۔ اب بھی امریکہ میں آباد ہمارے بعض اپنے مسلمان بھائی ڈھکے چھپے انداز میں مسلم ہم آہنگی کے در پے رہتے ہیں لیکن یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ امریکہ میں پیدا ہونے یا پلنے والی نئی مسلم نسل کی ایک خاص بڑی تعداد محض پیدائشی روایتی مسلمان ہونے کے بجائے اسلامی تعلیم، فلسفہ و مقاصد کی عملی افادیت اور سائنسی دنیا کے تقاضوں سے آگاہ ہیں اور بعض صورتوں میں غیر مسلم امریکہ میں یہ نوجوان نسل عملاً زیادہ مفید اور موثر مسلم ترجمان ثابت ہو رہے ہیں۔ اسی لئے آپ کو امریکہ کی مساجد میں نمازوں کے دوران اونچی آواز میں آمین، خاموشی سے آمین، ہاتھ باندھ کر یا ہاتھ چھوڑ کر نماز ادا کرنے والے ایک دوسرے سے کاندھا ملا کر نہ صرف نماز ادا کرتے نظر آئیں گے بلکہ سلام پھیرتے ہی بعض مسلم ممالک کی روایت کے مطابق ایک دوسرے سے ہاتھ ملا کر اور ایک دوسرے کو سلامتی کے کلمات کہہ کر اٹھتے ہیں۔ یہی کیفیت آپ کو امام بارگاہوں میں نظر آئے گی کہ محرم کی مجالس، ماتم، گریہ و زاری کے ساتھ ساتھ ایران، لبنان، شام، عرب اور افریقی ممالک کے شیعہ عقائد کے مسلمان نرمی، خاموشی اور صبر و استقامت سے سوگواران حسین بنے نظر آتے ہیں اور کسی کو کسی سے ”اچھا“ مسلمان ہونے کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ سب کچھ غیر مسلم اور آئینی طور پر سیکولر امریکہ میں آباد مسلمانوں میں روز کا معمول ہے مگر افسوس کہ رواداری اور مسلمانوں کے مابین برداشت اور بقائے باہمی کے یہ مناظر اب اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سرزمین پر نظر نہیں آتے۔ ممکن ہے کہ بعض قارئین میرے بیان کردہ ان حقائق کو امریکہ نوازی قرار دیں اور پاکستان پر ڈرونز حملوں، دہشت گردی کی جنگ، گوانتاناموبے، امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف تعصب اور زیادتیوں کے بعض واقعات اور 11ستمبر کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے سانحے کے بعد امریکی ماحول میں مسلمانوں کیلئے تبدیل شدہ رویوں کا حوالہ دے کر امریکہ کو مسلمانوں کا دشمن قرار دیں لیکن میرا مقصد گزشتہ دو صدیوں کے اتار چڑھاؤ کے بعد تشکیل پانے والے امریکی معاشرے میں رواداری برداشت، ہر عقیدے اور مذہب کو برداشت و احترام و آزادی دینے کی مثال خصوصیت کو سامنے لانا ہے۔ وہ رواداری اور برداشت و باہمی احترام جو ہم مسلمان اپنے ہی مختلف مکاتب فکر کے مسلمانوں کو دینے میں تامل کرتے ہیں وہ ایک غیر مسلم امریکی معاشرے کے مسلمانوں کو حاصل ہے۔ رہی بات امریکی سرکار کی پالیسیوں اور اقدامات کی تو عرض ہے کہ بہت سے پیدائشی اور نسل در نسل امریکی شہری بھی ڈرونز حملوں، مشرق وسطیٰ میں امریکی کارروائیوں، افغانستان کی جنگ اور دیگر سرکاری امریکی اقدامات کے مجھ سے بھی زیادہ مخالف ہیں۔ اسی طرح ہر انسانی معاشرے کی طرح امریکہ میں اسلام فوبیا، مسلمانوں سے تعصب اور جرائم کرنے والے عناصر کا موازنہ مسلم ممالک کے معاشروں میں موجود مسلمان ناموں والے ایسے ہی انتہا پسند عناصر سے کیا جاسکتا ہے، کسی معاشرے کی مجموعی اور اکثریتی صورت حال کو اس کا ترجمان اور غماز سمجھا جاتا ہے۔ سانحہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے ماحول کے باوجود امریکی معاشرے میں مسلمانوں کے حقوق اور مذہبی آزادی کا جو ماحول ہے اس میں بہتری کا مطالبہ اور گنجائش ہے لیکن آج کے پاکستان میں پاکستان کے مسلمانوں کو اگر برداشت اور بقائے باہمی کا امریکہ جیسا ماحول ہی مل جائے تو کیا کہنا۔
تازہ ترین