• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈی پی او پاکپتن کیس، وزیراعلیٰ پولیس افسران کو براہ راست طلب نہ کریں، آئی جی کی سپریم کورٹ کو رپورٹ

اسلام آباد (جنگ نیوز، مانیٹرنگ ڈیسک) ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) پاکپتن کی تبدیلی کے معاملے میں انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب پولیس کلیم امام نے انکوائری رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروادی، جسکے مطابق وزیرِاعلیٰ پنجاب نے کسی کو زبانی یا تحریری احکامات جاری نہیں کیے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے ڈی پی او پاکپتن پر دباؤ ڈالا نہ تبادلے کا کہا۔آئی جی پنجاب نے اپنی رپورٹ میں سفارشات پیش کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ وزیر اعلیٰ کسی بھی پولیس افسر کو براہِ راست اپنے دفتر طلب نہ کرِیں، اگر کسی افسر سے متعلق کوئی معاملہ ہو تو اسے آئی جی پنجاب کے ذریعے طلب کیا جائے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ 24 اگست کو وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے پی ایس او کے ذریعے پولیس افسران کو آئی جی پنجاب کے علم میں یہ بات لائے بغیر رات 10 بجے طلب کیا تھا۔ مانیکا خاندان کے قریبی دوست احسن اقبال جمیل وزیر اعلیٰ پنجاب کی دعوت پر ان کے دفتر آئے، وزیر اعلیٰ کے پی ایس او حیدر علی نے آر پی او ساہیوال کو کمیٹی روم میں بٹھایا۔ سی ایس او رانا عمر فاروق نے ڈی پی او پاکپتن ندیم گوندل کو بھی کمیٹی روم میں بٹھایا، اس دوران احسن اقبال جمیل بھی وہاں پہنچ گئے۔ اسی دوران وزیر اعلیٰ کمیٹی روم میں داخل ہوئے تو انکا عملہ کمیٹی روم سے چلا گیا، جسکے بعد احسن اقبال جمیل نے مانیکا خاندان کے ساتھ ہونے والے واقعات کے بارے میں شکایت کیں، جن میں پولیس کی جانب سے خاور مانیکا کی بیٹی کے ہاتھ پکڑنے اور دھکے دینے کی بھی شکایت شامل تھی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس واقعے سے خاور مانیکا کے بچے شدید ذہنی تناؤ کا شکار تھے، اور متعدد دوستوں کے ذریعے پیغامات کے باوجود پولیس کی جانب سے ذمہ داروں کے خلاف کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ تاہم احسن اقبال جمیل کو شک تھا کہ خاور مانیکا اور ان کے بھائیوں میں تنازع کی وجہ سے معاملہ حل نہیں ہو رہا۔

تازہ ترین