• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیگم کلثوم نواز بہادر خاتون تھیں ،کبھی وقار کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا ،مشکل وقت صبرسے کاٹا ،اللہ ان کا اگلا سفر آسان فرمائے (آمین )۔

اِدھر یہ خبر سنی اُدھر ماں یاد آگئی اور ایسی یاد آئی کہ کچھ اور یاد ہی نہ رہا ، پتا نہیں کیوں جب بھی کوئی ماں دنیا چھوڑے ،جب بھی کوئی ماں دُکھی نظر آئے ،جب بھی کسی ماں کی آنکھوں میں آنسو دیکھوں ،جب بھی کسی سر سے ماں کا سایہ اُٹھے ، جب بھی کسی کو ماں کی جدائی میں تڑپتا دیکھوں اور جب بھی کسی سے ماں کی باتیں سنوں تو اپنی ماں یاد آجائے ، آنکھیں بھیگ جائیں ، دُکھی ہو جاؤں، دل ڈوب ڈوب جائے ،شاید اس لئے کہ مجھے اپنی ماں سے کچھ زیادہ ہی پیاریا شاید اس لئے کہ وہ وقت سے بہت پہلے ساتھ چھوڑ گئیں ،مجھے اچھی طرح یاد جس روز ماں فوت ہوئیں ،اس کے 3دن بعد میں نے پہلی بار اسکول جانا تھا،ماں نے بڑی محبت سے میر ی اسکول یونیفارم خریدی ،سلوائی ،میرا اسکول بیگ تیا ر کیا بلکہ شدید بخار میں میرے ساتھ قاعدہ ،تختی لینے بازار گئیں ، بہت خوش تھیں کہ میں اسکول جانے والا،وہ سینے سے لگا کر اکثر کہا کرتیں ’’تم نے 16جماعتیں پاس کرنی ہیں ،بڑا آدمی بننا ہے ‘‘میں بھلا وہ دن کیسے بھول سکتا ہوں کہ ہم بازار سے واپس آئے ،میں نویں نکور قاعدے سے تصویریں دیکھنے بیٹھا ، وہ چارپائی پر لیٹیں ،لیکن جب کافی دیر تک وہ ہلیں جلیں نہ مجھے آواز دی تو میں اُٹھا ،چارپائی پر لیٹی ماں کے پاس آیا ،ان کا چہرہ سرخ ، آنکھوں میں آنسو ،میں ڈر سا گیا ، ان کا ہاتھ پکڑا ،آگ جتنا گرم ، ہاتھ فوراً چھوڑ دیا ، ان کی سرخ آنکھیں ،مسلسل بند ،کھل رہی تھیں ،میں نے ماں کے کان سے اپنا منہ لگا کر پوچھا’’ ماں آپکا جسم اتنا گرم کیوں ‘‘ وہ کچھ نہ بولیں، میں نے ان کے ماتھے پر ہاتھ رکھا، ماں نے مسکرانے ، کچھ کہنے کی کوشش کی مگر تمام تر کوشش کے باوجود مسکراپائیں اور نہ کچھ کہہ سکیں ۔

میں بھاگتا ہوا دادی کے پاس گیا ،سب کچھ انہیں بتایا ، تھوڑی ہی دیر میں سب گھر والے ماں کی چارپائی کے اردگرد تھے ،ماں کی حالت دیکھ کر فیصلہ ہوا کہ انہیں شہر اسپتال لے جایا جائے ، مجھے آج بھی یاد کہ اسپتال لے جانے کیلئے کوئی بھی تیار نہ تھا لیکن جب تقریباًروتے ہوئے میں نے د ادی سے کہا کہ مجھے بھی ماں کے ساتھ لے چلوتو ان کا دل مو م ہوا، ان کے کہنے پر مجھے ساتھ جانے کی اجازت ملی ، ہم اسپتال پہنچے، ایک لمبا چوڑا چیک اپ، بے شمار ٹیسٹ ، آدھی رات کے قریب رپورٹوں کا معائنہ ،پہلے ڈاکٹروں کا آپس میں صلاح مشورہ ، پھر سینئر ڈاکٹر کا ابو کو ایک طرف لے جاکر یہ کہنا ’’ ان کا بخار نجانے کب سے ٹائیفائیڈ میں بدل چکا ،دل، گردے، پھیپھڑے بری طرح متاثر ، آپ نے بہت دیر کر دی ‘‘ اپنے والد کے پیچھے کھڑے یہ سن کر مجھے یہ تو پتا نہ چلا کہ دیر سے کیا مراد ،لیکن سب کے چہرے دیکھ کر مجھے یہ ضرورمعلوم ہو گیا کہ کچھ گڑ بڑ، اب سوچتا ہوں تو ڈاکٹروں کی دیر کا مطلب سمجھ آئے کہ ماں کو ایک سال سے وقفے وقفے سے بخار رہا، کسی کو بتا یا نہ احتیاط کی، کھانے پینے میں پہلے ہی حد سے زیادہ لاپروائی ، دن بدن کمزور ہوتی گئیں ، ابو ،دادی کس کس نے نہ کہا کہ شہر چلو،چیک اپ کیلئے مگر نہ مانیں ، اوپر سے دیسی ٹوٹکوں اور گاؤں کے حکیم کے نسخوں نے رہی سہی کسر نکال دی ، ڈاکٹر اور ابو ابھی وہیں کھڑے تھے کہ میں ماں کے سرہانے آکر بیٹھ گیا، ہاتھ پکڑا ، ہلایا جلایا، کئی بارپکارا مگر انہیں خبر نہ وہ بولیں ۔

اس رات ماں کو کئی ٹیکے ،ڈرپیں لگیں ، تھوڑی تھوڑی دیر بعد ڈاکٹر، نرسیں معائنہ کرتے رہے مگر ماں بے سدھ، بے ہوش ،صرف ان کی تیز تیزچلتی سانسوں کی آواز آرہی تھی، میں ساری رات ان کے سرہانے بیٹھا رہا، رات ختم ہوئی اور پھر ایک نہ ختم ہونے والی رات شروع ہوگئی ،صبح سویرے ماں فوت ہوگئیں ، مجھے آج بھی یاد کہ جب ڈاکٹر نے ڈرپ کی تار اتاری ،جب ان کا سا را جسم چادر سے ڈھانپ دیا گیا ،جب ابو ،دادی کے گلے لگ کر رو رہے تھے ، تب میں نے آکر ماں کے چہرے سے کپڑا ہٹایا ، ان کے ماتھے کو چھوا ، ٹھنڈا ٹھار، ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور اسی لمحے مجھے ماں کے دائیں ہاتھ کا وہ جلا انگوٹھا بھی نظرآیا ، جو چند دن پہلے میرے لئے پراٹھا پکاتے ہوئے گرم گھی کے چھینٹے سے جلا تھا ، میں نے آہستہ سے ان کا ہاتھ واپس رکھا، چادر ڈالی ، باہر آگیا ، مجھے ابھی بھی ہلکا ہلکا یاد کہ اسپتا ل کے بیرونی گیٹ کے سامنے تھڑے پر بیٹھ کر میں خالی خالی نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا ، ہنستے ،کھیلتے شرارتیں کرتے ٹولیوں میں اسکول جاتے بچے ، بازار میں کھلتی دکانیں اور کہیں دور سے بسوں ،ویگنوں کے ہارنوں کی مسلسل آوازیں ، میں نے سوچا یہ کیسے لوگ جن کو پتا ہی نہیں کہ میری ماں فو ت ہوچکیں ، انہیں کوئی دکھ ہی نہیں ، ہنس رہے ، باتیں کر رہے، اتنے میں دادی مجھے ڈھونڈتے آئیں ،روتے ہوئے سینے سے لگایا اور مجھے لے کر اندر آگئیں ۔

ماں کی چارپائی اُٹھائی گئی ،ایک ویگن کی سیٹیں نکال کر چارپائی اس میں رکھی گئی ، ہم گھر پہنچے ، دیکھتے ہی دیکھتے سب رشتے دار آگئے ،گاؤں کی عورتوں سے صحن بھرگیا ، کوئی ابو کے گلے لگ کر رورہا تھا تو کوئی خالہ کے، کوئی دادی کے پاس بیٹھا آنسو بہا رہا تھا تو کوئی چچا، ماموں سے تعزیت کر رہا تھا مگرمیں سب سے دور ایک کونے میں چپ چاپ بیٹھا تھا ، کئی بار ابو نے بلا یا ، کافی دفعہ دادی آئیں، خالہ، پھپھو نے کافی کوشش کی ،رشتہ دار خواتین گلے لگا کر روئیں مگر میںاپنی جگہ سے ہلا نہ ایک آنسو بہایا، اسی دوران پتا نہیں کسی نے دو مرتبہ پانی پلایا مگرپانی بھی حلق سے نہ اترا ، کونے میں بیٹھے ہوئے مجھے یاد آرہا تھا کہ ایک بار ماں دادی کے گھر سے واپس آئیں تومیں اسی کونے میں چارپائی پر پڑے بستروں میں چھپ گیا تھا،ماں پاگلوں کی طرح مجھے ڈھونڈ ڈھونڈ کہ جب تھک ہار کر بیٹھیں تومیں رضائیوں سے نکل کر سامنے آکھڑا ہوا،ماں نے بازو سے پکڑ کر مجھے سینے سےلگایا اور رونے لگ گئیں ،پھر روتے روتے بولیں’’ کھانا کھلاؤں، بھوک تو نہیں لگی ‘‘، مجھے یاد آرہا تھا کہ میں نے ایک بار رضائیوں کو آگ لگا دی ،ایک دن گھر میں رکھی ساری چینی صحن میں چھڑک کر بکھری چینی پر سارا دیسی گھی انڈیل دیاتا کہ چینی جلدی اُگ جائے ، کئی دفعہ محلے کے بچوں کے سرپھاڑے، ماں جی کے پیسے چرائے ،کیا بدتمیزی نہ کی مگر ماں نے ڈانٹا تک نہیں ،ہر شرارت، نقصان کے بعد سینے سے لگا کر چند لمحوں بعدوہی محبت سے پوچھنا ’’بھوک تو نہیں لگی ‘‘۔

اب ماں کو نہلایا جا چکا تھا ، ابو عصرکی نماز پڑھنے جا چکے تھے ، پھر جب پتا چلا کہ نماز کے بعد جنازہ اور قبرستان تو میں صبح کا بیٹھا پہلی دفعہ اُٹھااور بمشکل چلتا چلتا ماں کی چارپائی کے قریب آیا ، مجھے دیکھ کر روتی ، قرآن پڑھتی خواتین ایک طر ف ہوئیں ، میں نے ماں کے منہ سے سفید چادر ہٹائی ، مسکراتا چہرہ ،آنکھیں یوں بند کہ ابھی سوئی ہوں، چند لمحے چہرہ دیکھنے کے بعد میںنے ماں کاماتھا چوما، چہر ہ اپنی طر ف کیا، ماں کے سینے پر سر رکھا ،لیکن جب کوئی آواز نہ آئی تو آنسو نکلے،ہچکیاں بندھیں ،رونے لگا ، 5سالہ زندگی میں پہلی دفعہ میں رو رہا تھا اور ماں خاموش تھیں اور پہلی دفعہ میں بھوکا ،پیاسا ماں کے سینے سے لگا ہوا اور ماں نے نہ پوچھا کہ ’’بھوک تو نہیں لگی‘‘، میں چیخیں مار مار کر رورہا تھا۔ آج دکھ یہ بھی کہ ماں نہیں ، دکھ یہ بھی کہ وہ 33سال کی عمرمیں ساتھ چھوڑ گئیں اور دکھ یہ بھی کہ میرے پاس ان کی ایک تصویر تک نہیں ، کیا کہوں ، ماواں ٹھنڈیاں چھاواں ، ماواں سانجھیاں،سیاست، صحافت والو ماؤں کی قدر کرو،احترام کرو، تمہاری سیاست، تمہاری صحافت سے ماں بہت بڑی ، باقی شریف خاندان سے دلی تعزیت ،بلاشبہ بیگم کلثوم نواز بہادر خاتون تھیں ،کبھی وقار کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا ،مشکل وقت صبرسے کاٹا ،اللہ ان کا اگلا سفر آسان فرمائے (آمین)۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین