• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لاہور کے چاہنے والے پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ، جن میں غیرملکی بھی کثیر تعداد میں شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ نے تو لاہور کی طلسمی کشش کے بارے میں مضامین اور کتابیں بھی لکھی ہیں۔ انڈیا میں تو لاہور ایک”کریز“ ہے۔لاہور سے عشق کرنے والوں میں بالی ووڈ کے سپر سٹارز گلزار اور نصیرالدین شاہ بھی شامل ہیں۔ میں خود کو بھی کل تک عاشقان لاہور میں سر فہرست سمجھتا تھا لیکن میری یہ خوش فہمی ایک اخبار کے فوٹو گرافر نے دور کردی ہے۔ گزشتہ روز رضا صاحب میرا انٹرویو کرنے آئے تو ان کے ساتھ فوٹو گرافرعارف بھٹی بھی تھے۔فوٹو گرافوں والی یونیفارم میں ملبوس بہت سی جیبوں والی جیکٹ اور گلے میں کیمرے کا بیگ لٹکایا ہوا، باتوں باتوں میں لاہور کی صوری اور معنوی خوبصورتیوں کا ذکر چھڑا تو میں نے محسوس کیا کہ عارف رونے کے قریب قریب پہنچ گیا ہے تاہم اس کی یہ کیفیت کی وجہ بالکل کچھ اور تھی ۔ اس نے مجھ سے پوچھا”لاہور میں میں تیز رفتار بس کے لئے ستائیس کلو میٹر طویل جو علیحدہ ٹریک بن رہا ہے اور جس کے لئے اس طویل رستے پر متعدد فلائی اوور بن رہے ہیں اس کے علاوہ پورے لاہور میں سڑکوں کو کشادہ کرنے کے لئے جو عمارتیں مسمار کی جارہی ہیں اور بلند و بالا فلائی اوورز اور انڈر پاس تعمیر ہورہے ہیں ان کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟“ میں نے کہا”بہت اچھا کام ہے، اس سے عوام کو بہت سہولت ملے گی، پٹرول اور سی این جی کی بچت ہوگی،گاڑیوں کی دیکھ بھال ا ور مرمت پر کم خرچ آئے گا، وقت ضائع ہونے سے بچے گا۔ کاروباری سرگرمیاں تیز ہوں گی اور یوں معیشت پر بھی خوشگوار اثر پڑے گا“ کہنے لگا ”یہ تو ٹھیک ہے لیکن میں جو لاہور بچپن سے دیکھتا چلا آرہا ہوں اور جس کا ہر منظر میرے دل و دماغ میں بسا ہوا ہے وہ لاہور تو میری نظروں سے گم ہوگیا ہے کیا میں اپنا شہر اب کبھی نہ دیکھ سکوں گا؟“یہ وہ لمحہ تھا جب اس کے گلوگیر لہجے سے مجھے خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں یہ شخص رو نہ پڑے۔ اس نے کہا”سر جی ، جب یہ کام شروع ہوا میں نے اپنے لاہور کو سلو لائیڈ پر منتقل کرنے کے لئے ان تمام مقامات کی تصویریں بنانا شروع کردیں جو مجھے دوبارہ نظر نہیں آنے تھے۔ مجھے لاہور کا کلمہ چوک بہت اچھا لگتا تھا جب ایل ڈی اے کا عملہ اسے”شہید“ کرنے کے لئے وہاں پہنچا تو میں نے ملک احد کے نیم مسمار شدہ پلازہ کی ہلتی ہوئی خطرناک سیڑھیوں پر چڑھ کر اس کی آخری جھلک دیکھی تو پھر کیمرے کا بٹن دبا دیا“میں نے محسوس کیا کہ اب یہ شخص مجھے بھی جذباتی کرنے لگا ہے جبکہ اس کام کے لئے ہمارے انتظار حسین کیا کم ہیں کہ اب عارف بھٹی بھی ہماری گم شدہ بستیوں کا نوحہ پڑھنے آگیا ہے چنانچہ میں نے اپنے اعصاب مضبوط کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا”دیکھیں بھٹی صاحب اقبال نے کہا ہے،”ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں“عارف نے جواب دیا ”مگر اقبال نے تو یہ بھی کہا ہے کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا“اس بار ایک دفعہ پھر میں اقبال کو درمیان میں لے آیا”کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد“ یہ بات میں نے بحث برائے بحث کے لئے کہی تھی ورنہ میں جانتا تھا کہ تازہ بستیوں“ سے اقبال کی مراد کیا ہے؟
تو بات یہ ہے کہ نئے لاہور کے حوالے سے میری اداسی میں عارف بھٹی نے اضافہ کردیا۔ لاہور میں اور دوسرے شہروں میں ہونے والے بے شمار ترقیاتی کاموں کے مثبت پہلوؤں پر میری نظر ہے مگر اس ناسٹیلجیا کا کیا کریں جو ہمیں ایک ہی تصویر کے ساتھ زندگی بسر کرنے پر مجبور کرتا نظر آتا ہے،ترقی پسند اسے رجعت پسند سوچ قرار دیتے ہیں۔ یہ سوچ رجعت پسندانہ ہوگی مگر یہ ناسٹیلجیا انسان کی جبلت میں شامل ہے تاہم ایک دوسرا سچ یہ بھی ہے کہ ماضی اگرچہ ایک مضبوط حوالہ ہے مگر صرف اس کے سہارے تو زندہ نہیں رہا جاسکتا۔ آج کے لاہور میں رنگ روڈ، فلائی اوورز اور انڈر پاس کا ایک جنگل نظر آتا ہے، اس جنگل کی اپنی خوبصورتی بھی تو ہے اور پھر جو سفر انگریزی کا Sufferبن جاتے تھے وہ کتنے آرام دہ ہوسکتے ہیں۔ رنگ روڈ کی وجہ سے شاہدرہ سے ائیر پورٹ تک کا سفر ڈھائی گھنٹے کی بجائے اب پندرہ منٹوں میں طے ہوتا ہے اگر اس کے باوجود میری عارف بھٹی کی آنکھیں وہی مناظر دیکھنے کو ترستی ہیں جو ہم نصف صدی سے زیادہ عرصے سے دیکھتے چلے آرہے تھے تو ہمیں معاف کردینے کے علاوہ کیا چارہ ہے تاہم ان لمحوں میں مجھے ایک سوچ یہ بھی آتی ہے مگر یہ بھی تو حقیقت ہے کہ نصف صدی پہلے والا لاہور بھی تو وہ لاہور نہیں تھا جس کا نوحہ عارف بھٹی پڑھ رہا تھا اور جس کے ساتھ میں بھی شریک تھا۔ وہ لاہور بھی بدلی ہوئی صورت میں ہمارے سامنے تھا اس کی گواہی ہمارے بزرگوں سے لی جاسکتی ہے، اس سوچ کے دوران میں چھلانگ لگا کر لاہور سے امریکہ پہنچ گیا اور میں نے سوچا جو امریکہ ریڈ انڈین کے دور میں تھا وہ امریکہ اب وہ امریکہ نہیں ہے۔ سو لاہور بھی اپنی پیدائش سے اب تک اپنی شکلیں بدلتا چلا آرہا ہے، میرے بیٹے یاسر، عمر اور علی جب گود میں تھے تو بہت پیارے لگتے تھے پھر وہ جوں جوں بڑے ہوتے گئے ان کی شباہتیں تبدیل ہوتی گئیں، ان کی دل لبھا دینے والی معصومیت تو باقی نہیں رہی لیکن اس کی جگہ ان کی کئی دوسری خوبصورتیوں نے لے لی، سو وہ مجھے آج بھی پیارے لگتے ہیں۔ اب میں ان کی معصومیت کا خلا ان کے بچوں نایاب انمول اور آمنہ سے پر کرتا ہوں دراصل شہر بھی انسانوں کی طرح ہوتے ہیں وہ اپنی ظاہری شکلیں بدلتے رہتے ہیں لیکن ان کا خوبصورت باطن اگر برقرار رہے تو سنگ و خشت سے نمودار ہونے والی تازہ بستیاں بھی اہل نظر کے دلوں کو آباد رکھتی ہیں۔
لیکن ناسٹیلجیا تو بہرحال ناسٹیلجیا ہے، عارف بھٹی اور دوسرے بہت سے لوگوں کے دلوں میں لاہور کاموجودہ نقشہ کسک تو پیدا کرے گا کہ اس کے پرانے درو بام بہت عرصے سے ہمارے اندر آبا د تھے لیکن جو نسل آج بلوغت کی سرحدوں میں قدم رکھ رہی ہے اس کا لاہور یہ نیا لاہور ہی ہوگا پھر ایک وقت آئے گا کہ جب یہاں میٹرو چلے گی اور دوسری بہت سی نئی چیزیں تیز رفتار زمانے کا ساتھ دینے کے لئے وجود میں آئیں گی تو اس نسل کو آج کا لاہور یاد آئے گا۔ ناسٹیلجیا تو ہر نسل کے ساتھ چلتا ہے۔آج کا لاہور ان کا ناسٹیلجیا ہوگا، میرے بچپن اور جوانی کا بہت بڑا حصہ لاہور کی جدید بستی ماڈل ٹاؤن میں گزرا ہے مگر میرا ماڈل ٹاؤن میرا ماڈل ٹاؤن نہیں رہا، اس کی جامع مسجد اے بلاک اپنا اصلی رنگ روپ کھوچکی ہے اور اس کی چار دیواری کے گرد بدصورت عمارات کھوکھے اور دکانیں وجود میں آچکی ہیں۔ چھ چھ کینال کی کوٹھیاں حصے بخرے کے بعد ایک ایک کینال اور دس دس مرلے کے پلاٹوں میں تقسیم ہوگئی ہیں۔ میرا سینٹ لوئیس جہاں میں 1970ء میں ایک گھر میں قیام پذیر تھا اب نہ وہ سینٹ لوئیس ویسا ہے اور نہ میرا گھر جس میں ،میں نے اپنی زندگی کے دو خوبصورت سال بسر کئے۔ چند برس پیشتر میں سینٹ لوئیس گیا تو مجھ سے اس شہر کی ترقی دیکھی نہیں جاتی تھی کیونکہ اس نے میرا ماضی مجھ سے چھین لیا تھا، میں اپنا گھر تلاش کرنے گیا تو مجھے اس گھر کا راستہ نہیں ملتا تھا جب میں وہاں لشٹم پشٹم پہنچا تو میری متواتر دستکوں کے باوجود کسی نے یہ دروازہ میرے لئے وا نہیں کیا، سو میرے پیارے بھٹی دل گرفتہ ہونے کی ضرورت نہیں کبھی کبھار انسانوں کی طرح شہر بھی اپنے چاہنے والوں کے دل دکھایاکرتے ہیں،مگر تم یہ دیکھو کہ اگر میرا اور تمہارا دل دکھا ہے تو اس میں قصور ہمارا بھی تو ہے ہم کیوں نہیں سوچتے کہ ہمارے بچوں کی طرح ہمارا شہر بھی اپنی زندگی کے ایک دوسرے مرحلے میں داخل ہورہا ہے اور ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہماری نسل نے تو ایک دن رزق خاک ہوجانا ہے ہمارے بعد کی نسل کے دلوں کی دھڑکن یہی نیا لاہور ہوگا۔ تو کیوں نہ ہم بھی اس کی پرانی خوبصورتیوں کو دلوں میں آباد رکھتے ہوئے اس کی نئی خوبصورتیوں سے اپنے دلوں کو شاد کریں۔ ہم نے1947ء میں اپنے پرانے شہروں سے ہجرت کی تھی ہم ان شہروں کو نم آلود آنکھوں سے یاد کرتے ہیں لیکن پاکستان کی صورت میں ہمیں جو خوبصورت خطہ زمین ملا ہے۔ وہ ہماری ہجرت کا صلہ ہے تم یہی سمجھو کہ تم پرانے لاہور سے ہجرت کرکے نئے لاہور میں آگئے ہو۔ اپنی نم آلود آنکھیں پونچھو اور خدا سے دعا کرو کہ وہ لاہور اور پاکستان کے تمام شہروں کو آباد و شاد رکھے اور روشنیوں اور رنگوں والے ان شہروں سے دنیا کو امن اور سلامتی کا پیغام ملتا رہے۔
تازہ ترین