• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسلم لیگ کے قائد میاں نوازشریف کی شریک حیات، محترمہ مریم نواز کی والدہ ماجدہ، رستم زماں گاما پہلوان کی نواسی، ڈاکٹر حفیظ بٹ جیسے شریف النفس انسان کی بیٹی جسے تین مرتبہ پاکستان کی خاتون اوّل بننے کا اعزاز حاصل ہوا کینسر کے موذی مرض سے لڑتے لڑتے لندن کی ہارلے سٹریٹ میں جان کی بازی ہار گئیں۔ 68سالہ بیگم کلثوم نے اپنی زندگی کی سینتالیس بہاریں اپنے جیون ساتھی میاں نواز شریف کے ساتھ گزاریں لیکن افسوس جب اُن کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں اُس وقت اُن کا پیارا باؤ جی اور اُن کی لاڈلی مریم انہیں سہارا بخشنے یا محبت بھرے لمس سے سکون دینے کے لیے پاس نہیں تھے بلکہ ہزاروں میل دور جیل کی سلاخوں کے پیچھے بندکر دیئے گئے تھے اور انسانیت کہیں کونے کھدرے میں بیٹھی رو رہی تھی۔

پروردگار میرے وطن میں کم ظرفی و کمینگی اتنی طاقتور اور تہذیب و شائستگی اتنی کمزور کیوں ہیں؟ کیا لوگوں کو معلوم نہیں کہ یہ دنیا فانی ہے؟ موت اپنی بھیانک شکل میں ہمارے پیچھے کھڑی ہے جس میں خوشیاں ہیں کم بے شمار ہیں غم اک ہنسی اور آنسو ہزار تو پھر نفرتوں کے بیوپاری ہمہ وقت لعن طعن اور طنز و حقارت کی گندگی پھیلانے پر کیوں مصر رہتے ہیں؟ یہ منصب یہ عہدے یہ کامیابیاں و کامرانیاں سب آنی جانی چیزیں ہیں مگر ایسے مواقع پر انسان نما مخلوق کی اندرونی حقیقت و اصلیت ضرور آشکار ہو جاتی ہے۔ یہاں نواز شریف اور مابعد بیگم کلثوم نواز کی بیماری کا تمسخر اڑایا گیا، کیسے کیسے شوشے چھوڑے گئے، کبھی کہا گیا کہ یہ سب ڈرامے ہیں بیماری شماری کچھ نہیں پاکستان سے باہر آنے جانے کے بہانے ہیں اور کبھی ایسی بھیانک چھوڑی گئیں کہ وہ تو کب کی مر چکی ہیں لیکن سیاسی مقاصد کے لیے اُن کا مردہ خراب کیا جا رہا ہے۔ خود کو زیادہ سیانا سمجھنے والوں نے اس حد تک دعوے کر چھوڑے کہ الیکشن میں عوامی ہمدردی و حمایت حاصل کرنے کے لیے 25جولائی سے پانچ روز قبل ان کی وفات کا اعلان کیا جائے گا اور پھر اس کو خوب کیش کروایا جائے گا مگر سچ تو یہ ہے کہ جس کی اپنی ذہنیت جس سطح کی ہوتی ہے وہ دوسروں کے لیے بھی ویسا ہی گمان کرتا ہے۔ ہمیں دکھ اس گھناؤنی ذہنیت کا ہے جو جانے کب سے مظلومیت کا لبادہ اوڑھے ٹسوے بہا رہی ہے قانون کا ماسک پہنے ایک روپ بدلنے والے نے بیگم کلثوم نواز کی بیماری کا جن گرے الفاظ میں مذاق اڑایا ان سے تمام پاکستانیوں یا ن لیگیوں کو جو صدمہ پہنچا سو پہنچا مگر درویش کے منہ سے یہ الفاظ ادا ہوئے کہ بھلا ہو تیرا تو نے اپنی اصلیت کس قدر واضح اسلوب میں سب پر واضح کر دی ہے۔

فقیہ شہر کی تحقیر کیا مجال مری

مگر یہ بات کہ میں ڈھونڈتا ہوں دل کی کشاد

بیگم کلثوم نواز کی زندگی یوں تو ہماری روایتی خواتین کی طرح سراسر قربانی والی تھی جسے انہوں نے اپنے ہر دلعزیز شوہر کی نذر کر دیا تھا لیکن اس 68سالہ زندگی کے سب سے یادگار لمحات اُن کی جبر کے خلاف وہ جمہوری جدوجہد تھی جو 1999ء سے 2002تک انہوں نے چوتھی آئین شکنی پر مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے خلاف کی تھی

اور اس خوش اسلوبی سے کی تھی کہ بابائے جمہوریت بھی انہیں خراجِ تحسین پیش کیے بغیر نہیں رہ سکے تھے۔ وہ کیا لمحات تھے جب جمہوری ریلی کی قیادت کرتے ہوئے اس نڈر اور بہادر خاتون نے مخالفین کو یوں للکارا کہ اہل جبر کو ان کی گاڑی کرین سے اٹھانی پڑی جس میں وہ پیہم دس گھنٹے بند رہیں اور کہا کہ چاہے میری گاڑی کو کرین سے نیچے گرا دیں میں سرنڈر نہیں کروں گی۔ اب ان کی اس جمہوری جدوجہد کا علم ان کی بیٹی مریم نواز نے اٹھایا ہے تو ہماری دعا ہے کہ خدا انہیں اس میں استقامت نصیب فرمائے۔ محترمہ مریم نواز اور خود میاں نواز شریف کو زندگی کا جو اتنا بڑا صدمہ سہنا پڑا ہے اس پر قدرت انہیں صبر اور حوصلہ دے اگرچہ اس صعوبت کی تلخیاں وہ کبھی بھلا نہیں سکیں گے کیونکہ جذبات کچلے جانے کی چوٹ جسمانی چوٹوں سے زیادہ گہری اور شدید ہوتی ہے۔ کسی بے گناہ انسان کو دیگر Vested interests کے تحت سبق سکھانے کے لیے خفیہ اشاروں پر کال کوٹھڑی میں ڈال دیا جائے تو ایسے جبری ہتھکنڈوں میں اپنوں کے بچھڑنے کا غم کسی دنیاوی پیمانے سے ماپا نہیں جا سکتا۔ اپنے والدین کی تدفین میں شامل نہ ہو سکنے کی اذیت قابلِ فہم ہے خود

نواز شریف ماقبل اس تکلیف سے گزر چکے ہیں اب اُن کے بیٹوں نے شامل نہ ہونے کا درست فیصلہ کیا ہے۔ ہائی کمیشن کا تعاون نہ لے کر بھی انہوں نے اچھا کیا اور یہ تعاون انہیں نہیں لینا چاہیے تھا خود باپ بیٹی کو بھی اس نوع کی درخواست نہیں کرنی چاہیے۔ مخالفین کو ضرور یہ سوچنا چاہیے کہ سدا بادشاہی پروردگار عالم کی ہے وقت بدلتے صدیاں نہیں لگتیں۔ اگر وہ اپنے مخالف نظریہ رکھنے والوں پر خوفناک ہتھکنڈے جاری رکھیں گے تو بالآخر تاریخ ابداً اُن پر وہی کالک ملے گی جو ضیاء الحق کے حصے میں آئی تھی۔ برسوں پاکستان کے سیاہ و سپید کا مالک بنے رہنے والا پرویز مشرف آج کہاں ہے؟ ملک کی قومی، سیاسی یا جمہوری تاریخ میں آج اس کی کیا حیثیت ہے جبکہ اس کے خلاف چند ماہ جمہوریت کا سمبل بننے والی بیگم کلثوم نواز کا نام پاکستانی تاریخ میں محترمہ فاطمہ جناح، محترمہ بے نظیر بھٹو، بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ عاصمہ جہانگیر کے ساتھ لکھا جائے گا۔ لوگ اتنی سی حقیقت کیوں نہیں سمجھتے ہیں کہ کیا فائدہ ایسے اقتدار یا حکمرانی کا جس کی بنیاد ظلم، جبر، دھونس، نفرت، حقارت اور آئین شکنی پر ہو۔ آج بیگم کلثوم نواز گئی ہیں تو باقی کس نے رہنا ہے؟ کیا اُن پر کیچڑ اچھالنے والوں نے نہیں مرنا ہے؟ جب سب نے مرنا ہے تو پھر انسان نما مخلوق کم ظرفی کا مظاہرہ کیوں کرتی ہے کہ دنیا صدیوں بعد آپ کا ذکر نفرت و حقارت سے کرے اس کے برعکس بیگم کلثوم نواز جیسی شخصیات مر کر بھی نہیں مرتی ہیں وہ آنے والی نسلوں کو ایک نیا جذبہ ایک نیا ولولہ دے جاتی ہیں اور یوں تاریخ میں ہمیشہ امر رہتی ہیں ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین