• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

1978-79ء کی ٹیسٹ سیریزکھلینے کے لیے بھارت کی ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا تواس ٹیم کے کپتان بشن سنگھ بیدی تھے۔ جو لفٹ آرم اسپنر تھے۔بھارتی ٹیم میں اُس وقت بڑے بڑے نام تھے جن میں سنیل گواسکر اس وقت کے کامیاب اوپنر اور کرکٹر تھے اس سیریز میں بھارت کو تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں دو صفر سے شکست ہوئی تھی اور تین ایک روزہ میچوں میں بھی پاکستان ایک کے مقابلے میں دو میچوں کی برتری سے کامیاب ہوا تھا۔بھارت کی ٹیم میں سنیل گواسکر کے علاوہ مہندر امرناتھ،گائیکوارڈ، وینگ سارکر وغیرہ شامل تھے جبکہ پاکستان میں حنیف برادرز کے کامیاب کرکٹر مشتاق محمد کپتان، ظہیرعباس،آصف اقبال، سرفراز نواز، جاوید میانداد،ماجد خان اور عمران خان وغیرہ شامل تھے۔ بھارتی ٹیم کے کپتان بشن سنگھ بیدی بڑے ہنس مکھ اور صاف دل کھلاڑی تھے۔انہوںنے کر کٹ سیریز کے دوران اپنے دیگر کھلاڑیوں کے ہمراہ ٹی وی شوز میں بھی شرکت کی۔ بشن سنگھ بیدی کی باتوں اور گفتگو سے دوستی،امن اور دونوں ملکوں کے درمیان اچھے تعلقات کی خوشبو آتی تھی۔ وہ اردو یا ہندی میںگفتگو کرتے کرتے بڑی خوبصورتی سے پنجابی کا تڑکا بھی لگاتے اور یہ کہہ دیتے (میرے کولوں اناں کج نہ اخوائو میں واپس بھی جانا اے) مجھ سے اتنا نہ کہلوائو مجھے واپس انڈیا بھی جانا ہے یعنی یہ دوستی اور امن کی باتیں بھارت کوہضم نہیں ہوںگی اور پھریہی ہوا کہ جب بشن سنگھ بیدی، جہاں کرکٹ سیریز ہارے وہاں پاکستان سے دوستی،محبت اور عمدہ مہمان نوازی کی بھر پور یادیں سمیٹ کرواپس بھارت پہنچے تو وہاں ان کا استقبال بہت تکلیف دہ تھا ۔ان پر تنقید اور الزامات کے پہاڑ گرادیئے گئے اور بھارتی ٹیم کی کپتانی اور کرکٹ ٹیم سے فارغ کردیاگیا ۔یوں کھلاڑی جسے اپنے ملک کا بہترین سفارتکار ،دوستی اور امن کا داعی کہاجاتا ہے ،اس کی ساری کوششوں کو بھارت نے روند کے دکھ دیا۔

چند ہفتے پہلے ایک اور سکھ بھی وزیراعظم عمران خان کی حلف برداری کی تقریب میں بطور مہمان شریک ہونے آیا تھااور پاکستان کی مہمان نوازی، دوستی اور حسن سلوک دیکھ کر امن کی باتیں کرنے لگا اس سکھ کا نام نوجوت سنگھ سدھو ہے جو ایک معروف کر کٹر، وہاں کا صوبائی وزیر اور کئی ٹی وی شو ز کا حصہ بھی ہے۔ ٹورازم اور ثقافت کے اس صو با ئی وزیر نے جب یہ دیکھا کہ پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف خود اسکی نشست تک چل کرآئے ہیںاور جہاں اس کو خوش آمدید کہتے ہو ئے اس کا حال احوال پوچھا، وہاں اسے یہ پیغام بھی دیا کہ ہم امن دوست لوگ ہیں اور سب سے دوستی اور امن چاہتے ہیں۔اس کے علاوہ پاکستانی میڈیا نے بھی نوجوت سنگھ سدھو کے دورے کو مثبت قرار دیا اور کہیں بھی اس کے خلاف پاکستانی عوام کی طرف سے یہ پیغام نہیں گیا کہ سدھوکو واپس بھیجو۔ ورنہ ہم جلا دیںگے،گرادیںگے اور تباہ کردیںگے جس طرح بھارت کے شدت پسند ایسے موقع پر جلائوگھیرائو اور حملے کے نہ صرف پیغامات دیتے ہیں بلکہ اپنی ہی سیکورٹی ایجنسیوں کی مدد سے پاکستانی فنکاروں پر حملہ کرواتے ہیں۔دونوں ملکوں کے درمیان کرکٹ کھیلنے کی بات ہو یا آئی پی ایل میں پاکستانی شاہینوں کی شرکت ہو واویلا کرکے اسے سبو تاژکرتے ہیں۔سدھو سے وزیراعظم عمران خان نے بھی خوب گرمجوشی سے ملاقات کی اور سدھو کو امن کا سفیر قرار دیا۔اور نوجوت سنگھ سدھو جب ساری محبتیں سمیٹتے ہوئے اپنے ملک واپس گیا امن اور دوستی کی باتیں کرنے لگا۔ پاکستانی حکومت اور عوام کے برتائو کی تعریفیں کرنے لگا، تو جوا ب میںاس پر تنقید اور غداری کے نشتر برسائے جا نے لگے بلکہ اس کے خلاف مقدمہ بھی رجسٹرکرلیا گیا۔دوستی اور امن کی بات کرنے والا یہ بشن سنگھ بیدی کے بعد دوسرا سکھ نہیں بلکہ ایسے ہزاروں بلکہ لاکھوں سکھ ہیں جو پاکستان کی دوستی کا دَم بھرتے ہیں۔اپنے مذہبی مقامات پر پاکستان آنے کے بعد وہ حکومت پا کستا ن اور عوام کے حسن سلوک کی تعریف کرتے ہیں ۔حکومت کو چاہیے کہ وہ محبت کی اس ڈوری کو اور مضبوط کرے ،سکھوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات دے ،تاکہ امن اوردوستی کے بھارتی دشمن خود اپنی جلائی ہوئی آگ میں جل کر راکھ ہوجائیں ۔مجھے یقین ہے کہ آنے والے وقت میں صرف بش سنگھ بیدی کے بعد نوجوت سنگھ سدھو دوسرا سکھ نہیں بلکہ امن اوردوستی کی اس لڑی میں پوری سکھ کمیونٹی ضرور آگے آئے گی اور پاکستا نی مئو قف کی حما یت کر ے گی۔

تازہ ترین