• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انگریز نواز مصنف اور دانشور وی ایس نائپال اور نراد چوہدری

جب گیارہ اگست 2018ء کو نوبل انعام یافتہ ادیب وی ایس نائپال اس دنیا سے سدھارے تو اس خبر نے ذہن میں ایک اورنام کی یاد دلائی، وہ نام وی ایس نائپال سے زیادہ نہیں تو کچھ کم بھی نہیں تھا ،یعنی نراد چوہدری کا نام۔

نائپال اور نراد چوہدری دونوں یکساں درجے کے گستاخ تھے۔دونوں بھارت سے نفرت کرتے اور اس کی تہذیب و ثقافت سے بھی اور خود اپنے بھارتی پس منظر کے بارے میں زہر اگلتے رہتے تھے۔

نائپال نراد سے پینتیس سال چھوٹے تھے، مگر دونوں کی تحریروں نے بیسویں صدی کے نصف آخر میں خاصی ہل چل پیدا کی۔ نائپال پر گفتگو کرنے سے پہلے آئیے نراد چوہدری پر ایک نظر دوڑاتے ہیں۔

نراد چوہدری 1897ء میں مشرقی بنگال (جو اب بنگلہ دیش ہے) میںپیدا ہوئے اور102 سال کی عمر پاکر 1999ء میں اوکسفرڈ( برطانیہ) میں فوت ہوئے، جہاں اُنہوں نے اپنی زندگی کے آخری تیس سال گزارے ۔ نراد چوہدری کی تحریروں کو شہرت ذرا دیر سے ملی، جب وہ پچاس سال سے اوپر کے ہوچکے تھے جب کہ نائپال تیس سال کی عمر سےقبل ایک معروف ادیب بن چکے تھے۔

دراصل نراد کو سمجھنے سے پہلے اُس ماحول کو سمجھنا ہوگا،جس میں نراد چوہدری پروان چڑھے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں بنگال ایک ادبی اور سماجی نشاۃ ثانیہ یا نئی زندگی سے گزر رہا تھا، جس کا آغاز دانش ور مثلاً موہن رائے اور دیبیندر ناتھ ٹیگور (رابندر ناتھ کے والد)ہندوستانی معاشرے کی پسماندگی اور ثقافتی گھٹن پر کڑی تنقید کرتے رہے تھے، جیسا کہ سرسید احمد خان نے بھی کیا۔اُس زمانے کے لکھنے والے جیسے کہ شہرت چندر چڑجی ، اروبندوگھوش، بنکیح چڑجی اور رابندر ناتھ ٹیگور وغیرہ اپنے افسانوں، شاعری اور ناولوں میں ہندوستانی معاشرے ، خاص طور پر بنگال میں جاری سماجی برائیوں پر کُھل کر لکھ رہے تھے۔یہ وہ ماحول تھا، جس میں نراد چوہدری پلے بڑھے اور اُنہوں نے اس بنگالی نشاۃ ثانیہ کا زوال بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا، جس کا انجام متحدہ ہندوستان کے خاتمے پر ہوا، جس کا نتیجہ فسادات، قتل عام ، تباہ کاری اور کروڑوں لوگوں کے انخلا پر ہوا، خاص طور پر بنگال میں۔

نراد چوہدری کی پہلی کتاب ’’ایک نامعلوم ہندوستانی کی آپ بیتی ‘‘ 1951ء میں شائع ہوئی، جس نے بھارت میں خود تنقیدی کو ایک نئی انتہا پر پہنچادیا۔ ان سے قبل دیگر مصنفین نے بھی ہندوستان کے سماج میں امتیازی سلوک، ذات پات کے نظام، مردوں کی بالادستی اور دوسرے بُرے عوامل پر بہت کچھ لکھا، مگر اُن کی تحریروں کا مقصد حالات و معاشرت میں بہتری تھا کہ برصغیر کے معاشرے کی مکمل مذمت اور تذلیل۔

جن لکھنے والوں نے انگریزی کو اپنایا ان میں ملک راج آنند، آر کے نارائن ، راجارائو اور خوشونت سنگھ، وغیرہ شامل تھے، جو سب تقریباً ایک صدی جئے اور انہوں نے بھارتی سماج کو بہت تنقیدی نظر سے دیکھا اور لکھا، مگر اس طرح نہیں، جیسے نراد چوہدری نے کیا۔

غالباً کوئی اور لکھنے والا انگریزوں کا اتنا دیوانہ نہیں تھا، جتنا کہ نراد چوہدری، جنہوں نے اپنی آپ بیتی صرف باون سال کی عمر میں لکھ ڈالی، جو کہ اس کام کے لیے خاصی کم عمر ہے۔ خاص طور پر جب آپ نے کوئی خاص کارنامہ بھی انجام نہ دیا ہو، سوائے اس کے کہ چند اخبارات میں چھوٹی موٹی ملازمتیں کی ہوں تو پھر اس آپ بیتی میں کیا خاص بات تھی، جس کو اتنی شہرت ملی؟

پہلے تو یہ کہ اگر آپ اب بھی اس آپ بیتی یا سوانح عمری کو پڑھیں تو یہ آپ کے منہ کا مزہ خراب کردے گی، بشرطیکہ آپ بھی انگریزوں کے دیوانے نہ ہوں، لیکن اگر آپ ایسے ہیں تو پھر یہ بہت مزہ دے گی اور آپ اس بات پر حیران ہوں گے کہ کس طرح ایک بھارتی لکھاری، خود اپنے سماج کا اتنی بے دردی سے کچّا چٹھا کھول سکتا ہے اور پھر ہر برطانوی چیز کا مکمل مداح ہے۔نراد چوہدری کی ہندوستانی سماج سے بے زاری، نفرت اور برطانوی راج سے مکمل محبت اور رغبت آپ کو حیران کردے گی، اس سے ظاہر ہے انگریز تو بہت خوش ہوئے اور ہندوستانی دل پکڑ کر رہ گئے۔ اس کتاب کی غالباً سب سے اچھی بات اس کی رواں اور عمدہ انگریزی تحریر ہے۔ نراد چوہدری کی انگریزی نثر کا لوہا، خود انگریز بھی مانتے تھے اور پھر نراد چوہدری کی علمیت کا بھی جواب نہیں، اگر آپ مصنف کی گستاخیوں کو معاف کردیں تو پھر آپ ان کی علمیت سے ضرور مرعوب ہوں گے۔

نراد چوہدری خود کو ایک بڑا عالم سمجھتے تھے، جو غالباً وہ تھے بھی، لیکن ان کے علم میں ایک بڑا نقص تھا کہ وہ یک طرفہ طور پر انگریز کی بھرپور الفت کا شکار تھے۔ مثلاً اُنہوں نے اپنی آپ بیتی کا انتساب بھی برطانوی راج کے لئے لکھا۔ ’’ہم میں (یعنی برصغیر کے لوگوں میں) جو بھی اچھی اور زندہ خصوصیات ہیں، وہ سب برطانوی راج کی دین ہیں اور اسی نے ہمیں ایک بہترین تہذیب سے روشناس کرایا ہے۔‘‘اس پر چرچل بہت خوش ہوئے اور نائپال بھی جنہوں نے اس کتاب کو ’’ہندوستانی ذہن کی سب سے اچھی تشریح‘‘ قرار دیا۔ نراد چوہدری بھارتی معاشرے کی خرابیاں مزید اجاگر کرتے رہےاور 1965ء میں ایک اور کتاب لکھ ڈالی اس کا نام تھا (The Continent of circe) یعنی سرسی کا براعظم۔ یہ کتاب اُن کے مضامین کا مجموعہ تھی، جس میں بھارت کا عمرانی تجزیہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کتاب کی سب سے دل چسپ بات غالباً یہ تبصرہ تھا کہ ہندوستانی سماج بھی پُرامن نہیں رہا۔ نراد چوہدری، گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفے کے جواب میں لکھتے ہیں کہ یہ معاشرہ ہمیشہ پُرتشدد رہا، اشوک اعظم سے لے کر بعد میں آنے والے تمام حکم ران خاندان آج تک تشدد استعمال کرتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ ہندو رزمیہ داستانوں، جیسے رامائن اور مہابھارت کا حوالہ دیتے ہوئے ہندوئوں کی مقدس کتاب بھگوت گیتا کو بھی نہیں بخشتے، جن میں جنگ و جدل کے معرکے تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں۔

اب ہم وی ایس نائپال کی طرف آتے ہیں، جو ایک ہندو گھرانے میں 1932ء میں ٹرینی ڈاڈ (TRINIDAD) میں پیدا ہوئے، جو جزائر الغرب الہند، یعنی ویسٹ انڈیز کا حصہ ہے۔ ان کی ابتدائی کتابیں ٹرینی ڈاڈ کی زندگی کے بارے میں تھیں۔ مثلاً ’’مسٹر بسواس کا مکان‘‘ (A House for Mr Biswas) جو 1961ء میں منظر عام پر آئی ۔ نائپال کے والد کی ایک طرح سے جیون کتھا ہے۔ اُس وقت نائپال کی عمر تیس برس کی بھی نہیں تھی اور وہ ایک معروف ادیب بن چکے تھے۔

نائپال نے جلد ہی خود کو ٹرینی ڈاڈ سے الگ کرلیا، پھر 1963ء میں پہلا ناول لکھا، جو برطانیہ کے بارے میں تھا۔ اُس کےبعد وہ زیادہ سیاسی اور سماجی موضوعات پر لکھتے رہے۔تب نراد چوہدری صرف بھارت پر ہی لکھتے تھے، اُس وقت نائپال نے اپنے موضوع وسیع کرلیے، افریقہ کے بارے میں ایک ناول ’’دریا کا موڑ‘‘ (Abend in River) ، 1979ء میں تحریر کیا، پھر 1987ء میں اپنی انگلستان میں زندگی کے بارے میں ’’آمد کا معمہ‘‘ (The Enigmaof Arrival) تحریر کیا۔

نراد چوہدری فکشن نہیں لکھتے تھے، جب کہ نائپال نے دونوں میں طبع آزمائی کی۔ نائپال کا کمال یہ تھا کہ وہ اکثر فکشن اور غیرفکشن کو ملا کر ایک نیا تاریخی نمونہ پیش کرتے تھے، پھر نائپال نے نراد چوہدری کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، بھارت پر لکھنا شروع کیا اور اس پر تین کتابیں تحریر کیں An area of Darkness یعنی ’’خطہ تاریک‘‘ 1964ء میں لکھی اور ’’بھارت، ایک زخمی تہذیب‘‘ (India-Awounded Civilisation) 1977ء میں، پھر اس سلسلے کی آخری کتاب ’’بھارت، دس لاکھ بغاوتیں‘‘ (India amillion mutinies) 1990ء میں منظر عام پر آئی، جیسا کہ عنوانات سے اندازہ ہوتا ہے، نائپال کے پاس بھارت کے لیے کوئی اچھے الفاظ نہیں تھے، جیسا کہ نراد چوہدری کا معاملہ تھا،مگر دونوں میں ایک فرق یہ ہے کہ نائپال بہت زیادہ سطحی سوچ رکھتے تھے، جب کہ نراد ایک بڑے دانش ور تھے، جنہیں کئی سماجی علوم پر عبور تھا، پھر نائپال نے اسلام کے بارے میں زہر اُگلنا شروع کیا۔ 1981ء میں ’’عقیدت مندوں کے درمیان ایک اسلامی سفر‘‘ نامی کتاب لکھی، پھر 1998ء میں ’’عقیدے سے آگے اسلامی سفر‘‘ تحریر کی۔

نائپال کو 2001ء میں ادب کا نوبل انعام دیا گیا، جس سے اُن کی شہرت میں مزید اضافہ ہو ا اور ان کی کتابیں مزید بکنے لگیں۔ غالباً اُن کو یہ انعام اُن کے طرز تحریر پر دیا گیا،جو بہت اعلیٰ ہے، اگر آپ اُن کی غیر فکشن کتابیں پڑھیں، جن کا ذکر اوپر کیا گیا تو ان میں بڑی سطحی سوچ نظر آئے گی۔ نائپال کی اکثر تحریر غیر مغربی معاشروں کے خلاف ہیں۔

حیرت اس بات پر ہےکہ ایسا ادیب، جس کے پاس اسلامی تہذیب اور ہندو معاشرت دونوں کے بارے میں لکھنے کو کوئی اچھی بات نہیں، اسے عظیم ادیب کیسے کہا جاسکتا ہے۔ نراد چوہدری اور نائپال دونوں کی تحریر میں توازن کی شدید کمی تھی۔

تازہ ترین