• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ گھنے درخت ہیں۔ جو ایک عمر سے ہم پر سایہ کئے ہوئے ہیں۔ وہ حرف و معانی کے محافظ ہیں۔ وہ روایات کے امیں ہیں۔ وہ قیمتی اثاثے ہیں۔ پڑھے لکھے۔ ادب دوست۔ مہذب پاکستان کی زندہ کڑیاں ہیں۔ وہ تجربے کا سمندر ہیں۔ انہوں نے پاکستان بنتے دیکھا۔ کتنی تحریکیں ان کے سامنے اُبھریں۔ کچھ منطقی انجام کو پہنچیں۔ کچھ درمیان میں پراسرار طریقے سے ختم کردی گئیں ۔ مگر ان کے دلوں میں وہ اب بھی چل رہی ہیں۔ انہوں نے جشن بھی دیکھے۔ المیے بھی۔ وہ سقوط ڈھاکہ کے زخم خوردہ بھی ہیں۔ مگر پاکستان کی سر زمین بے آئین کے لئے متفقہ آئین کی منظوری کے شاہد بھی۔

ان کی صحبت میں کوئی چند گھڑی بھی بیٹھے تو معلومات کے خزانے ’فارورڈ‘ کراکے اٹھتا ہے۔ وہ چلتی پھرتی تاریخ ہیں۔ ہم ای اسٹوریج میں وسعتوں کی کوششیں کرتے ہیں۔ ان کے سینوں میں انٹرنیٹ سے زیادہ آرکائیو ہیں۔ ہم انہیں ’اسکین‘ کرکے محفوظ نہیں کررہے ۔

کچھ ایسے بھی اٹھ جائیں گے اس بزم سے جن کو

تم ڈھونڈنے نکلو گے مگر پا نہ سکو گے

ماہرین نفسیات سے رجوع کرنا چاہئے کہ ہم مردہ پرست ہیں یا ہماری سوچنے اور انسانوں کو جانچنے کی صلاحیتیں کند ہیں یا ہماری سمجھنے کی رفتار سست ہے۔ وقت گزرجاتا ہے پھر ہم انسانوں کے جواہر کی قدر کرتے ہیں۔ قائد اعظم کی مخالفت کرنے والے بزرگوں کی اولاد اب قائد اعظم کو عالمی لیڈر تسلیم کرتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی شدت سے مخالفت کی گئی۔ اب چالیس سال بعد انہیں پھانسی لگوانے والے بھی بہترین وزیرا عظم کہتے ہیں۔ ہم کسی کے تدبر اور قیادت کو جانچنے میں کتنے برس لگادیتے ہیں۔ نقصان کس کا ہوتا ہے ہمارا اپنا۔ ہماری مملکت کا۔ ہم زندہ لوگوں کی قدر کریں۔ ان کی دانش سے فیض حاصل کریں۔ صحیح پالیسیوں میں ان کے ساتھ کھڑے ہوں تو ہمارے مسائل حل ہوتے رہیں۔

آج میں بہت ہی بوجھل دل کے ساتھ آپ سے مخاطب ہوں۔ میں خود کو بھی قصوروار سمجھتا ہوں۔ یہ ہم وطن جنہوں نے اپنی عمریں ہمیں مہذب اور ذمہ دار بنانے میں گزار دیں۔ ہم ان سے مہینوں بلکہ سالوں بات تک نہیں کرتے۔ ملتے نہیں ہیں۔ انہیں سالگرہ مبارک نہیں کہہ پاتے۔ حالاتِ حاضرہ پر وہ جو سوچ رہے ہیں۔ وہ ان کے مشاہدات و تجربات کی روشنی میں کتنا اہم ، کتنا پُر مغز ہوگا۔ کتنا معروضی اور درست ہوگا۔ ہم ان سے رجوع ہی نہیں کرتے۔ چینلوں والوں سے کیا گِلہ کریں۔ کیونکہ یہ بزرگ پاکستانی تو چیخنے چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ عمر بھر انہوں نے اپنی آواز دھیمی رکھی ہے۔ اگرچہ ان کے خیالات بہت بلند رہے ہیں وہ پہلے تولو پھر بولو کے قائل رہے ہیں۔ وہ ان محاوروں کو مانتے ہیں ۔ تھوتھا چنا۔ باجے تھنا یا انگریزی میں

Empty vessels make much noise

کسی دن اچانک خبر آجاتی ہے کہ کوئی نہیں رہا۔ تو ہم اس کے ساتھ برسوں پرانی تصویر ڈھونڈتے ہیں اور فیس بُک پر پوسٹ کرکے اپنی ذمہ داری سے فارغ ہوجاتے ہیں۔

نیکی کن اے فلاں و غنیمت شمار عمر

زاں پیشتر کہ بانگ برآید فلاں نما ند

اے فلاں! نیکی کر۔ جو سانس آرہے ہیں اسے غنیمت جان۔ اس سے پہلے کہ آواز آئے فلاں نہیں رہا۔ میں معذرت خواہ ہوں ۔ کشور ناہید صاحبہ سے۔ گزشتہ صدی میں ان سے ملاقاتیں رہی ہیں۔انہوں نے آٹو گراف دیا تھا۔

مدتوں بعد ملے تھے جن سے

ان نگاہوں میں بلاوا نہ ملا

کشور ناہید کی ادب، صحافت، حقوق نسواں کے لئے لازوال خدمات ہیں۔ کیا ہمیں نہیں چاہئے کہ ہر ہفتے ان کو پھول بھیجیں۔ ان سے ملیں۔ پاکستان کی کہانی سنیں۔

نعمت اللہ ایڈووکیٹ نے اپنی زندگی انسانیت کی خدمت کے لئےوقف کردی۔ انہیں پاکستان کے سب سے بڑے شہر کا میئر بننے کا موقع ملا۔ تو اپنی بہترین صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ ہمارے محلّے میں انہوں نے میری درخواست پر بچوں کے لئے پارک بنوادیا۔ جہاں آج سینکڑوں خاندان لطف اندوز ہوتے ہیں میں اس صدی میں ان کے ہاں بھی حاضری نہیں دے سکا۔

آئی اے رحمن۔ ایک عہد ہیں۔ مسلسل جدو جہد ہیں۔ حقوق انسانی کے لئے ہر لحظہ سرگرم۔ ان کو پڑھتے تو ہیں۔ مگر ان سے ہاتھ ملائے ایک عرصہ ہوگیا۔

شیرباز مزاری۔ سیاست میں ایک مختلف اور منفرد شخصیت۔ جنہوں نے روایتی تمنداری کو خود ترک کیا۔ بڑے بڑے آمروں کی مزاحمت کی۔ ان سے ملے بھی مدتیں ہوگئیں۔ آپ میں سے کتنے ان کے ہاں حاضر ہوتے ہیں۔

بہت سے نام یاد آرہے ہیں۔ بہت سے ذہن سے اُتر گئے ہیں۔ مگر وہ اپنے اپنے شعبوں میں بے لوث خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اب بھی انہی نیک کاموں میں مصروف ہیں۔ مگر ہمیں نواز شریفوں۔ زرداریوں ۔عمرانوں اور تجزیہ کاروں سے فرصت ملے تو ہم جائیں کہ جسٹس وجیہہ الدین اپنے طویل تجربات و مشاہدات کے ساتھ اس وقت پاکستان کی کیا خدمت کررہے ہیں۔ جسٹس حاذق الخیری اپنے دھیمے لہجے میں پاکستان کا کتنا درد رکھتے ہیں۔ جسٹس ظہیر جمالی چپ چاپ کتنے بڑے کام کررہے ہیں۔

ابھی پچھلے دنوں وکلا اور ججوں کے استاد پروفیسر حبیب الرحمٰن نے ہمارے دفتر آکر یہ جاننے کی سعادت دی کہ انہوں نے کئی ہزار بڑے صفحات پر مشتمل ایک کتاب اس پیرانہ سالی پر مرتب کی ہے :

THE TECHNICAL ASPECTS OF BANKING TRANSACTIONS: PRACTICE AND LAW

انتہائی عرق ریزی، گہری نظر کہ بینکنگ کے مقدمات آج کل زیر بحث ہیں۔ اربوں روپے واپس لانے کی باتیں ہورہی ہیں۔ مگر قانونی نکات سے سینئر وکلا واقف ہیں نہ جج حضرات۔ انہیں بھی ہم نے کسی چینل پر نہیں دیکھا حالانکہ ان کا تبصرہ تجزیہ زیادہ وقیع ہوسکتا ہے۔

بلقیس ایدھی کے دربار میں کیا ہمیں حاضری نہیں دینی چاہئے کہ وہ کتنے عظیم پاکستانی کی رفیقۂ حیات ہیں۔ خود بھی خدمات میںمصروف ہیں۔ایس ایم ظفر صاحب نے کتنے دَور دیکھے ہیں۔ ان کی محفل میں ہم حاضری دیں تو کتنے خزانے منتقل ہوسکتے ہیں۔ مگر ہمیں فراغت ہی نہیں ہے۔ ان اہل دانش کے ہاں حاضری بھرنے کی۔ ہم نقد پسند کمرشل نسلیں ہیں۔ جہاں دو ٹکے کا فائدہ ہو۔ وہیں رجوع کرتے ہیں۔صنعت و حرفت میں یوسف ایچ شیرازی کتنی خدمت کرچکے ہیں اور وہ تو ساتھ ساتھ مضامین بھی لکھتے رہے ہیں۔ میں تو ان کے ہاں بھی حاضر نہیں ہوسکا۔پروفیسر خادم علی ہاشمی سائنس کے استاد۔ مگر اُردو کے عاشق ۔ وہ ملتان میں اب بھی علم و حکمت کی سیاحت کررہے ہیں۔ملتان کے کتنے ساتھی ان کے ہاں پھول لے کر جاتے ہیں۔

یورپ میں اب بھی بزرگوں کے احترام اور دیکھ بھال کی باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے۔ اسے معمولات کا ایک ضروری حصّہ سمجھا جاتا ہے۔ بہت اچھی کتابیں لکھی جارہی ہیں۔ ہمارے مذہب اور ثقافت میں بھی بزرگوں کی خدمت کی ایک مسلسل روایت موجود ہے۔ مگر ہم اس پر عمل نہیں کررہے ہیں ۔ تحریر کے دامن میں اتنی وسعتیں نہیں ہیں۔ میں کچھ نام گنوائوں گا۔ ان کی مجلس میں جائیں بقول اقبال:

بیابہ مجلس اقبال و یک دو ساغر کش

کچھ گھڑی بیٹھیں۔ آپ جب اٹھیں گے تو طبیعت خوشگوار ہوگی۔ اس پُر آشوب زمانے میں بھی آپ تسکین محسوس کریں گے۔ فرق صاف ظاہر ہوگا کہ آپ صبح سے رات گئے تک جو کچھ سنتے ہیں حقیقت اس سے کتنی مختلف ہے۔ زندگی کتنی خوبصورت ہے۔ دائیں بائیں کے امتیاز کے بغیر مسعود اشعر،

الطاف حسن قریشی، قیوم نظامی، عارفہ سیدہ، پنجگور کے امان اللہ گچکی، شاعر بے بدل منظر ایوبی، نرم دل بیورو کریٹ شاہد عزیز صدیقی، اہل دل اہل قلم کا خیال رکھنے والے بہرام اواری، ہاکی کے عاشق اصلاح الدین، وطن کے لیے گانے والے افراہیم، دل میں اتر جانے والی فریدہ خانم، عظیم اداکار ضیا محی الدین، ندیم، شکیل اور نواں آئیا ایں سوہنیا۔ مصطفیٰ قریشی، زریں سلمان عرب پنّا۔ سب ہمارے احترام کے حقدار ہیں۔ انہیں کوئی مدد یاوظیفہ نہیں چاہئے۔ عزت احترام اور مہرباں نظریں درکار ہیں۔ اس سے ہمیں ہی فائدہ ہوگا۔ کیا کبھی آپ نے فکر محسوس کیا کہ کرکٹر وقار حسن کہاں ہیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی اُردو کے عظیم محقق کہاں مصروف ہیں۔

آخر میں ڈاکٹر مبشر حسن۔ نئے پاکستان کے پہلے وزیر خزانہ۔ بے خوف جراتمند۔ کیا ان کے ہاں ہم حاضری دیتے ہیں۔ ان سے پاکستانی معیشت پر کچھ فیض حاصل کرتے ہیں۔ ڈاکٹر منظور احمد پاکستان کے قیام اور دوام پر بڑی حقیقت پسندانہ نظریات رکھنے والوں سے کبھی آپ کی صحبت رہی۔

تاریخ اسلام اور عالمی تاریخ میں تو روایت رہی ہے کہ حکمران اہل و دانش کے ہاں حاضری دیتے تھے معلوم نہیں وزیر اعظم عمران خان ایسی کوئی ضرورت محسوس کرتے ہیں یا نہیں۔ ان علاقوں کے گورنروں، وزرائے اعلیٰ اور ارکان اسمبلی کو چاہئے کہ احتراماً ان منتخب روزگار۔ بزرگ ہستیوں سے ہاتھ ملانے کا شرف حاصل کریں۔ خیر یہ تو بڑے لوگ ہیں ان کو چھوڑیں۔ آپ تو وقت نکالیں خود ملنے جائیں۔ اپنے بچوں کو لے کر جائیں۔ یہ وہ زندہ ہستیاں ہیں جو اچھے دنوں کے پڑھے لکھے پاکستان کی جیتی جاگتی کڑیاں ہیں ۔

آپ سے یہ مدد بھی چاہوں گا کہ آپ کے آس پاس ایسے عظیم پاکستانی ہوں تو ان کی خدمات سے مجھے آگاہ کریں۔ ان کو بھی ہم خراج عقیدت پیش کرسکیں۔

تازہ ترین