• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد (عمر چیمہ) بیگم کلثوم نواز چل بسی ہیں۔ انہوں نے سوگواران میں دو بیٹوں کو چھوڑا ہے جو انکے جنازے میں شرکت کیلئے پاکستان نہیں آسکتے۔ انہوں نے سوگواران میں شوہر اور بیٹی چھوڑی ہے جو جیل میں ہونے کے باعث ان کی عیادت کیلئے نہ جاسکے۔ مختصر یہ کہ انہوں نے اپنے پیچھے بحران کا شکار ایک خاندان چھوڑا ہے۔ انکے شوہر کیلئے یہ ایک اور بحران ہے جو سیاسی سے زیادہ جذباتی ہے۔ نواز شریف اپنی شریک حیات کے انتقال پر افسردہ ہیں جن کے ساتھ انہوں نے 47سال گذارے۔ انہوں نے ایسی بیوی کھو دی جو نہ صرف بیوی تھی بلکہ مشکل کے وقت میں سب سے زیادہ مضبوط سیاسی حامی تھیں۔ مشرف کی آمریت کے خلاف جب نواز شریف کو اٹک کے قلعے میں قید کردیا گیا تھا، بیگم کلثوم نواز کی سخت مزاحمت آج بھی عوام کے ذہنوں میں تازہ ہے۔ اس مزاحمت کا حوالہ سیاسی مخالفین سمیت تمام تر حلقوں کی جانب سے دئے گئے تعزیتی بیان میں دیا گیا ہے۔ نواز شریف نے ایسی بیوی کھودی ہے جن کی بیماری کا کئی عناصر نے مذاق بنایا۔ بیگم کلثوم نواز جب وینٹی لیٹر پر تھیں، پروپیگنڈامشینری زوروں پر تھی اور بیماری کے حوالے سے نامناسب تبصرے کئے جارہے تھےجس سے مخالفین کی ذہنی حالت کا اندازہ ہوتا تھا کہ وہ نازک حالات میں بھی باز نہیں آتے۔ بہت سوں نے قیاس آرائی کی کہ بیگم کلثوم نواز کا انتقال ہوچکا ہے لیکن شریف خاندان موت کے اعلان کے لئے مناسب وقت کا انتظار کررہا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب انتخابات نزدیک تھے۔ مخالفین کا خیال تھا کہ ایسے وقت میں جب نواز شریف کو ولن کے طور پر پیش کیا جارہا ہو، بیوی کے ساتھ ہمدردی کرنے سے شاید وہ سیاسی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہ رہے تھے۔ نواز شریف نے ایسی بیوی کھو دی جس کے ساتھ انہوں نے کئی ہفتے ان کے بستر علالت پر اس انتظار میں گذار دیئے کہ انہیں ہوش آجائے۔ پاکستان میں احتساب عدالت کو جلدی پڑی ہوئی تھی کہ انتخابات سے قبل ایون فیلڈ ریفرنس میں فیصلہ دیا جائے۔ نواز شریف کی وطن واپسی سے قبل فیصلہ ایک ہفتے موخر کرنے کی تاکہ وہ اپنی بیمار بیوی کی آواز سن سکیں، استدعا مسترد کردی گئی تھی۔ اگر اسلام آباد ہائی کورٹ احتساب عدالت کے فیصلے کو معطل کردیتی، نواز شریف اپنی بیوی کو دیکھنے واپس آسکتے تھے۔ ججوں کے ذہنوں کو پڑھنا مشکل کام ہے لیکن جس طرح نے خود کو عدالت کے سامنے لاچار سمجھااور دورکنی بینچ کے ریمارکس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عدالت کی نظروں میں نواز شریف کی استدعا معقول تھی۔ججوں نے ریمارکس دیئے کہ نیب میں نواز شریف کے خلاف کوئی کرپشن ثابت نہیں ہوئی۔ پھر بھی فیصلے کو ججوں کی تعطیلات کے بعد تک کے لئے محفوظ کرلیا گیا۔ یہ چیز دوبارہ سنی جارہی ہے کہ اگر کوئی دفاع کے لائق دلیل ہوتی تو نیب ضرور پیش کرتی۔ فیصلہ سنانے کیلئے نیا ٹائم فریم اگلے ہفتے مقرر کیا گیا ہے۔ نواز شریف کے لئے رنج و غم کا دوسرا سبب انکے بچے ہیں۔ وہ بچے اپنی ماں کھو چکے ہیں۔ انکی بیٹی مریم اس وقت انکے ساتھ جیل میں ہیں۔یہ سوچ کے رحلت کرجانے والی بیگم کلثوم نوازاپنی بیٹی کو دیکھنا چاہ رہی ہوں گی، نواز شریف کو مزید رنج میں مبتلا کر رہی ہوگی۔ مریم کو یہ احسانس کہ وہ جیل میں ہونے کے باعث اپنی والدہ سے بات نہ کرسکیں ساری زندگی انہیں تنگ کئے رکھے گا۔ اب جب کہ نواز شریف اور مریم کو جنازے میں شرکت کیلئے پیرول پر رہا کیا جائے گا، یہ بات کہ حسین اور حسن اپنی والدہ کے جنازے کے ساتھ نہیں ہوگے نواز شریف کو مزید تکلیف پہنچائے گا۔ اتفاق سے نواز شریف اپنے والد میاں شریف کے جنازے میں شریک نہ ہوسکے تھے۔ میاں شریف کے انتقال کے وقت پورا شریف خاندان سعودی عرب میں جلاوطنی کی زندگی گذار رہا تھا۔ مشرف حکومت نے نواز شریف کو جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں دی تھی۔ نوازشریف کے بچوں کی قسمت بھی یہ کچھ دیکھ ر ہی ہے۔ اگرچہ ان کے بچوں پر پاکستان واپس آنے کیلئے کوئی پابندی نہیں لیکن انہیں یہاں پہنچتے ہیں احتساب عدالت کے اشتہاری قرار دیئے جانے کے باعث گرفتار کرلیا جائے گا۔ ایسا صرف نواز شریف کے ساتھ ہی نہیں ہورہا۔ بھٹو خاندان بھی ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد ایسے ہی بحران سے گذرا۔ بیگم نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو کو سہالہ ریسٹ ہاوس میں قیدکردیا گیا تھا۔ انہیں آخری ملاقات کی اجازت یہ بتائے بغیر دی گئی کہ یہ آخری ملاقات ہے۔ ان کے خاندان کو اس وقت آخری ملاقات کا پتہ چلا جب ذالفقار بھٹو نے جیلر پر صاف صاف بتانے کیلئے زور دیا۔ جب ذوالفقار بھٹو کے جنازے کو لاڑکانہ میں تدفین کیلئے اڑان بھری گئی تو بیوی اور بیٹی کو اجازت نہیں دی گئی۔ اس حوالے سے سوال کرنے پر ضیا الحق کا کہنا تھا کہ اسلام میں عورتوں کی جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں۔ اس وقت مرتضی بھٹو اور شاہنواز بھٹو جلا وطنی کی زندگی گذار رہے تھے۔ جنازے میں صرف 12افراد نے شرکت کی تھی۔ جس مقدمے میں ذوالفقار بھٹو کو پھانسی کی سزا دی گئی وہ بعد ازاں جھوٹا مقدمہ ثابت ہوا اور جسٹس نصیم حسن شاہ جو سزا سنانے والی بینچ کے رکن تھے، اعتراف کیا کہ عدالت نے ایسا فیصلہ فوج کے دباو کے تحت دیا تھا۔

تازہ ترین