• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیگم کلثوم نوازانتقال کر گئیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کو جنت الفردوس میں جگہ اور سوگواران کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین۔ مجھے بیگم صاحبہ سے چند بار ملنے اور اُن سے تفصیلی بات چیت کا موقع ملااور جیسا کہ عمومی طورپر کہا جا رہا ہے وہ ایک انتہائی نفیس، ملنسار اور گھریلو خاتون تھیں۔ مجھے جو بات اُن میں سب سے اچھی لگی وہ اُن کا اسلام کی طرف رجحان ہونا تھا۔ نہ صرف نماز روزہ کی خودپابند تھیں بلکہ اُنہوں نے مجھے ایک بار خود فخر سے یہ بات بتائی کہ اُن کے چاروں بچے نمازی ہیں۔ مجھے اس بات کا بھی علم ہے کہ میاں نواز شریف کی گزشتہ دور حکومت کے دوران چند ایک ایسے حکومتی اقدامات جن پر دینی سوچ رکھنے والے طبقوں نے بہت اعتراض کیا، اُن کے متعلق بیگم صاحبہ کے بھی شدید تحفظات تھے۔ چند سال پہلے جب نواز شریف وزیر اعظم تھے تو میری بیگم کلثوم نواز صاحبہ سے ملاقات ہوئی جس میں میں نے اُن سے درخواست کی کہ وزیر اعظم کی بیوی ہونے کے ناطے اُنہیں چاہیے کہ وہ نواز شریف پر اس بات کا پریشر رکھیں کہ حکومت ہر ممکن ایسے اقدامات کرے جس سے ہمارے معاشرتی ماحول کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالا جا سکے اور مغربی کلچر اور بے حیائی کو پھیلنے سے یہاں روکا جا سکے۔ بیگم صاحبہ خود بھی یہی سوچ رکھتی تھیں کہ ہمیں اپنی دینی و معاشرتی اقدارکی حفاظت کرنی چاہیے۔ پاکستان میں بسنے والی اکثریت کی طرح وہ میڈیا کے ذریعے فروغ دیے جانے والے مغربی کلچر سے بھی نالاں تھیں۔ بیگم کلثوم کو ان معاملات پر اپنا ہم خیال جان کر میں نے اُن پر زور دیا کہ وہ نواز شریف صاحب پر اپنا دبائو رکھیں تاکہ حکومت ایسے تمام اقدامات کرے جن سے پاکستان کے قیام کے مقصد کو شرمندہ تعبیر کیا جا سکے۔ بیگم صاحبہ نے جواب دیا کہ وہ اپنا کردار ضرور ادا کریں گی لیکن اُنہوں نے مجھ سے بھی مطالبہ کیا کہ میں بھی وزیر اعظم کے ساتھ یہ معاملات اٹھاتا رہوں۔ میں تو ویسے ہی ان معاملات پر نہ صرف گاہے بگاہے لکھتا رہا بلکہ جب بھی کسی بھی وزیر اعظم یا کسی بااثر وزیر سے ملنے کا موقع ملا تو ان ایشوزپر ہی اکثر بات کی۔ مجھے نہیں معلوم کہ میری اس ملاقات کے بعد بیگم صاحبہ نے نواز شریف سے کیا بات کی۔اسی دوران تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے محترم نعیم بٹ بھی نواز شریف سے میڈیا کے ذریعے غیر اخلاقی مواد کو پھیلائے جانے کے معاملے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہے۔ ایک روز مجھے وزیر اعظم کےاسٹاف کا فون آیا کہ اگلے روز نواز شریف صاحب مجھ سمیت محترم نعیم بٹ صاحب اور اُس وقت کے چیئرمین پیمرا ابصار عالم کے ساتھ میٹنگ کریںگے۔ ہماری کوئی تین چار میٹنگز ہوئیں۔ پیمرا کو ہدایات دی گئیں کہ میڈیا کو غیر اخلاقی مواد نشر کرنےسے روکا جائے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اس ناکامی کی وجوہات پر پھر کبھی بات ہو گی لیکن نعیم بٹ صاحب نے مجھے بتایا کہ اُن کے شریف فیملی سے پرانے مراسم ہیں اور یہ کہ بیگم کلثوم نواز ایک انتہائی مذہبی خاتون تھیں اور اُن کی یہ شدید خواہش رہی پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ کیا جائے۔ آجکل ٹی وی چینلز پر دکھائی جانے والی ایک پرانی ویڈیو میں بیگم کلثوم کسی صحافی سے1999 کے مارشل لا کے نفاذ کے بعدشریف فیملی کو سعودی عرب بھجوانے کے موقع پربات کرتی ہوئی دکھائی گئی ہیں جس میں وہ کہہ رہی تھیں کہ اُنہیں زبردستی ملک بدر کیا جا رہا ہے لیکن وہ اس بات پر خوشی کا اظہار کر رہی تھیں کہ وہ ایک مقدس جگہ جا رہی ہیں جہاں اللہ تعالیٰ نے اُنہیں بلایا ہے۔ بیگم کلثوم کا ایک ایسے وقت میں انتقال ہونا جب اُن کے شوہر ، بیٹی اور داماد جیل میں ہیں اور جب اُن کے دونوں بیٹے پاکستان واپس آ نہیں سکتے جو نہ صرف پوری شریف فیملی کے لیے بہت بڑا المیہ ہے بلکہ اُن کےلیے آزمائش کا بھی وقت ہے۔ یہ ہم سب کےلیے بھی آزمائش کا وقت ہے لیکن افسوس کہ اس موقع پر بھی جب نواز شریف کے مخالف بھی اُن سے افسوس اور ہمدردی کا اظہار کر رہے ہیں میڈیا سمیت سوشل میڈیا میںکچھ ایسے سنگدل اور بیمار ذہن لوگ شامل ہیں جو انتہائی گھٹیا انداز میں شریف فیملی کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں۔ ٹی وی ٹاک شوز میں ایسے بیمار ذہن افراد کی غیر اخلاقی باتوں پر اگرچہ تنقید ہو رہی ہے تو چند ایک تجزیہ کاروں کو اس موقع پر بھی شریف فیملی کو بُرا بھلا کہنےکے لیے ٹی وی چینلز موقع فراہم کر رہے ہیں جو شرم کی بات ہے۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین