• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خیال تازہ … شہزادعلی
ہمیں تو اپنے بزرگوں نے یہ درس دیا ہے کہ پاکستان سے محبت گویا ہمارے ایمان کا حصہ ہے کیونکہ یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا۔ پاکستان اور کشمیر ایک دوسرے کے لیے لازم اور ملزوم کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ کشمیر کو پاکستان کی اقتصادی شہ رگ قرار دیا جاتا ہے ۔ "پاکستان" کا مطلب کشمیر ہے۔ مگر ہر دور میں بدقسمتی سے ہم کشمیریوں میں ایک محدود مکتب فکر ایسے موجود رہا ہے کشمیری عوام کی واضح اکثریت کی سوچوں کے برعکس خیالات کا حامل رہا باالفاظ دیگر جو کشمیری اور پاکستانی کی تفریق پیدا کرتے رہے ہیں۔ مگر اس طبقے کو پذیرائی نہیں ملی ویسے اس لحاظ سے تو کشمیر کی پہچان اور شناخت ٹھیک ہے کہ کسی ممکنہ رائے شماری یا ریفرنڈم میں ہمیں بحیثیت کشمیری ہی اپنا حق رائے دہی استعمال کرنا ہے لیکن تحریک آزادی کشمیر دراصل تکمیل پاکستان کا ہی نام ہے ۔ ماضی میں جب پاکستان کو منگلا ڈیم کی تعمیر کی ضرورت پیش آئی تھی اس وقت بھی مخصوص نظریات سے متعلق یہ طبقہ پاکستان کے خلاف منافرت پھیلانے میں مصروف رہا آزادکشمیری باشندوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ پاکستان آپ کے حقوق غضب کررہا ہے ۔ منگلا ڈیم سے فائدہ تو پاکستان اٹھائے گا تو کشمیری کیوں اپنے باپ دادا کی قبروں کو غرقاب ہونے دیں۔ ہر چند کہ اس طرح کی فکر پھیلانے والوں کو بخوبی علم تھا کہ منگلا ڈیم پاکستان کے لیے کتنا اہمیت کا حامل منصوبہ ہے ۔یہ تو اس وقت کی آزاد کشمیر کی لیڈر شب کی وژن کا نتیجہ ہے اور آزاد کشمیر کے اکثریت عوام کی پاکستان سے فطری محبت کہ انہوں نے منفی آوازوں کو مسترد کردیا اور اخوت اور بھائی چارے کی شاندار مثال قائم کرکے منگلا ڈیم کی تعمیر کے منصوبے کو پروان چڑھایا ۔ بعد ازاں جب کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہوا اس عرصہ میں بھی پاکستان کی مملکت کے خلاف کسی بھی مہم کا حصہ نہیں بنے۔ حالانکہ میرپور کے لاکھوں کی تعداد میں جو باشندے بالخصوص برطانیہ میں آباد ہیں ان کی ایک قابل ذکر تعداد جو بہت خوشحال بھی ہے اور برطانیہ میں سیاسی طور پر بھی اثر و رسوخ کی مالک ہے مگر اکثریت مملکت پاکستان کی ہر طرح سے حمایتی ہے منگلا ڈیم کے حوالے بعض لوگوں نے میرپور کے لوگوں کے جذبات کو پاکستان کے خلاف بھڑکانے کی کوششیں کی ہے مگر اس کمیونٹی کو سلام پیش کیا جانا چاہئے کہ اس نے ہمیشہ پاکستان کے مفادات کو ترجیح دی۔ اب جو لوگ یہ استدلال پیش کرتے ہیں کہ میرپور کے باشندوں کو پاکستان کے فوجی حکمرانوں نے زور و جبر کے ذریعے خاموش رکھا ہے اس میں اس لیے کوئی وزن نہیں کہ آزاد کشمیر کی حد تک اگر اس تھیوری کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو برطانیہ میں تو پاکستان کی افواج کا تو کوئی اثرورسوخ یہاں کے کشمیریوں پر تو نہیں؟ اس طویل تمہید کا مقصد یہ ہے کہ آج جب وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اوورسیز پاکستانیوں سے ڈیمز فنڈز میں مدد کی اپیل کی جارہی ہے تو برطانیہ کے کشمیری پاکستانی جو کئی دیگر اوورسیز پاکستانیوں کی نسبت مالی طور پر بھی خوشہال نہیں پیں بلکہ برٹش پارلیمنٹ ہاوس آف لارڈز اور کونسلوں کے اندر بھی ان کی موثر آواز بںے۔برطانیہ کی تینوں بڑی جماعتوں میں کئی کلیدی پوزیشنوں پر پاکستانی کشمیری کمیونٹی کی نمائندگی بںے۔ ان کو پی ٹی آئی یا عمران خان سے شاید سیاسی یا نظریاتی اختلاف ہوسکتا ہے مگر برطانیہ جیسے روشن خیال ترقی یافتہ ملک میں رہ کر ان کویہ بخوبی اندازہ ہے کہ ڈیمز کی تعمیر پاکستان کے لیے کتنی اہمیت کی حامل ہے۔ ان کی بڑی تعداد پاکستان کے لیے کچھ کرنے کی تڑپ رکھتی ہے یہ برٹش پاکستانی کشمیری پاکستان کی الفتوں میں گوندے ہوئے ہیں ۔ لیکن خدشہ ہے کہ ماضی کی طرح کشمیری کمیونٹی کی بھاری اکثریت سے الگ نظریات رکھنے والے کہیں پھر نہ سرگرم ہو جائیں۔ یہ مکتب فکر منگلا ڈیم کے زخم بھی اپنے مخصوص نظریات کی آبیاری کے لیے پھر کوشش کرسکتے ہیں کہ نئے ڈیمز کے حوالے سے کئی طرح کے شکوک و شبہات پیدا کرنے کی سعی کریں گے اس تناظر میں یہ ازحد ضروری ہے کہ برطانیہ میں محب وطن پاکستانی کشمیری میڈیا اپنے حصےکا کردار ادا کرے۔اور برطانیہ میں پاکستانی کشمیری کمیونٹی میں یہ آگاہی دلانے کے لیے بھرپور میڈیا کمپئین چلائی جائے جس سے کمیونٹی کو باور کرایا جاسکے کہ پاکستان کی بقا کے لیے ڈیموں کا قیام ناگزیر ہے ۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ ڈیموں کی تعمیر سے ملک کے عوام کی خوشحالی میں مضمر ہے۔ ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ وطن عزیز کی نہری زمینوں سے فی ایکڑ کے حساب سے تین لاکھ روپے کی سالانہ پیداوار ہوتی ہے۔ پچاس لاکھ ایکڑ رقبہ صرف کالا باغ ڈیم سے سیراب اور شاداب ہوگا۔ مگر اس وقت پانی کی سخت قلت اور کمی کے باعث نہریں خالی ہیں۔ جولائی کے ڈان کے ایک شمارے میں یہ چونکا خیز رپورٹ نظر سے گزری کہ ملک میں پانی کے وسائل میں بے حد کمی آچکی ہے اور ارسا ۔ ۔انڈس ریورسسٹم اتھارٹی کو صوبوں کے پانی میں 14فیصد کٹوتی کرنا پڑی کہ منگلا اور تربیلا پانی کے دو بڑے ذخائر میں تاریخی طور پر پانی کی کمی واقع ہوئی ۔ کل ذخیرہ 0۔89۔ 0ملین ایکڑ فیٹ نوٹ کیا گیا جبکہ گزشتہ سال اسی دن یہ سٹوریج 81۔6ملین ایکڑ فٹ تھی۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی کل سٹوریج 13.681ملین ایکڑ فیٹ ہے۔ تربیلا ڈیم بہت الارمنگ سٹیج پر ہے اور منگلا کی صورت حال بھی درخشاں ہر گز نہیں ۔ تو ایسے میں جب ملک کے اندر ہمارے بہن بھائی پانی کی بوند کو ترس رہے ہوں۔ ملک کے بنجر اور ویران ہونے کے خدشات سر پر منڈلاتے دکھائی دیتے ہوں۔ اور جب بجلی بھی اس باعث غائب ہو جائے گی تو ملک کا اقتصادی پہیہ رک جائے گا۔ تو کیا جو پاکستانی کشمیری برطانیہ میں آج زندگی کی مختلف آسائیشوں کو انجوائے کر رہے ہیں ان کا یہ قومی فریضہ نہیں ہے کہ وہ بڑھ چڑھ کر ڈیموں کے فنڈز میں عطیات دیں؟ اللہ پاک پاکستان کی مشکلات کو آسان کرے۔ ہمیں یقین ہے کہ ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچانے کی باتیں کرنے والے لوگ ناکام و نامراد رہیں گے اور اوورسیز ڈائیسفر بالخصوص برطانیہ کے پاکستانی کشمیری ماضی سے بھی بڑھ کر وطن کے لیے اپنے حصے کا کردار ادا کرنے کے لیے کمر بستہ ہو جائیں گے۔
تازہ ترین