• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ ہفتے چند ایسے واقعات رونما ہوئے جن سے وہم و گمان کے بادل چھٹ گئے ہیں اور سینوں کو اُمیدوں کی حرارت بخشنے والا سورج طلوع ہوا ہے۔ ڈی ایٹ سربراہ کانفرنس نے اُمت ِ مسلمہ کو ایک عظیم پیغام دیا اور پاکستان کو اپنا تاریخی موقف واضح کرنے کا نہایت مناسب موقع فراہم کیا ہے۔ بعض ناقدین کا خیال تھا کہ یہ سربراہ کانفرنس عشرہ محرم میں نہیں ہونی چاہیے تھی ، کیونکہ پاکستان کو دارالحکومت میں سلامتی کے غیر معمولی انتظامات کرنا پڑے اور اِسی شام راولپنڈی کے نواحی علاقے میں دہشت گردی کی ایک خوں چکاں واردات ہوئی جس میں دو درجن کے لگ بھگ افراد موت کی آغوش میں چلے گئے اور پچاس سے زائد زخمی ہوئے۔ ظاہر ہے کہ اِن دھماکہ خیز حالات میں ایک بڑے سانحے کے بطن سے نہایت غیر معمولی صورتحال جنم لے سکتی تھی جو پاکستان کے علاوہ اسلامی سربراہان کے لئے سخت پریشانی کا باعث بن جاتی لیکن اِس حوالے سے بنیادی بات یہ تھی کہ مہمان ممالک نے اِن تاریخوں پر کوئی اعتراض نہیں کیا اور ایرانی صدر محمود احمدی نژاد جن کے لیے عشرہٴ محرم بڑی اہمیت کا حامل تھا وہ بصد خوشی اِس تاریخی سربراہ کانفرنس میں شامل ہوئے اور اِس عظیم حقیقت کا پوری دنیا کے سامنے اعلان کر گئے کہ ہمارے آقائے نامدار حضرت محمد سنی تھے نہ شیعہ بلکہ فقط مسلمان تھے اِس لئے ہمیں بھی اپنے آپ کو فقط مسلمان سمجھنا اور تفرقہ بازی سے بالاتر ہو جانا چاہیے۔
عشرہ محرم کی آخری تاریخوں میں اُن کی طرف سے یہ ایمان افروز بیان بادِ صبح گاہی کی ترنم ریزیوں میں ڈھل گیا اور مسلمانوں کے سفرِ زندگی کو ایک روح پرور جہت دے گیا۔ ایرانی صدر نے ایک اور نشاط آفریں پیغام یہ دیا کہ ایران افغانستان اور پاکستان کے علمائے کرام سر جوڑ کر بیٹھیں اور اسلام کے بنیادی عقائد اور مشترک دینی تصورات کی روشنی میں ایک ضابطہٴ اخلاق ترتیب دیں اور تینوں حکومتیں اُنہیں عملی جامہ پہنانے کی پابند ہوں۔ اس تجویز میں اُمیدوں کا ایک دجلہ رواں دواں ہے جو بے جا تعصبات اور خونخوار اختلافات کو بہا کر لے جائے گا۔ علمائے حق میں بڑی وسعت قلبی اور روح عصر کی گہرائی پائی جاتی ہے اور وہ ایسا لائحہ عمل یقینی طور پر وضع کر سکتے ہیں جو باہمی احترام کے اصولوں پر مبنی ہو اور جس میں دلآزاری کی ذرا بھی گنجائش نہ پائی جاتی ہو۔ پاکستان میں سنی اور شیعہ علمائے کرام اِس ریاست کی بنیادوں کی تشکیل میں ایک دوسرے سے تعاون کرتے اور عملی جدوجہد میں شریک رہے ہیں۔اُنہوں نے 1950ء کے ابتدائی برسوں میں اتفاقِ رائے سے اکیس دستوری نکات طے کر لئے تھے۔ اِن کوششوں میں افغانی اور ایرانی علمائے باتدبیر کی شمولیت سے فکری سوچ کا دائرہ وسیع ہوتا جائے گا اور فرقہ وارانہ خوں ریزی میں بہت کمی آئے گی۔ ایرانی صدر کی پیشکش کا یہ سحر انگیز اثر ہوا ہے کہ محمد اسحق جو لشکرِ جھنگوی کے سرپرست قرار دیے جاتے ہیں اُنہوں نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا ہے کہ اگر شیعہ حضرات اپنی مجلسوں میں تبرے سے مکمل اجتناب کریں تو میں عزاداری کے جلوسوں کی حفاظت کی ذمے داری لینے کو تیار ہوں۔ ڈی ایٹ کانفرنس کا یہ سب سے بڑا ثمر سامنے آیا ہے جو مسلم اُمہ کو ایک نیا ویژن اور اتحاد و یگانگت کی ایک نئی طاقت عطا کرے گا۔ باہمی تجارت اور اقتصادی تعاون کی برکات اس اہم سنگِ میل کے علاوہ ہوں گی۔
بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد نے اِس تاریخی سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لیے یہ شرط عائد کی کہ پاکستان 1971ء کے واقعات کی تحریری معافی مانگے۔ ہماری قیادت نے بجا طور پر اِس ناجائز مطالبے کو درخوراعتنا نہیں سمجھا چنانچہ بنگلہ دیش نے شرکت نہیں کی۔ انفرادی سطح پر جناب محمد نواز شریف اور اُن کے بعد جنرل پرویز مشرف ڈھاکہ گئے تو اُنہوں نے معذرت بھی کی تھی اور قبروں پر پھول بھی چڑھائے تھے۔ مقصد یہی تھا کہ ماضی کی تلخیاں بھلا کر تعلقات کا ایک نیا باب شروع کیا جائے  مگر عوامی لیگ کی قیادت ٹس سے مس نہ ہوئی اور حسینہ واجد نے ان صاحبانِ عزیمت پر بغاوت کے مقدمے چلانے اور ہولناک مظالم ڈھانے کا اذیت ناک سلسلہ شروع کررکھا ہے جنہوں نے وطن کے دفاع میں پاک فوج کا ساتھ دیا اور بھارت میں تربیت یافتہ مکتی باہنی کا مقابلہ کیا تھا۔ حسینہ واجد کی یہ سنگدلانہ روش بین الاقوامی قانون اور بنیادی انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی پر مبنی ہے جس کے خلاف مختلف ملکوں اور تنظیموں کی طرف سے آواز اُٹھائی جا رہی ہے۔ اِس وقت پاکستان کو تحریری معافی مانگنے پر اِس لیے مجبور کیا جا رہا ہے کہ اثاثہ جات کی تقسیم کا قضیہ بین الاقوامی سطح پر اُٹھایا جا سکے۔ ہمارے قومی رہنماوٴں اور دانش وروں کو اِس دامِ فریب میں ہر گز نہیں آنا چاہیے۔
سانحہ مشرقی پاکستان ہمارے لیے یقینا ایک انتہائی تکلیف دہ المیہ ہے  مگر اِس کے ذمے دار جنرل یحییٰ خاں کے علاوہ مشرقی پاکستان کے وہ عناصر بھی تھے جو بھارت کی درپردہ اور اعلانیہ مالی اور فوجی امداد سے پاکستان کی ریاست کو دولخت کر دینے کی سازش میں پیش پیش تھے۔ 1970ء کے انتخابات کے بعد لیفٹیننٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب خاں جو اُس وقت مشرقی پاکستان میں مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے اُنہوں نے عوامی لیگ کے خلاف آپریشن کرنے کے بجائے اپنے منصب سے استعفیٰ دے کر ایک عظیم روایت قائم کی تھی۔ صوبہ سرحد اور بلوچستان کے منتخب رہنما شیخ مجیب الرحمن کو اقتدار منتقل کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ یہی آواز پنجاب اور سندھ کے جہاں دیدہ لیڈر اُٹھا رہے تھے۔ ائیر مارشل اصغر خاں نے یہ مطالبہ مشرقی پاکستان میں جا کر پریس کانفرنس کے ذریعے کیا تھا مگر مارچ 1971ء کے ابتدائی دنوں میں بنگالی فوجیوں نے بغاوت کر دی اور مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے فوجیوں اور اُن کے اہل و عیال کا بڑی بے دردی سے قتلِ عام شروع کر دیا۔ 1971ء کا پورا سال مکتی باہنی کی طرف سے ریشہ دوانیوں اور خونریزی میں گزرا اور دسمبر کے وسط میں بھارتی فوجیں ڈھاکہ میں داخل ہو گئیں تھیں۔ اِس تاریخی پس منظر میں پاکستان کو اپنی قانونی پوزیشن پر کامل اعتماد اور تاریخی شعور کے ساتھ قائم رہنا اور دنیا کو یہ باور کرانا چاہیے کہ اِس نے ہر مرحلے میں قانون کے بین الاقوامی تقاضے ملحوظ رکھے اور بحران کا سیاسی حل تلاش کرنے کے لیے ہر معقول راستہ اختیار کیا مگر بھارت کی ننگی جارحیت نے تصفیے کا ہر امکان ختم کر ڈالا تھا۔
اِسی ہفتے ایک اور اہم واقعہ ظہور پذیر ہوا ہے جو ہماری فوج کے نظام عدل و انصاف اور احتساب کا انتہائی قابلِ اعتماد نقشہ پیش کرتا ہے۔ پچھلے دنوں ایک فوجی محمد حسین کو میانوالی جیل میں پھانسی دی گئی جسے چار سال پہلے اپنے سینئر صوبیدار کو قتل کرنے پر فوجی عدالت نے سزائے موت دی تھی۔ فوج کا ایک میجر جس نے 1992ء میں فوجی آپریشن کے دوران سندھ کے علاقے ٹنڈو بہاول میں غلط طور پر اسلحہ استعمال کیا تھا اُس کا کورٹ مارشل ہوا اور وہ سولی پر چڑھا دیا گیا۔ اِس دوران مزید دو فوجی بھی اِس الزام سے دوچار ہوئے۔ اِن واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ فوج کسی بھی مجرم کو معاف نہیں کرتی اور معاملے کی تہہ تک پہنچتی ہے اور یہی نظام اِس کے داخلی استحکام کا ضامن ہے۔ اِس کے برعکس ایک اندازے کے مطابق سات سے آٹھ ہزار قیدی سالہا سال سے جیلوں میں بند ہیں جن پر یا تو قتل کے مقدمات چل رہے ہیں یا اُن کو موت کی سزاسنائی جا چکی ہے مگر اُن پر عمل درآمد رکا ہوا ہے جس کے باعث قانون کی ہیبت میں روز بروز کمی آ رہی ہے۔ عبرت ناک سزاوٴں کے بغیر دہشت گردوں کے حوصلے ٹوٹنے کے بجائے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور امن کا قحط پڑتا جا رہا ہے۔
تازہ ترین