• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حسن اور حسین نواز کو بھی جنازے میں شرکت کی اجازت دینی چاہئے،اکرم شیخ

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیوکے مارننگ شو ’’جیوپاکستان‘‘میں گفتگو کرتے ہوئے ماہر قانون اکرم شیخ کا کہنا تھاکہ آئین کی روشنی میں نوازشریف کو پیرول پر طویل رہائی ملنا چاہئے کیوں کہ سزانے حتمی شکل اختیار نہیں کی ۔اسے اپیلٹ کورٹ اور سپریم کورٹ کی اسکروٹنی سے گزرنا ہے۔حسن اور حسین نواز کو بھی جنازے میں شرکت کی اجازت دینی چاہئے کیوں کہ انہیں ابھی تک کسی نے مجرم نہیں ٹھہرایا۔سانحہ 12مئی کے درخواست گزار اقبال کاظمی نے بھی پروگرام میں گفتگو کی۔سندھ ہائیکورٹ کے جے آئی ٹی بنانے سے متعلق فیصلے پر ان کا کہنا تھا کہ ابھی یہ کیس ختم نہیں ہوا بلکہ ہائی کورٹ جے آئی ٹی کی تفتیش مکمل ہونے کے بعد تفصیلی ججمنٹ دے گی۔عدالت نے سانحہ 12مئی کے ماسٹرمائنڈ کو سامنے لانے کا حکم دیا ہے ۔جیوسمیت متعددچینلز نے عدالت میں فوٹج دی ہیں جس میں قاتلوں کے چہرے واضح ہیں مگروہ تاحال آزاد ہیں لہٰذاعدالتی حکم کی روشنی میں انہیں گرفتار کیا جائے۔ فیصلے میں تاخیر پر اقبال کاظمی نے اظہارمایوسی کرتے ہوئے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ مقدمے کا فیصلہ میری زندگی میں آسکے گا کیوں کہ صرف جے آئی ٹی بننے میں گیارہ سال گزرچکے ہیں ۔جوڈیشل سسٹم فرسو داہوچکا اس لئے مقدمات طویل مدت تک چلتے رہتے ہیں ۔ڈرہے کہیں میری یہ بات توہین عدالت کے زمرے میں نہ آجائے۔ پروگرام میں رکن اقتصادی مشاورتی کونسل عابد قیوم سلہری نے شرکت کی ۔ان کاکہناتھا کہ دیامربھاشاڈیم کی تعمیر کا کام شروع ہوچکا ہے لیکن اسے بننے میں 5سے 8سال لگیں گے ۔اسے مکمل کرنے کیلئے 13سے 14ارب ڈالر درکارہیں ۔ڈیم کی تعمیر ایک طویل اورمحنت طلب ٹاسک ہے ۔ڈیم کی تعمیر کیلئے حکومت پاکستان بھی فنڈفراہم کریگی ،کچھ رقم دوست ممالک فراہم کریں گے ،پبلک پرائیوٹ کمپنیوں کو بھی اس میں شامل کیا جائیگا ۔ سینئرتجزیہ کارسہیل وڑائچ نے بتایا کہ بیگم کلثوم نوازایک باہمت خاتون تھیں ،جب مشرف حکومت نے نوازشریف کو جیل بھیجا تو بیگم کلثوم نوازنے بھرپور تحریک چلائی جس کے نتیجے میں حکومت دباوٴمیں آئی اور نوازشریف کو جدہ بھیج دیا گیا ۔حکومت کا خیال تھا کہ کلثوم نوازکی جدوجہد جاری رہی توحکومت کرنا آسان نہیں ہوگا ۔شریف خاندان پر جب بھی کوئی مشکل آتی تو بیگم کلثوم نواز خاندان کی ڈھال بن جاتیں اور جب مصیبتوں کے بادل چھٹ جاتے تو پچھلی نشست پرجاکر بیٹھ جاتیں ۔میاں صاحب نے زندگی کا طویل حصہ بیگم کلثوم نوازاورمریم نوازکے ساتھ گزارہ ،وہ روزانہ تقریباً 4سے 5گھنٹے سیاست پر گفتگوکرتے ۔اے آرڈی بنانے میں بھی ان کا کردار تھا ،وہ نواب زادہ نصراللہ خان کے پاس گئیں اورتحریک کو پروان چڑھایا۔اگرچہ نوازشریف کئی بار مصلحتوں کاشکارہوئے لیکن بیگم کلثوم نوازجمہوریت کے راستے پر ڈٹی رہیں ۔ شخصیات کے بارے میں ان کے تجزیئے اور رائے اکثر درست ہوتی تھی ۔ بیگم کلثوم نوازکے ادبی زوق سے متعلق سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ انہوں نے اردوادب میں پی ایچ ڈی کیا،مرحومہ کو شاعری اورادب سے بھی شغف تھا ۔قرات العین حیدر کی تحریریں انہیں بہت پسند تھیں ۔نوازشریف میری کتاب غدارکون کی اشاعت کے مخالف تھے لیکن بیگم کلثوم نواز نے جب اس کتاب کا مسودہ پڑھا تو انہوں نے اسے شائع کرنے کی اجازت دی ۔حسن اور حسین نوازکی والدہ کے ہمراہ روانگی سے متعلق رئیس انصاری نے بتا یا کہ دونوں بیٹے پاکستان نہیں آرہے کیوں کہ نیب میں ان کے خلاف کیس چل رہا ہے اس کے باعث دونوں کی گرفتاری ممکن ہے ۔اس خاندان میں گزشتہ برسوں میں 3اموات ہوئی ہیں لیکن صورتحال کچھ ایسی رہی کہ وہ جیل سے آئے یاجنازے میں شریک ہی نہ ہوسکے ۔میاں شریف کے انتقال انہیں پاکستان بھیجا گیا لیکن جنازے میں شریک نہ ہوسکے ،مشرف دور میں جب نوازشریف اور شہبازشریف قید میں تھے تو کلثوم نواز کے والد یا والدہ کا انتقال ہوا تو بھی انہیں پیرول پرگارڈن ٹاوٴن لایا گیا تھا ۔سینئرتجزیہ کارسہیل وڑائچ نےکہا کلثوم نوازایک مذہبی خاتون تھیں ،وظائف ،نمازیں اور گھر پر محافل کااہتمام کرتی تھیں۔انہوں نے اپنے بچوں کو آزاد فضا فراہم کی ۔ بیوروچیف لاہور رئیس انصاری کا کہنا تھا کہ بیگم کلثوم نوازکا جسد خاک جمعرات کی شام کو پاکستان روانہ کیا جائیگاجبکہ شہبازشریف میت کے ہمراہ جمعے کی صبح لاہور پہنچیں گے اور نمازجمعہ کے بعد تدفین کی رسومات ادا کی جائیں گی ۔گزشتہ رات نوازشریف ،مریم نوازاورمحمد صفدر کو12گھنٹے کیلئے پیرول پررہائی ملی ،اس مدت میں اضافہ بھی ممکن ہے ۔شریف خاندان کی جانب سے رہائی کیلئے پانچ روزکی درخواست دائر کی گئی ہے امید ظاہر کی جارہی ہے کہ پنجاب حکومت رہائی میں رسم قل تک توسیع کردے گی ۔ ڈی جی پرائیوٹ اسکول سندھ منصوب صدیقی نے کہا کہ عدالتی حکم تمام نجی اسکول اور طلبہ پر لاگو ہوگا ۔احکامات پر عمل درآمد نہ کرنے والے اسکولوں کی رجسٹریشن معطل کردی جائے گی ۔ چیئرمین نجی اسکول ایسوسی ایشن شرف الزماں کا کہنا تھا کہ فیسو ں میں اضافے کا عمل سن 2001سے جاری ہے ۔قانون کے مطابق کوئی تعلیمی ادارہ پانچ فیصد سے زیادہ فیسوں میں اضافہ نہیں کرسکتا جبکہ فیسیں بڑھانے کیلئے ڈائریکٹریٹ آف پرائیوٹ انسٹیٹیوٹ سندھ سے اجازت لینا ضروری ہے ۔بمشکل دس فیصد اسکول ایسے ہیں جوفیسوں میں غیر ضروری اضافہ کررہے ہیں یہ اسکول محکمہ تعلیم کے کردار کوتسلیم کرنے کیلئے بھی تیارنہیں ۔زائد فیسوں کے مسئلے کو حل کرانے کی ذمے داری سندھ حکومت کی تھی لیکن ایسا نہ ہوسکا ۔ شرف الزماں نے کہا کہ انہیں نہیں لگتا کہ یہ نجی اسکول عدالتی حکم کی روشنی میں زائد وصول کی جانے والی فیس والدین کو واپس کریں گے۔ اگر ایسے اسکولوں کی رجسٹریشن معطل کردی جائے تو معاملہ حل ہونے کی امید بر آئے گی۔
تازہ ترین