• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ستم ظریفی، ترقیاتی نہیں ہوتی

پی ٹی آئی کی حکومت نے مسلم لیگ (ن) کے پیش کردہ بجٹ پر کچھ اس طرح نظرثانی کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ بجلی مہنگی، نئے ٹیکسوں کی تیاری، 400ارب کے اضافی ٹیکس، انکم ٹیکس استثنیٰ 8لاکھ روپے، امپورٹ ڈیوٹی میں ایک فیصد اضافہ، ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی۔ ایمرجنسی وارڈ میں پہلا کام مریض کو زندہ رہنے کے قابل بنایا جاتا ہے بعد میں تفصیلی علاج تسلی سے کیا جاتا ہے اور مریض کو جنرل وارڈ منتقل کیا جاتا ہے۔ شاید مریض کو اس قابل ہی نہیں رہنے دیا جائے گا کہ وہ 3ماہ بعد حکومت پر تنقید کر سکے۔ بجلی کا بل باقاعدگی سے بندئہ مفلس ادا کرتا ہے، ٹیکس بھی وہ اپنا پیٹ کاٹ کر ادا کرتا ہے، یہ 400ارب ٹیکس بھی یہاں کے 95فیصد غریب عوام ہی سے کشید کیا جائے گا اور پچھلی حکومت نے سوچ سمجھ کر یہ احساس کیا تھا کہ تنخواہ دار طبقہ چونکہ اپنی تنخواہ کا غلام ہوتا ہے وہ اسے ازخود بڑھا نہیں سکتا اس لئے آج کے مہنگے ترین دور میں 12لاکھ سالانہ کمانے والے تنخواہ دار ہی ہوتے ہیں، یہ 12لاکھ ماہانہ کمانے والے نہیں ہوتے لہٰذا اس تنخواہ دار طبقے کو 12لاکھ سالانہ تک انکم ٹیکس سے چھوٹ دے دی جائے تو اس کے حالات کچھ بہتر ہوں گے مگر عرصے کے آغاز ہی میں یہ ثابت کر دیا کہ یہ ملک غریب اور متوسط طبقے کی تنزلی ہی سے ترقی کرے گا۔ تنخواہ دار طبقے کے پاس کوئی جائے فرار نہیں ہوتی اس لئے سب سے پہلے اس سے اس کو ملی ہوئی ٹیکس چھوٹ چھین لو۔ ہم اب بھی نظرثانی کرنے والوں سے گزارش کریں گے کہ بجلی کے نرخوں میں اضافے اور 12لاکھ سالانہ تک انکم ٹیکس کی چھوٹ نہ دینے کا فیصلہ واپس لے لیا جائے، نظرثانی کا مطلب ہی بہتری لانا ہوتا ہے، اس ستم ظریفی سے ترقی نہیں ہو گی۔ 12لاکھ سالانہ کمانے والا ملازم بمشکل گزر بسر کرتا ہے تو 8لاکھ سالانہ یعنی 66666/-روپے ماہانہ تنخواہ دار کا کیا عالم ہو گا۔ پچھلی حکومت نے جو 12لاکھ سالانہ تک انکم ٹیکس چھوٹ دی تھی، اسے برقرار رکھا جائے اور بجلی مزید مہنگی نہ کی جائے۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

سیاسیات اور ذاتیات میں فرق روا رکھیں

ہمارے ہاں ایک ترکیب ’’روایتی حریف‘‘ بہت کثرت سے استعمال کی جاتی ہے، اس کا سادہ سا مطلب ہے روایتی مستقل دشمن، ہم اس اصطلاح کو کھیلوں میں سرفہرست رکھتے ہیں اور اپنے ہمسائے کو بار بار یہ یقین دلاتے ہیں کہ وہ ہمارا ازلی دشمن ہے، کیا یہ تاثر دینے کے بعد کوئی خیر کی خبر، کوئی کامیاب مذاکرات، کوئی اچھے تعلقات کی امید کی جا سکتی ہے۔ یہ ’’خوشنما پیغام‘‘ ہم وہاں کی قیادت یا سیاستدانوں کو نہیں وہاں کے عوام کو دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بھارت میں پاکستان مخالف نعرے پر وہاں ہار جیت کا فیصلہ ہوتا ہے۔ ہماری گزارش بھی ہے تجویز بھی کہ بھارت کو روایتی حریف کہنا چھوڑ دیں اور یہ سوچ بھی ترک کر دیں کہ ہم کسی بھی ملک کے ساتھ منافرت یا جنگ کے ذریعے اپنے جائز مقصد کو پا سکتے ہیں۔ کشمیر پر بھی کئی مرتبہ برف پگھلی مگر پھر وہ ایک ہزار سال تک جنگ کرنے، یا بار بار یہ کہنے کہ ہم ایک ایٹمی ملک ہیں ،نے برف اور زیادہ جما دی۔ آج کی دنیا میں کوئی بھی ملک جنگ سے مسائل حل نہیں کر سکتا اور یہی تاریخ عالم کی آزمودہ حقیقت بھی ہے۔ ہمسائے کے علاوہ ہم ایک قوم کی حیثیت سے بھی آپس میں ایک نہیں، جب سے سیاست نے دولت کمانے کے پیشے کی شکل اختیار کی ہے ہماری سیاست نہ صرف ذاتیاتی بلکہ اخلاقیاتی حوالے سے بہت گر چکی ہے۔ اگر سیاست کو مقدس فریضہ اور خدمت خلق سمجھا جاتا تو ذاتی نفرتیں، حقارتیں اور اخلاق سے گری ہوئی باتیں نہ ہوتیں، چونکہ ذاتی مفاد کا سوال ہوتا ہے اس لئے دست و گریبان رہتے ہیں اور گالم گلوچ پر اتر آتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم سیاست کے نام پر کچھ اور کر رہے ہیں۔ جب ہمارا مرنا جینا ایک ہے تو ہم ایک دوسرے کے غم اور خوشی میں سیاست کی خاطر کیوں شریک نہیں ہوتے اسی لئے کہ سیاست کو ایک جمہوری قدر نہیں سمجھتے بلکہ جمہوریت کو بلیک میل کرتے ہیں۔ حافظ شیرازی نے کیا خوب کہا ہے؎

آسائش دوگیتی تفسیر ایں دو حرف است

با دوستاں مروت با دشمناں مدارا

(دو جہاں کی آسائش اس میں ہے کہ دوستوں سے محبت اور دشمنوں سے حسن سلوک سے پیش آئیں)

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

یکساں تعلیم کا خواب کیا ہوا؟

کچھ کام ایسے ہیں جو بیک جنبش قلم بھی ہو سکتے ہیں ان کے لئے کسی مخصوص مدت کی ضرورت نہیں ہوتی، ہمارے ملک میں تعلیمی اداروں میں جتنا فرق ہے اتنا ہی قوم میں فرق پڑتا جا رہا ہے اور ایک طبقاتی کشمکش جنم لیتی، اشرافیہ اپنا حق سمجھتی ہے کہ اس کے اور عوام کے بچوں میں نمایاں فرق رہے بلکہ کسی غریب کے بچے کو امیر کے بچے سے کھیلنے کی بھی جرأت نہیں۔ ایک کالج تو ایسا بھی ہے کہ جس میں صرف ایلیٹ کے بچے ہی داخل ہو سکتے ہیں، اگر کوئی بچہ معیار پر پورا نہ اترے تو اس کے پرنسپل پر اتنا دبائو پڑ جاتا ہے کہ ناچار استعفیٰ دے دیتا ہے اور ہماری ایلیٹ بھی گزشتہ چند دہائیوں کی پیداوار ہے، جو عام اسکولوں میں نہیں پڑھا سکتے تھے آج نہ جانے کیسے ان کے پاس اتنی دولت آ گئی ہے کہ وہ اعلیٰ ترین مہنگے اسکولوں میں بچے داخل کراتے ہیں اور غریب کے بچے کا اسکول جتنا مختلف ہے اتنا ہی نصاب بھی مختلف ہے۔ امیر کے لئے الگ غریب کے لئے الگ اسکول اور نصاب سے یہاں کے کروڑوں متوسط اور خط غربت کے نیچے والے گھرانوں کے بچوں میں احساس کمتری بڑھتا جا رہا ہے، برابری کی سطح پر تعلیم آج کی بات نہیں 70سالہ قصہ ہے، اب تک کسی بھی حکومت نے یکساں نظام تعلیم رائج نہیں کیا شاید اس لئے کہ ایلیٹ کو حاکم اور غریب کے بال کو محکوم بنانا مقصود ہے۔ یکساں نظام تعلیم تحریک ِ انصاف کا منشور ہے مگر تاحال اس سلسلے میں کوئی لائحہ عمل تیار کرنا کجا اس کی بات بھی سنائی نہیں دیتی، طبقاتی کشمکش غیر یکساں تعلیم کی پیداوار ہے یہی فرق جرم اور ڈیپریشن کو جنم دیتا ہے۔

٭ ٭ ٭ ٭ ٭

دانت کے بدلے دانت

٭ ہلیری کلنٹن:پاکستان کا کورا جواب، افغانستان میں امریکی فوج کے لئے خطرے کی علامت۔

آخر ہلیری پاک امریکہ تعلقات پر کیوں اپنی سیاست چمکانا چاہتی ہیں۔

٭ اسد عمر نے اپنے بھائی سابق گورنر سندھ محمد زبیر کو پنشن دینے کی سمری منظور کرنے سے انکار کر دیا۔

ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں اگر یہ ان کا حق بنتا ہے تو منظوری دینے میں کیا حرج ہے۔

٭ امریکی سفارتکار ایلس ویلز:امریکہ، پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کی حمایت کرے گا۔

امریکہ اگر ایسا کرے گا تو یہ نہایت مستحسن اقدام ہو گا، کیا یہ اچھا نہیں کہ برصغیر میں امریکہ کے دوگہرے دوست ہوں۔

٭ تیزاب گردی، بالخصوص خواتین کے حوالے سے بہت سنگین صورت اختیار کرتی جا رہی ہے، شاید اس لئے کہ تیزاب چھڑکنے والے پر تیزاب چھڑکنے کی سزا موجود نہیں۔ نئی ’’ریاست ِ مدینہ‘‘ میں کم از کم قانونِ قصاص پر تو عملدرآمد شروع کرا دیا جائے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین