• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عمر چیمہ کئی دنوں سے اصرار کررہے تھے کہ میں اپنی نقل و حرکت کو محدود کردوں اور گفتگو میں احتیاط سے کام لوں۔ یہ وہ مشورہ ہے جو پاکستان کے اکثر صحافی ایک دوسرے کو دیتے ہیں لیکن اس مشورے پر خود عمل نہیں کرتے۔عمر چیمہ کا اصرار اس وقت شروع ہوا جب کچھ مہینے قبل جیو ٹی وی پر کیپٹل ٹاک میں مسلم لیگ(ن) کے رہنما خواجہ محمد آصف نے بلوچ قوم پرست رہنما سردار عطاء اللہ مینگل کی طرف سے فوج کے بارے میں دئیے گئے کچھ ریمارکس کی تائید کردی تھی اور اس پروگرام کے فوراً بعد مجھے ٹیلی فون پر اور ایس ا یم ایس پیغامات کے ذریعہ دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ عمر چیمہ نے فوری طور پر مجھے یہ معاملہ صحافیوں کی قومی اور بین الاقوامی تنظیموں کے نوٹس میں لانے کے لئے کہا۔ میں نے اس مشورے پر عمل کیا لیکن عمر چیمہ کے مشورے کو نظر انداز کردیا۔ میرا خیال تھا کہ میرا یہ ساتھی خود حق گوئی کی وجہ سے اغواء ہو کر خفیہ اداروں کی مارکھا چکا ہے اس لئے میرے بارے میں ضرورت سے زیادہ پریشان ہے۔ عیدالاضحی سے دو دن پہلے عمر چیمہ نے ایک دفعہ پھر اپنے اصرار کو دباؤ میں تبدیل کرتے ہوئے کہا کہ مجھے محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ تحریک طالبان پاکستان کا ایک ترجمان احسان اللہ احسان مختلف صحافیوں کو فون کرکے کہہ رہا تھا کہ وہ عنقریب حامد میر پر حملہ کریں گے۔ یہ صاحب مجھے ای میل کے ذریعہ ایک خط بھی بھیج چکے تھے جس میں موصوف نے ملالہ یوسفزئی کی حمایت پر مجھے اسلام کا دشمن قرار دیدیا تھا۔ میں نے احسان اللہ احسان کے خط کے جواب میں18اکتوبر2012ء کو ”دھمکی کا جواب“ کے عنوان سے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ جو لوگ ایک بچی پر حملے کو شریعت کے عین مطابق قرار دے رہے ہیں۔ وہ اپنے دعوے کے حق میں کسی جید عالم دین کا فتویٰ لے کر آئیں۔ کئی دن گزرنے کے باوجود احسان اللہ احسان کوئی فتویٰ پیش نہ کرسکا۔عمر چیمہ کا خیال تھا کہ دھمکی دینے والوں کی طرف سے خاموشی کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ میں خطرات سے نکل چکا ہوں۔ میرے اس پیارے بھائی نے بڑی اپنائیت کے ساتھ مجھے کہا کہ آپ لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہیں، آپ بلوچستان میں سیاسی کارکنوں اور صحافیوں پر حملوں کے خلاف بولتے ہیں، آپ آزاد ججوں کے خلاف سازشیں کرنے والوں کو بھی للکارتے ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بھی حمایت کرتے ہیں جس کی وجہ سے طاقتور خفیہ ادارے آپ سے سخت ناراض ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ تحریک طالبان پاکستان کی دھمکی کی آڑ لے کر کوئی مکار دشمن آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے۔ عمر چیمہ کی دلیل میں کافی وزن تھا لیکن میں نے اپنے اس مخلص دوست کے ساتھ بہت بحث کی۔ میرا موقف تھا کہ زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔ مجھے ملالہ یوسفزئی کے موقف سے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن ا س کے قتل کی کوشش پر خاموشی اختیار کرنا قاتلوں کی مدد کرنے کے مترادف ہے۔ مجھے اپنے آپ کو بہادر ثابت کرنے کا بھی کوئی شوق نہیں لیکن برائی سے خوف کھانا کمزور ایمان کی علامت ہے۔خوف بری نیت سے پیدا ہوتا ہے اگر نیت صاف ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان مضبوط ہو تو نہ کوئی امریکی ڈرون کسی کو ڈرا سکتا ہے نہ کوئی خود کش حملہ آور کسی کو خوفزدہ کرسکتا ہے۔ عمر چیمہ نے میری کوئی توجیح قبول نہیں کی اور یہ کہہ کر چلا گیا کہ لمبی لڑائی کے لئے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو بچا کر رکھیں۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آپ کی ہدایت پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا لیکن زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔
عمر چیمہ نے صحیح کہا تھا۔ مجھے واقعی احتیاط کی ضرورت تھی۔ پیر کی صبح میں اپنی ایک زیر طبع کتاب کا کچھ مواد فوٹو اسٹیٹ کرانے کیلئے گھر سے نکلا تو ایک ایسی مارکیٹ میں چلا گیا جہاں کئی سال سے میرا آنا جانا ہے اور یہاں مسلح محافظوں کے بغیر جانا واقعی ایک حماقت تھی۔ شاید یہیں پر دشمنوں نے میرے ڈرائیور کی نظروں سے بچ کر میری گاڑی کے بائیں طرف نچلے حصے میں ایک مقناطیسی بم نصب کردیا۔ اس دن خلاف معمول مذکورہ مارکیٹ میں زیادہ وقت نہیں گزارا اور میں فوٹو اسٹیٹ کیلئے دوسری مارکیٹ میں چلا گیا۔ اپنے کام سے فارغ ہو کر میں دفتر کی تیاری کے لئے گھر واپس آیا تو ہمسایوں کے ڈرائیور کو میری گاڑی کے بائیں طرف ایک سیاہ بیگ لٹکا ہوا نظر آیا۔ ہم نے فوری طور پر بم ڈسپوزل اسکواڈ کو بلایا تو اس سیاہ سفری بیگ میں ایک بم کے علاوہ طاقتور مقناطیس موجود تھے۔ یہ خبر میرے ساتھیوں کو پتہ چلی تو وہ بڑی تعداد میں میرے پاس پہنچے۔ تمام دن کسی نے اس قاتلانہ حملے کی ذمہ داری قبول نہ کی۔ اگلے دن احسان اللہ احسان نے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دوبارہ حملے کی دھمکی دی۔تحریک طالبان پاکستان کے اس ترجمان نے مجھے ایک دفعہ پھر اسلام کا دشمن قرار دیا لیکن اپنے دعوے کے حق میں کوئی فتویٰ اور دلیل پیش نہ کرسکا۔ یہ وہی شخص ہے جو علماء کرام اور مساجد پر حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کرتا ہے۔اسکے بیان پر سب سے خوبصورت تبصرہ روزنامہ”اسلام“نے اپنے ادارتی نوٹ میں کیا ہے۔روزنامہ ”اسلام“ نے لکھا ہے کہ اس حملے کا بظاہر مقصد میڈیا کے ان چند افراد کو خوفزدہ کرنا ہے جو خطے میں استعمار کے عزائم، ڈرون حملوں، ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر امریکی مظالم اور ملک کے اندر لوگوں کو لاپتہ کرنے کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔
مجھے قتل کرنے کی سازش کا پتہ چلنے پر پاکستان کے اندر اور باہر سے میرے مہربانوں نے ہزاروں کی تعداد میں مجھے ٹیلی فون کرنے شروع کردئیے۔ دوسری طرف مجھے پولیس اور تحقیقاتی اداروں سے بھی تعاون کرنا تھا لہٰذا مجھے اپنے فون بند کرنے پڑے اور سارا بوجھ میرے دفتر کے ساتھیوں نے اٹھایا۔ وہ لوگ جنہوں نے فون، ٹوئٹر، ایس ایم ایس، فیس بک اور ای میل کے ذریعہ میرے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ان سب کا بہت شکریہ ،جو لوگ مجھ سے رابطہ نہ کرسکے ان سے میں معذرت خواہ ہوں۔ مولانا سمیع الحق دودن تک دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے مجھے فون کرتے رہے لیکن رابطہ نہ ہوسکا۔طبیعت ناساز ہونے کے باوجود خاص طور پر اکوڑہ خٹک سے اسلام آباد آئے اور انتہائی شفقت اور محبت کے ساتھ میرے خلاف سازش کی مذمت کی۔ انہوں نے بتایا کہ احسان اللہ احسان نام کا کوئی آدمی نہیں ہے۔ یہ ایک نقلی نام ہے یہ نام استعمال کرنے والا دراصل کوئی دوسرا نام رکھتا ہے۔اس مشکل وقت میں برمنگھم کے ہسپتال سے ملالہ یوسفزائی اور ان کے والد نے بھی فون کیا۔ ملالہ بیٹی کی آواز میں نقاہت تھی لیکن لہجہ پرعزم تھا۔
نواز شریف اور شہباز شریف نے خود بھی فون کیا لیکن ان کی والدہ کے فون سے بہت حوصلہ بڑھا۔ صدر آصف علی زرداری تو کافی عرصے سے مجھے مسلح محافظوں کے بغیر گھومنے پھرنے سے منع کررہے تھے۔ اس واقعہ کے بعد انہیں میر ی لاپرواہی اور نافرمانی پر افسوس کرنے کا سنہری موقع مل گیا تھا لیکن ان کی مہربانی کے انہوں نے کراچی سے فون پر صرف اپنی پچھلی باتیں یاد دلائیں۔ الطاف حسین صاحب نے گھر پر پھول بھیجے۔ عمران خان نے ٹوئٹر پر میرے حق میں پیغام جاری کیا اور فون بھی کیا۔ مولانا فضل الرحمان، قاضی حسین احمد، ،اسفندر یار ولی خان، ڈاکٹر مالک بلوچ، اختر مینگل، پیرپگارو، چودھری شجاعت حسین سمیت ملک بھر سے لاتعداد خیر خواہوں اور صحافیوں نے پیغامات بھیجے۔ مشاہد حسین اور نوشین سعید گھر پہنچ گئے۔ آئی ایس پی آر کے ڈی جی میجر جنرل عاصم باجوہ اور ان کے ساتھیوں کا بھی شکریہ۔زاہد ملک ،خوشنود علی خان، مہتاب خان، سردار خان نیازی، شیخ افتخار عادل اور اخبار فروشوں کے لیڈر ٹکا خان عباسی خاص طور پر دفتر آئے۔ جناب چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے بھی پھول بھیجے۔ چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم نے سیکورٹی کا خیال رکھنے کے لئے مجھے ایک لمبا لیکچر دیا۔ راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس ،نیشنل پریس کلب اور پی ایف یو جے سمیت تمام صحافتی تنظیمیں اور سول سوسائٹی مجھے اپنے ساتھ کھڑی نظر آئیں۔ جیو ٹی وی اور جنگ کی انتظامیہ نے بھی بھرپور استقامت کا مظاہرہ کیا۔ میں ایک کمزور اور گنہگار انسان ہوں میرے لئے محترم عطاء الحق قاسمی اور عمر چیمہ نے جو کچھ لکھا میں اس کا مستحق نہیں لیکن میں اپنے دشمنوں کا شکر گزار ہوں کہ ان کی سازشوں نے مجھے مزید ہمت اور حوصلہ دیا ۔میرے دل میں خوف خدا مزید بڑھ گیا اور دشمنوں سے بے خوفی بھی بڑھ گئی، دعا کیجئے کہ میں سچ بولتا اور لکھتا رہوں۔
تازہ ترین