• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابق وزیراعظم میاں نواز شریف جب جنرل (ر) پرویز مشرف کی آمریت کے دور میں اٹک جیل میں تھے تو وہاں بعض دوسرے سیاسی اسیر بھی اٹک قلعے میں صعوبتوں کے شب وروز گزار رہے تھے ۔ ان میں ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار بھی شامل تھے جو غالباً کراچی میں صوبائی وزیر بلدیات کی حیثیت سے سرکاری رقوم کی وصولی کے بعد لندن بھیجنے کے الزام میں گرفتار تھے ۔ اٹک قلعے میں گفتگو کے دوران ایک موقع پر انہوں نے بتایا کہ میاں نواز شریف سے کم وبیش روزانہ ہی ملاقات ہوجاتی ہے اور ان دنوں میں اُن کے ’’پرسنل اسٹنٹ ‘‘کے طور پر بھی کام کررہا ہوں ۔ پھر انہوں نے مُسکراتے ہوئے کہا کہ اپنے کیس کے سلسلے میں نہ صرف وہ مجھ سے مشاورت کرتے ہیں بلکہ میں اُن کی معاونت اس شکل میں کرتا ہوں کہ ڈیٹا ٹائپ کرنے یا مسودے کو درست کرنا بھی میری ’’اعزازی ذمہ داری ‘‘تھی ۔ڈاکٹر فاروق ستار نے بتایا جب اُن کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز نے اُن کی رہائی کے لئے تحریک چلائی تو اُنہیں اس بات کا یقین نہیں تھا کہ اس حوالے سے کوئی مؤثر کردار ادا کرسکیں گے لیکن ایک موقع ایسا بھی آیا جب اُنہوں نے مجھے اخبار میں شائع بیگم کلثوم نواز کی تقریر کرتے ہوئے ایک تصویر دکھائی اور خوشدلی سے کہا ۔۔۔ڈاکٹر صاحب ! کلثوم نواز تو واقعی لیڈر بن گئیں۔ نوازشریف کے پہلی مرتبہ 6 نومبر 1990ء کو وزیراعظم کا منصب سنبھالنے پر بیگم کلثوم نواز کو خاتون اول بننے کا اعزاز حاصل ہوا جو 18 جولائی 1993ء تک برقرار رہا۔ وہ 17 فروری 1997ء کو دوسری مرتبہ خاتون اول بنیں۔ 12 اکتوبر 1999ء کو فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے وزیر اعظم نواز شریف کا تختہ الٹ دیا اور انہیں بھیج دیا گیا۔ امور خانہ داری نمٹانے والی خاتون بیگم کلثوم نواز کو تنہا اپنے شوہر کے حق میں آواز اٹھانا پڑی۔ انہوں نے نہ صرف شوہر کی رہائی کیلئے عدالت سے رجوع کیا بلکہ مسلم لیگ (ن) کی ڈوبتی کشتی کو بھی سہارا دیا۔ انہوں 1999ء میں مسلم لیگ (ن) کی پارٹی کی قیادت سنبھالی اور لیگی کارکنوں کو متحرک کیا ۔بانی جمہوریت جسے اُن کے مخالفین اپنے شوہر کی رہائی کے لئے چلائے جانے والی تحریک بھی کہتے تھے کے دوران جب بیگم کلثوم نواز راولپنڈی آئیں تو اُن کا خیال تھا کہ راولپنڈی جو میاں نواز شریف سے ہر موقع پر والہانہ محبت کا اظہار کرتا ہے اس کٹھن مرحلے میں بھی اُسی انداز میں اپنے قائد کا ساتھ دینے کے لئے اُن کے ہمراہ سڑکوں پر ہوگا۔لیکن اُن کا یہ بھرم اُس وقت چکنا چور ہوگیا ، جب اُنہوں نے دیکھا کہ اُن تک رسائی حاصل کرنے کی خواہش رکھنے والے مسلم لیگی اُن کا فون سننے کے بھی روادار نہیں تھے اور نہ ہی پیغام کا جواب دینے کے۔ ایسے میں مسلم لیگی راہنما چوہدری تنویر خاں (موجودہ سینیٹر) جن کے پاس اس وقت کوئی تنظیمی ، حکومتی یا پارلیمانی منصب نہیں تھا انہوں نے اور اُن کے خاندان نے اپنے گھر کے دروازے اُن پر کھول دیئے اور اُن کا گھر بیگم کلثوم نواز کی احتجاجی اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔ چوہدری تنویر کی اہلیہ فرزانہ چوہدری عملی طور پربیگم کلثوم نواز کی سیکرٹری بن گئیں ۔ یہیں پر انہوں نے راولپنڈی کی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ میرے بارے میں یہ تاثر درست ہے کہ میں ایک ایسی گھریلو خاتون ہوں جس کا سیاست سے کوئی سروکار نہیں ۔ لیکن وقت آنے پر ’’ دوپٹے کو پرچم بنالینا بھی ہماری قومی اور ملی روایت ہے‘‘ اُن کا کہنا تھا کہ بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ میں اپنے شوہر کی رہائی کے لئے احتجاجی تحریک چلارہی ہوں، یہ بات بھی درست ہے لیکن درحقیقت میرا جذبہ اور مقصد ملک میں جمہوریت کی بحالی ہے۔ میں نہ صرف یہ چاہتی ہوں کہ میاں نواز شریف رہا ہوں بلکہ میرا یہ مقصد بھی ہے کہ ملک میں جمہوری نظام بحال ہو ۔ ایسا جمہوری نظام جس میں کوئی آمر کسی سیاسی کارکن یا راہنما کو جیلوں اور قلعوں کے اندر اذیتیں نہ دے۔ وہ 2002ء میں پارٹی قیادت سے الگ ہو گئیں۔اس دوران لاہور میں ایک احتجاج کے دوران گاڑی میں بیٹھی کلثوم نواز کی گاڑی کو پولیس نے لفٹر سے اٹھوا لیا لیکن کلثوم نواز نے اس دور میں بھرپور انداز میں پارٹی کی قیادت سنبھالی۔ جون 2013ء میں انہیں تیسری مرتبہ خاتون اول ہونے کا اعزاز حاصل ہوا جو صرف 28 جولائی 2017ء تک ہی رہ سکا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر نوازشریف کو نہ صرف وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑا بلکہ انہیں این اے 120 سے ڈی سیٹ کردیا گیا۔ ضمنی الیکشن کا شیڈول جاری ہوا تو مسلم لیگ (ن) نے نوازشریف کی اہلیہ کو میدان میں اتار دیا۔ بیگم کلثوم نواز علیل ہونے کے باعث 17 اگست کو لندن روانہ ہوئیں جہاں لندن کے بہترین ڈاکٹرز کی ایک ٹیم ان کا علاج کر رہی تھی۔ دوران علالت ہی الیکشن میں ان کی کامیابی کا اعلان کیا گیا جس پر مسلم لیگ ن کے حلقوں کی جانب سے بے پناہ خوشی کا اظہار کیا گیا۔ مگر وہ قومی اسمبلی کی رکنیت کا حلف لینے سے قاصر رہیں۔ بیگم کلثوم نواز طویل علالت کے دوران بے ہوشی کی حالت میں رہیں۔ اس دوران ان کی بیٹی مریم نواز ، بیٹے حسین نواز اور حسن نواز بھی ہسپتال میں مسلسل موجود رہے اور ان کی تیمارداری میں مصروف تھے۔ اس دوران انہیں ایک دو بار ہوش بھی آیا اور انہوں نے ہسپتال میں موجود اپنے اہلخانہ سے بات چیت بھی کی جس کے بعد امید کی جا رہی تھی کہ ان کی حالت بہتر ہوجائے گی۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا اور وہ اسی علالت کے دوران خالق حقیقی سے جا ملیں۔ نواز شریف اور مریم نواز کی وطن واپسی کے بعد کلثوم نواز کے ساتھ ان کا رابطہ اس طرح نہ رہ سکا کیونکہ شدید علالت کے باعث وہ وینٹی لیٹر پر تھیں اور ٹیلی فون پر بات کرنے کے قابل بھی نہ تھیں۔ اسی حالت میں وہ انتقال کر گئیں۔اسے قسمت کی ستم ظریفی ہی کہا جاسکتا ہے کہ 1999 میں جب سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اسیری کی اذیتیں برداشت کررہے تھے تو اُس وقت بیگم کلثوم نواز سڑکوں پر بحالی جمہوریت کے لئے تحریک چلارہی تھیں اور مقاصد کے حصول کے لئے اپنے شوہر کے ساتھ تھیں لیکن آج 2018میں نواز شریف ایک بار پھر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں سلاخوں کے پیچھے قید ہیں لیکن اس مرتبہ بیگم کلثوم نواز اُن کاساتھ چھوڑ گئیں، ہمیشہ ہمیشہ کیلئے……

تازہ ترین