• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپنے ناقدین کو چپ کرانے کیلئے ان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہ بچا تھا کہ وہ خود خاموش ہوجائیںتاکہ ثابت کرسکیں کہ انکی بیماری کینسر اور انکا وینٹی لیٹر پر ہونا کوئی ڈرامہ یا سیاسی کرتب نہیں بلکہ مشکل حقیقت تھی۔ سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر دیکھیں تو وہ آخری دم تک لڑنے والی خاتون تھیں چاہے وہ لڑائی آمر کے خلاف ہو یا کینسر کے خلاف۔ بہترین پیرائے میں انہیں ایک وفاشعار بیوی، خیال رکھنےو الی ماں اور انکسار سے بھرپور خاتون کے طور پر متعارف کرایا جاسکتا ہے۔سیاست ان کے لئے کبھی بھی آپشن نہیں تھی لیکن انہوں نے متعدد ن لیگی رہنماوں اور دیگر کے مقابلے میں بہترین سیاست کی۔ فوجی بغاوت کے بعد انہوں نے پارٹی کو یکجا کرنے کی کوشش کی اور خاص طور پر ایسے وقت میں جب جاوید ہاشمی جیسے لیڈر پارٹی چھوڑ کر جارہے تھے کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ یہ ایک بڑا نقصان ہوگا۔ بیگم کلثوم نواز کا انتقال ہو چکا ہے اور انکی وفات کے ساتھ ہی وہ تمام سازشی نظریات دم توڑ گئے جو انکے اور انکی بیماری کے بارے میں گھڑے جارہے تھے۔ دیر سے مانگی گئی معافی، اظہار افسوس اور پشیمانی قابل قبول اقدار ہیں لیکن کیا سیاستدانوں اور صحافیوں کے لئے وقت نہیں آگیا کہ وہ ذاتی پریشانیوں اور تکلیف کے موقع پر اخلاقیات کا مظاہرہ کریں۔ کلثوم نواز اب ہم میں نہیں رہیں اور ان کی تدفین کردی جائے گی۔ حکومت نے نواز شریف، مریم نواز اور ریٹائرڈ کیپٹن صفدرکو پیرول پر رہا کر کے صحیح اقدام اٹھایا۔ کسی کو بھی شریف خاندان سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن سابقہ خاتون اول کا استحقاق ہے کہ انہیں سیاست سے بالا تر ہو کر باوقار طریقے سے مدفون کیا جائے۔ جی ہاں، ن لیگی رہنما اور کارکن بہت جذباتی ہوں گے لیکن یہ وقت ہے کہ بیگم کلثوم نواز کی عزت اور احترام کیا جائے جو ان کا حق ہے۔ اس خاندان کی مشکلات اور دکھ و تکلیف کو سمجھنا مشکل نہیں۔ یہ ان کے لئے شاید زیادہ تکلیف دہ ثابت ہوا ہوگا جب انکے بعض مخالفین نے بیگم کلثوم نواز کی بیماری پر شکوک و شبہات اٹھائےجبکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ نہ صرف شدید علیل تھیں بلکہ وینٹی لیٹر پر تھیں۔ بیگم کلثوم نواز چونکہ شدید علیل تھیں لہذا وہ ان تمام سازشی نظریات سے بھی ناواقف تھیں جو انکی بیماری سے متعلق پھیلائے گئے تھے۔ مجھے شبہ ہے کہ انہیں شاید ہی اپنے شوہر اور بیٹی کے جیل ہوجانے کی خبر سنائی گئی ہو۔ بیگم کلثوم نواز مجھے اس دکھ و تکلیف کی یاد دلاتی ہیں جس سے بیگم نصرت بھٹو گذری تھیں۔ انہیں اب بھی ہماری سیاسی تاریخ میں سب سے زیادہ بدقسمت خاتون اول تصور کیا جاتا ہے۔ انکے مخالفین نے بھی انکی بیماری پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا۔ بعض مواقع پر بینظیر بھٹو پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے بیگم نصرت بھٹو کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ ایک دفعہ جب میں بینظیر بھٹو کا انٹر ویو لینے دبئی گیا تو انہوں نے بتایا کہ بیگم نصرت بھٹو کی صحت خراب ہو رہی ہے۔ بیگم کلثوم نواز اور بیگم نصرت بھٹو تعلیم یافتہ خواتین تھیںلیکن سیاسی حالات کے باعث دونوں سیاسی کردار ادا کرنے پر مجبور ہوئیں۔ دونوں نے اپنے دور کے فوجی آمروں جنرل مشرف اور جنرل ضیا کے خلاف تاریخی کردار ادا کیا۔بیگم نصرت بھٹو نے اپنا شوہر، دو بیٹےاور ایک بیٹی کو کھویا ۔ سب سے بڑا سانحہ یہ تھا کہ وہ زندہ تھیں لیکن انہیں بیماری کے باعث اپنی پیاری بیٹی کی شہادت کے بارے میں نہیں بتایا جاسکا۔ بیگم نصرت بھٹو کے مقابلے میں بیگم کلثوم نواز زیادہ غیر سیاسی تھیںپھر بھی وہ مشرف کے خلاف ایسے وقت میں واحد مضبوط آواز کے طور پر ابھریں جب نواز اور شہباز جیل میں تھے اور گجرات کے چوہدری برادران سمیت دیگر لیگی رہنما مشرف کے خلاف مزاحمت کے حوالے سے ہچکچاہٹ کا شکار تھے۔ بھٹوخاندان کو پرنٹ میڈیا کے ایک مخصوص حلقے کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا کیونکہ 2002تک پرائیوٹ ٹی وی چینلز موجود نہیں تھے۔ جس طرح بھٹو اور بیگم بھٹو کے خلاف دائیں بازو کے بعض اخبارات اور میگزین میں آرٹیکل اور کالم چھاپے گئے وہ کافی حد تک ذاتیات پر مبنی تھے۔ تاہم محدود اشاعت کے باعث یہ مواد موثر ثابت نہ ہوسکا۔ اگر شریف خاندان اور ن لیگ بیگم کلثوم نواز کی بیماری کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی تو سیاسی مخالفین اور میڈیا کو تنقید کا حق حاصل ہوتا ۔ شرم ایک بہت چھوٹا لفظ ہے اور دہری مشکل یہ ہے کہ ایسے لوگ آج بھی شرمندہ نہیں اور حیلے بہانے تلاش کر رہے ہیں۔ بیگم کلثوم نواز ایک صدمے سے گذریں۔ ظاہری طور پر وہ ایک روایتی مشرقی خاتون، ایک وفادار بیوی اور پیار کرنےو الی ماں نظر آئیں۔ نہ ہی وہ سیاسی تھیں اور نہ کبھی سیاست میں دلچسپی لی لیکن انہوں نے ایسے وقت میں سیاست کی جب ن لیگ رہنماوں کی اکثریت نے گرفتاری کے ڈر سے سڑکوں پر احتجاج سے اجتناب برتا۔ جنرل پرویز مشرف کی مخالفت کے باوجود انہوں نےکبھی بھی تندو تیز اور نازیبا زبان استعمال نہیں کی۔ میری ان سے پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ نواز شریف کے خلاف ہائی جیکنگ کیس میں پہلی سماعت کےموقع پر خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ موجود تھیں۔ وہ ہمیشہ مطمئن اور عاجز و انکساری سے بھرپور خاتون نظر آئیں۔ اس موقع پر مریم نواز نسبتا زیادہ جذباتی تھیں۔ یہ ملاقات جو مجھے ہمیشہ یاد رہی، نواز شریف کے قریبی دوست کی رہاشگاہ پر ہوئی تھی۔ میں نے انہیں قابل اور ذی علم خاتون پایا جنہیں اردو ادب خاص طور پر شاعری پر عبور تھا۔ وہ سیاست میں کوئی خاص دلچسپی نہ رکھتی تھیں لیکن ان سالوں میں وقوع پذیر واقعات پر پریشان تھیں۔ نواز شریف کی قانونی ٹیم کے رکن خواجہ نوید جو بیگم کلثوم نواز کی موجودگی میں شریف برادران سے ملاقات کیا کرتے تھے، اپنے کچھ ذاتی تجربے بیان کئے۔ وہ عجز و انکساری سے بھرپور خاتون تھیں، جب کبھی وہ اپنے شوہر کے چہرے پر پریشانی دیکھتیں تو مجھے پنجابی میں لطیفے سنانے کو کہتیں تاکہ میاں صاحب کو خوش کر کے آرام پہنچایا جاسکے۔ یہاں تک کے فیصلہ دئے جانے والے دن بھی وہ بہت مطمئن تھیں اور نہیں چاہتی تھیں کہ میاں صاحب یا مریم کسی تناو سے گذریں۔ جب جج رحمت حسین جعفری نے سب کو بری کر کے میاں صاحب کو عمر قید کی سزا سنائی تو مریم کھڑی ہوئیں اور مشرف کے خلاف نعرے لگائے لیکن بیگم کلثوم نواز نے ان کا ہاتھ پکڑااور بیٹھنے کو کہنا۔ صحافت میں موت کے سوا کوئی بھی خبر ذرائع سے دی جاسکتی ہے۔ چاہے طبعی موت ہو یا غیر طبعی، دہشت گردی کے نتیجے میں ہونے والی موت ہو یا آتشزدگی اور حادثے کی صورت میں وقوع پزیر موت، معاملے کی حساسیت کے پیش نظر براہ راست ذریعے کے بغیر نہیں دی جاسکتی کیوںکہ ایسے معاملات میں ذاتی جذبات شامل ہوتے ہیں۔ بعض موقعوں پر جب آپ کے پاس کسی کی موت کی کوئی مصدقہ خبر بھی ہوتی ہے تو بھی آپ اسے روک لیتے ہیں یہاں تک کے وہ متعلقہ خاندان کے علم میں آجائے۔ مجھے آج بھی یاد ہے کس طرح اس چینل نے جس کے لئے میں کام اس وقت کام کررہا تھا ، بینظیر کی شہادت کی خبر روک لی تھی یہاں تک کے متعلقہ ڈاکٹر نے موت کی تصدیق کردی۔ جی ہاں دنیا بھر میں کسی بھی شہرت یافتہ شخصیت کی موت کی خبر کی ا پنی قدر و قیمت ہوتی ہے اور اسی حساب سے اس کے ساتھ معاملہ بھی برتنا چاہیے تاہم یہ کہانی ہے موت سے قبل اور موت سے متعلق جس کے ساتھ سخت احتیاط برتنی چاہیئے۔ کچھ اقدار ایسی ہوتی ہیں جن کا ہمیشہ پاس کیا جانا چاہیے لیکن موت کی خبر کوئی بریکنگ نیوز نہیںکیوںکہ ہمارے صحافی دوستوں نے جاننے کے باوجود میر مرتضیٰ بھٹو کی موت کی خبر کو روکے رکھا تھا۔

تازہ ترین