• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپوزیشن کی خواہش ہوتی ہے سیاست میں ہر دم ہیجان رہے، سیاسی درجہ حرارت معمول پر نہ آئے، عوام اپنے مسائل سے لمحہ بھر کو غافل نہ ہوں اور اس کے نتیجے میں جو عمومی بے سکونی اور مستقبل سے نا امیدی پیدا ہو اُس کی واحد وجہ حکومتِ وقت کو ثابت کیا جائے۔ دوسری طرف حکومت چاہتی ہے کہ راوی چین لکھے،’’سب اچھا ہے‘‘ کی صدائیں بلند ہوں، شجر کاریاں ہوں، چار سُو ہرا ہرا نظر آئے اور ایسا ہرا جس کی کوئی مثال نہ ہو، فضا میں Feel Good کی مہکار ہو اور خلقِ خدا کو یقین آ جائے کہ:

زمانہ عہد میں اُس کے ہے محوِ آرائش

بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لئے

بائیس سال اپوزیشن میں رہنے کے بعد عمران خان صاحب وزیرِ اعظم بن چکے ہیں، لیکن یہ تبدیلی فی الحال اُن کے طرزِ سیاست سے مترشح نہیں ہے۔ یہ حیرت کی بات نہیں ہے، بائیس برس ایک طویل عرصہ ہے جس میں مزاج راسخ ہو جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ راہوارِ حکومت کو مسلسل چابک رسید کئے جا رہے ہیں اور حکومت آغازِ سفر سے ہی سرپٹ دوڑنے لگی ہے۔ ’نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں‘ والا منظر نہ سہی لیکن بہرحال یہ کوئی پُرسکون آغاز نہیں ہے، کیفیت یہ ہے کہ ’’روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے‘‘۔ یہ ٹی 20والا موڈ ہے، ٹیسٹ میچ والا نہیں، ٹیسٹ میچ کا تو بنیادی اصول ہی یہ ہوتا ہے کہ بیٹسمین غلطی نہ کرے، بس وکٹ پہ ٹھہرا رہے، رنز خود بخود ہو جاتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ کچھ اقدامات تو حکومت کو اُٹھانے ہی تھے، مثلاً کابینہ تو بنانا ہی تھی اور بُزدار صاحب کو وزیرِ اعلیٰ لگانا ہی تھا، اور اپوزیشن نے’’مشرفی‘‘ کابینہ اور گم نام وزیرِ اعلیٰ پہ تنقید بھی کرنا ہی تھی، لیکن بہت سے ’’تیروں‘‘ سے بچا بھی جاسکتا تھا۔ مثلاً امریکا اور ہندوستان سے خان حکومت کے اولین رابطوں میں خفت سے بچا جا سکتا تھا، فرانسیسی صدر کی معروف ٹیلیفون کال کے شوشہ سے بچا جا سکتا تھا، سی پیک پر غیر محتاط تبصروں اور عاطف میاں کی اکنامک ایڈوائزری کونسل میں تعیناتی کے قضیہ سے بچا جا سکتا تھا۔ اسی طرح ’’پچپن روپیہ فی کلو میٹر‘‘ والے ہیلی کاپٹر سے فیاض الحسن چوہان صاحب کی گُل فشانیِ گُفتار تک بہت سے معاملات تھے جن سے حذر ممکن تھا۔ سیاست کا اصول ہے کہ حکومت مواقع فراہم کرتی ہے اور اپوزیشن اُن سے فائدہ اُٹھاتی ہے۔ اس سے قطع نظر کہ نیب کے معاملات میں اُلجھی ہوئی اپوزیشن اس صورتِ حال سے کس قدر فائدہ اُٹھا پاتی ہے، حکومت کو شعوری طور پہ واقعات کی رفتار کو لگام ڈالنے کی ضرورت ہے کیونکہ منکر نکیر متحرک ہو چکے ہیں اورحکومت کی ہرہر نیکی وبدی کا حساب رکھے ہوئے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد یہی رائی کے دانے پہاڑ بن جاتے ہیں اور اپنوں کو بھی نظر آنے لگتے ہیں۔

اب یہ ایک احمدی، عاطف میاں کی تعیناتی اور سبک دوشی والا معاملہ ہی لے لیجیے۔ توقع ہے کہ یہ جھگڑا یہیں ختم ہو جائے گا لیکن اس سے ایک بدمزگی تو رہے گی، کیونکہ اس واقعہ سے حکومت عاطف میاں کی تعیناتی کے حامیوں اور مخالفین دونوں کی نظروں میں مشکوک ہو گئی ہے۔ پچھلی حکومت نے بھی حلف نامہ کی اصل عبارت بحال کر دی تھی لیکن مخالفین راضی نہیں ہوئے تھے، حکومت پر یہ کہہ کر چڑھائی کر دی گئی تھی کہ ترمیم واپس تو لے لی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آپ نے ترمیم کی ہی کیوں تھی۔ اُمید ہے اب یہ کہانی دہرائی نہیں جائے گی۔ دوسری طرف رواداری کا کلمہ پڑھنے والے بھی حکومت سے نالاں ہوئے ہیں۔ عاطف میاں کو ہٹانے کے خلاف احتجاجاً ای اے سی میں نامزد بین الاقوامی شہرت کے حامل معاشی ماہرین عمران رسول اور عاصم خواجہ نے بھی خان حکومت سے معذرت کر لی ہے۔ کیا حکومت کو نہیں معلوم تھا کہ عاطف میاں کی تعیناتی کا ردِ عمل ہو گا؟ کیا حکومت نے یہ فیصلہ واپس لینے کے لئے کیا تھا؟ اس قضیہ سے یقیناً بچا جا سکتا تھا۔

اپوزیشن کو سیاسی درجہ حرارت بڑھانے کے مواقع فراہم نہ کئے جائیں تو بہتر ہے، اس طرح حکومت زیادہ یکسوئی سے اپنی توانائیاں اپنے اہداف کے تعاقب میں صرف کر سکتی ہے۔ اس ضمن میں ایک اور معاملہ بھی توجہ طلب ہے۔پی ٹی آئی کے حامی اس بات پہ فخر کرتے ہیں کہ اُن کا لیڈر لکھی ہوئی نہیں بلکہ زبانی تقریر کرتا ہے۔ پس منظر اس کا یہ ہے کہ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے سابق امریکی صدر باراک اوباما سے ایک ملاقات میں ایک کاغذ سے پڑھ کر ایک مختصر بیان دیا تھا۔ سو ثابت کرنا یہ مقصود ہوتا ہے کہ زبانی تقریر سے ہمارے رہنما کی فضیلت مسلّمہ قرار پائی۔ ’’اپنا بابا اُوپر‘‘ رکھنے کی خواہش بجا، لیکن وزیرِ اعظم کے منصب کے کچھ مخصوص تقاضے بھی ہوتے ہیں۔ قومی اور بین الاقوامی امور میں کئی مقامات ایسے بھی آتے ہیں جہاں ایک ڈھیلا لفظ بھی غلط فہمی کو جنم دے سکتا ہے، آپ کو اپنے ہدف سے دُور لے جا سکتا ہے۔ عمران خان صاحب نے انتخاب کے بعد اب تک چار تقاریر کی ہیں، چاروں زبانی۔ لکھی ہوئی عبارت اب تک انہوں نے صرف حلف لیتے ہوئے پڑھی تھی جس میں انہیں دُشواری کا سامنا رہا تھا۔ یاد کیجئے، کیا خان صاحب کو قوم نے کبھی پچھلی دو دہائیوں میں لکھے ہوئے دو صفحے بھی پڑھتے دیکھا ہے؟ لگتا یہی ہے کہ خان صاحب لکھی ہوئی تحریر پڑھنے میں سہولت محسوس نہیں کرتے۔ اُردو کی حد تک تو غالباً یہ رسم الخط سے عدم بے تکلفی کا شاخسانہ ہے۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ کو بھی یہ مسئلہ درپیش تھا، انہوں نے اس کا حل یہ نکالا تھا کہ وہ اُردو تقریر رومن رسم الخط میں لکھتی تھیں۔ خان صاحب کو بھی اس مسئلہ کا کچھ حل تلاش کرنا ہو گا۔ ویسے نو منتخب اسمبلی میں سب سے زیادہ سراہی گئی بلاول بھٹو کی تقریر انگریزی زبان میں تھی۔ خان صاحب انگریزی میں لکھی ہوئی تقریر بھی کر سکتے ہیں، کیونکہ بہرحال لکھی ہوئی تقریر سے ایک وزیرِ اعظم پانچ سال نہیں بچ سکتا۔

فلم ایکٹنگ کا ایک اصول ہے کہ ’’بے ساختہ اداکاری کے لئے طویل ریہرسل کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔ ونسٹن چرچل اپنی ’فی البدیہ‘ تقریر کے لئے انتہائی عرق ریزی سے نوٹس تیار کیا کرتا تھا۔ ہوم ورک بہت ضروری ہے، The Devil is in the Detail ، خان صاحب کو حلف نامہ دو چار بار پہلے پڑھنا چاہیے تھا، چھ ستمبر کی تقریب کی جُزیات وزیرِ اعظم کے علم میں ہونا چاہیے تھیں، عید کی نماز میں ’’سالانہ نمازی‘‘ بھینگی نظروں سے دائیں بائیں دیکھتے ہیں کہ کب ہاتھ باندھنے ہیں اور کب کھلے چھوڑنا ہیں، اس لئے کہ انہوں نے ہوم ورک نہیں کیا ہوتا۔ بلا وجہ اپنے ناقدین کو مواقع فراہم نہ کیجیے۔ اپوزیشن کو ویسے ہی کافی مواد مل جاتا ہے، غیر ضروری تحائف نہ دیئے جائیں تو اچھا ہے۔

پس گوئی: یہ بھی ممکن ہے کہ حکومت نے جان بُوجھ کہ ایکسلیٹر پہ پائوں دبا کہ رکھا ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ حکومت کی پالیسی ہی ہیجان انگیزی ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ حکومت چاہتی ہو کہ نسیں تنی رہیں، رگیں کھچی رہیں اور نظریں شعلہ بار رہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ حکومت ’’حالتِ جنگ‘‘ میں رہنا چاہتی ہو، یہ بھی ممکن ہے کہ حکومت بابا ٹرمپ کی مُرید ہو۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین