• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی آئی اے کا مجموعی خسارہ 350ارب سے زائد، 2017ء کی سالانہ رپورٹ میں 9ماہ کی تاخیر

کراچی (اسد ابن حسن) پی آئی اے کی اعلیٰ انتظامیہ نے مبینہ طور پر فیصلہ کیا ہوا ہے کہ ادارے کی سالانہ آڈٹ رپورٹ عام پبلک کیلئے نہ سہی ماضی کی طرح اپنی ویب سائٹ پر جاری کرے گی اور نہ ہی شائع شدہ رپورٹ کسی غیر متعلقہ فرد کو فراہم کی جائے گی۔ یہاں تک کہ میڈیا رپورٹرز کو بھی رپورٹ کی فراہمی کے حوالے سے ترجمان پی آئی اے نے بے بسی کا اظہار کیا۔ تفصیلات کے مطابق پی آئی اے کی ویب سائٹ پر باقاعدگی سے ادارے کی سہ ماہی، شہ ماہی اور سالانہ رپورٹس شائع ہوئی تھیں جس سے صحافیوں اور پی آئی اے کے شیئر ہولڈرز اور عوام کو سالانہ ہونے والے نقصان کا علم ہوجاتا تھا۔ ادارے کی آخری رپورٹ جو ویب سائٹ پر موجود ہے وہ سال 2016ء کی ہے جبکہ 2017ء کی تیسری سہ ماہی کے مطابق مجموعی خسارہ 297ارب روپے تھا اور باخبر ذرئع کے مطابق مزید ایک برس میں یہ خسارہ 350ارب سے زائد تک پہنچ گیا ہے۔ جبکہ ادائیگیوں کا حجم 193ارب سے زائد تھا جو اب بڑھ کر 250ارب سے زائد ہوگیا ہے۔ پی آئی اے کی سالانہ آڈٹ رپورٹ میں سب سے متنازع مد Others (دیگر) کی رہتی ہے جس میں ہر سال کئی ارب روپے دکھائے جاتے ہیں۔ یہ وہ مد ہے جس میں ادارے کی طرف سے جاری کردہ مفت ٹکٹ ملکی اور بین الاقوامی روٹس پر جاری کیے جاتے ہیں، اسی مد میں ایک اور خرچ بھی ڈال دیا جاتا ہے اور وہ پروازوں کی تاخیر کی وجہ سے مسافروں کو ہوٹلوں میں ٹھہرانا، ان کی ٹرانسپورٹ کے اخراجات اور کھانا پینا یہ سب پی آئی اے ادا کرتا ہے جیسا کہ گزشتہ روز ٹورنٹو کی فلائٹ میں 22گھنٹے کی تاخیر ہوئی، کراچی اور لاہور میں مسافروں کو ہوٹل میں ٹھہرایا گیا اور ایسا ہی کینیڈا میں ہوا، لہٰذا اس مد میں سالانہ کروڑوں روپے اضافی خرچ ہوتے ہیں۔ جیسا کہ پی آئی اے کا بوئنگ 777 طیارہ تین یوم تک افریقی ملک میں خرابی کی بناء پر کھڑا رہا اور ادارے کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا اور یہ نقصان بھی دیگر کی مد میں ڈال دیا گیا۔ اس کے علاوہ حج سیزن میں تین سے چار سو ملازمین چاہے ان کو کئی تجربہ ہو یا نہ ہو، پسندیدگی کی بنیاد پر سعودی عرب 30/30یوم کے لیے ٹرانسفر کردیا جاتا ہے اور ہر ملازم کو پانچ لاکھ روپے ملتے ہیں، یہ اخراجات بھی دیگر کی مد میں ڈال دیئے جاتے ہیں۔ موجودہ دور میں پی آئی اے میں چھوٹی گاڑیاں تو بہت کم خریدی جاتی ہیں، بیشتر گاڑیاں 1700سی سی کی خریدی جاتی ہیں اور وہ بھی دو تین برس بعد، اسی افسر کو کوڑیوں کے مول فروخت کردی جاتی ہیں اور یہ نقصان بھی دیگر کی مد میں ڈال دیا جاتا ہے۔ پی آئی اے کے بیشتر افسران ملکی دوروں پر رہتے ہیں اور ان آن کارپوریشن ڈیوٹی (ٹی اے ڈی اے) کی مد میں کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں اور یہ اخراجات بھی دیگر کی مد میں ڈال دیئے جاتے ہیں۔ افسران کو روزانہ کی بنیاد پر پی آئی اے کیئرنگ سے سالانہ کروڑوں روپے کے کھاتے فراہم کیے جاتے ہیں، وہ بھی دیگر کی مد میں ڈال دیئے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پی آئی اے انتظامیہ سالانہ آڈٹ رپورٹ شائع کرنے یا اس کو پبلک کرنے سے اجتناب کررہی ہے۔ باخبر ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ پی آئی اے کو حکومت گرانٹ نہیں دیتی بلکہ بینکوں سے بھاری سود پر قرضہ لینے کی گارنٹی دیتی ہے اور اس وقت قومی ایئرلائن بینک رپٹ (دیوالیہ) ہوچکی ہے کہ اس کی ادائیگیوں اور اثاثہ جات میں 300فیصد کا فرق ہے۔ سالانہ آڈٹ رپورٹ حاصل کرنے کیلئے پی آئی اے کے ترجمان مشہور تاجور سے متعدد بار بات چیت ہوئی اور وہ ہر مرتبہ یقین دھانی کرانے کے بعد ایک نیا عذر پیش کردیتے تھے اور منگل کو آخرکار اُنہوں نے اپنی بے بسی کا اظہار کیا۔
تازہ ترین