• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پانی کا بحران ہمارے روایتی تاریخی رویوں اور اعمال کے مطابق سر پر آن کھڑا ہوا، ڈیموں کی تعمیر کی داستان بے حد اندوہناک اور ہمارے قومی طرز عمل کے بھیانک ابواب پر مشتمل ہے۔ شکر ہے چیف جسٹس آف پاکستان اور وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اس کی تلافی کے لئے انسانی حد تک نتیجہ خیز کوششوں کے بند کھول دیئے۔

جمعہ کی شام اپنے تازہ ترین قومی نشریاتی پیغام میں وزیراعظم نے کہا ’’اوورسیز پاکستانی ڈیموں کیلئے ڈالر دیں۔ یورپ اور امریکہ میں مقیم فی پاکستانی کم از کم ایک ہزار ڈالر کا قومی حصہ ڈالے۔ ’’وزیراعظم نے احساس دلایا آزادی کے وقت ہر پاکستانی کے حصے میں 5600 کیوسک پانی آتا تھا، آج ایک ہزار رہ گیا‘‘ پانی کے بحران پر چیف جسٹس پاکستان کی سعی و جہد کا ذکر کرتے ہوئے کہا اور یہ اعتراف بھی کیا کہ ’’چیف جسٹس سے بات کرلی، سی جے اور پی ایم فنڈ اکٹھا کر رہے ہیں، چیف جسٹس کو سلام کہ یہ کام ہم سیاستدانوں کا تھا، انہوں نے کیا، کسی بھی ملک میں 120دن کا پانی ذخیرہ ہونا چاہئے‘‘۔

وزیراعظم کی اپیل پر اندرون ملک اور بیرون ملک پاکستانیوں نے اپنی عظیم روایات کے تحت دھوکا کھانے کے باوجود ایک بار پھر پانی کے متوقع قومی بحران میں سر دھڑ کی بازی لگانا شروع کر دی ہے، ان سطور کے لکھنے تک پاکستانی کرنسی میں ڈیڑھ ارب روپے سے زائد رقم اکٹھی بھی ہو چکی ہے، دھڑا دھڑ اعلانات اور عملی اقدامات کا تسلسل پورے جوبن پر ہے۔

ادھر پاکستان میں لوٹی دولت اور احتساب کا نعرہ پھر شروع کر دیا گیا ہے بلکہ قرین انصاف یہ ہے کہ عمران خان کی ساری سیاست ہی احتساب کے منشور پر مبنی ہے، تاہم اس ملک میں احتساب کی ’’تاریخ‘‘ میں ’’حسب روایت‘‘ آلودگیوں کا سمندر ہے جس پر مورخ طبع آزمائی کرتے رہیں گے، جو ہونا تھا ہو گیا، جنہوں نے کرنا تھا کر چکے، اس قوم کو ایک کردار ’’سیف الرحمٰن‘‘ شاید کبھی نہ بھول سکے جس کی سربراہی میں چلنے والے احتسابی عمل کا ہر باب انسانیت کے اصولوں کا شاید سب سے بڑا قبرستان ہے۔

رہ گئی لوٹی دولت کی واپسی، تو اس معاملے میں ’’جنگ‘‘ کے عمر چیمہ کی تجزیاتی اور معلوماتی رپورٹ کا کم از کم کچھ حصہ ایک بار پھر پڑھ لینے کی زحمت گوارا کر لیں جن کا کہنا ہے:

’’2000ء میں کرپشن کے خلاف مہم اپنے عروج پر رہی۔ بدعنوان عناصر کے خلاف رویہ ’’صفر برداشت‘‘ کا تھا۔ فوجی حکمراں پرویز مشرف کے دور میں احتسابی عمل کے ذمہ دار لیفٹیننٹ جنرل (ر) سید امجد حسین نے 200پاکستانیوں کی فہرست پیش کی تھی۔ جن پر مبینہ طور پر عوام کا پیسہ لوٹ کر بیرون ممالک رکھنے کا الزام تھا۔ چوری کے ان اثاثوں کا کھوج لگانے کے لئے ایک غیر ملکی فرم سے معاہدہ کیا گیا۔ جو اثاثے بازیاب ہوتے ان میں سے 20فیصد اس فرم کو ملتا۔ 2003ءمیں معاہدہ مقدمہ بازی کے نتیجے میں ختم ہو گیا۔ آف شور کمپنی براڈ شیٹ ایل ایل سی نے نیب کے خلاف 50کروڑ ڈالرز کا مقدمہ دائر کر دیا۔ کونسل آف انٹرنیشنل آربٹریشن (سی آئی اے) میں معاہدے کی خلاف ورزی پر مقدمہ کیا گیا۔ جس میں پرویز مشرف حکومت پر الزام عائد کیا گیا کہ اس نے فراہم کردہ معلومات ہدف شدہ افراد کو نشانہ بنانے کی غرض سے سودے بازی کے لئے استعمال کیں۔ اب جبکہ لندن میں قائم سی آئی اے کا فیصلہ جلد آنے والا ہے جس میں پاکستان کے لئے ریلیف کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ ایسے میں بدعنوان عناصر کی ایک اور فہرست گردش میں ہے۔ اس بار انسداد بدعنوانی کی مہم کی قیادت عمران خان حکومت کے ہاتھوں میں ہے۔ بدعنوان عناصر کے خلاف اس مہم کے پہلے مرحلے میں 100بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالا جائے گا۔ 2000ء میں بازیاب رقوم کا 20فیصد اس غیر ملکی فرم کے لئے محفوظ رکھا گیا تھا۔ اب اتنی ہی رقم دینے کا وعدہ بدعنوانی کی نشاندہی کرنے والوں کے لئے رکھا گیا ہے۔

اب دیکھتے ہیں یہ مہم مشرف کے دور کی طرح کس کی جانب سے احتساب کرنے والوں کے خلاف مقدمہ دائر کرنے پر منتج ہوتی ہے یا کوئی نتیجہ بھی نکلتا ہے، اس کے لئے صبر کے ساتھ انتظار فرمائیں، بدگمان بیشک نہ ہوں مگر خوش فہمی کو بھی خود سے دور رکھیں۔

کالم کی دم: عدلیہ بحالی تاریخ اور خواجہ سعد رفیق کا اعتراف

پاکستان مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے ’’عدلیہ بحالی تحریک میں شامل ہونا ہماری غلطی تھی، ہمیں لگتا ہے کہ آصف زرداری کی اس وقت باتیں ٹھیک تھیں، عدلیہ بحالی تحریک میں نواز شریف کو تجویز دی تھی کہ ایک بار سوچ لیں، ہمیں لگتا تھا کہ اب مارشل لاء کی چھاپ بھی نہیں آئے گی لیکن سارا کام الٹا ہو گا۔

لاہور میں ’’مسلم لیگ‘‘ ن کے رہنما آصف کرمانی کے والد سعید کرمانی کی یاد میں منعقدہ تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ عمران خان کی ’’سلیکشن‘‘ کر کے قوم کے لیڈر کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ نواز شریف کو سزا دینے کے بعد اب ثبوت ڈھونڈھے جا رہے ہیں۔

عدلیہ بحالی تحریک کے حوالے سے خواجہ سعد رفیق کا اعتراف دراصل پاکستانی تاریخ کے زوال پذیر پہلو کی کہانی ہے، پاکستان کی قومی تباہی اور نقصان میں ہمارے اجتماعی رویے ’’جنون‘‘ کے علمبردار رہے، ہم نے پاکستان کی جڑوں میں پورے خلوص اور ایمان کیساتھ زہریلا پانی چھوڑ دیا۔ وقت بتائے گا اس تحریک کے نتیجے میں قانون کے محافظوں، وکیلوں اور مرکزی کردار نے جو بیج بوئے وہ ملک میں رہی سہی آئینی اور قانونی تہذیب و روایات کو کس بھائو پڑے ہیں، بہرحال انسانی زندگی میں جو بربادی ہونی ہوتی ہے وہ ہو چکی ہے۔ مجموعی طور پر اس کا ازالہ ہوتے نہ دیکھا نہ پڑھا باقی وہ ہی جانتا ہے جو سب جانتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین