• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شاہدرہ میں کھانسی کے شربت سے مزید 2 ہلاکتیں 8فیکٹریاں سیل کر دی گئیں۔
ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شربت زائد المیعاد نہیں تھا، ہلاک شدگان نشئی تھے زیادہ مقدار پی لی، ہلاک شدگان کی تعداد 19 ہو گئی
علاج، علاج نہ رہا
زندگی ہمیں ترا اعتبار نہ رہا
یہ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ یہ کھانسی کا زہریلا شربت، یہ شربت پینے والے افراد اور یہ انتخابات کی آمد آمد الغرض کسی کا اعتبار نہیں رہا، کیا بیک وقت 19 افراد نشئی تھے اور نشے کے لئے کھانسی کا شربت پی گئے، کیا لواحقین یہ نہیں بتائیں گے کہ کھانسی سے متاثرہ افراد نے یکبارگی بوتل خالی کر دی یا بوتل میں شربت موجود ہے اور مریض ایک دو چمچ پی کر ہی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ یہ بھی قابل غور بات ہے کہ آٹھ کی آٹھ فیکٹریاں زہریلا نشیلا شراب بناتی ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے حکومت اور ادویہ ساز فیکٹریاں تو اپنے پروں پر پانی نہیں پڑنے دیں گی، مناسب تھا کہ لاہور ہائیکورٹ از خود نوٹس لے کر اس المیے کی تحقیقات کرائے، کیونکہ یہ تحقیقات اور یہ معاملہ تمام تر مدافعتی وضاحتوں کے باوجود مشکوک ہے، ایک ریٹائرڈ میجر سے اس کی تحقیقات اور میڈیکل رپورٹ کافی نہیں، قوم ایسی تحقیقات اور میڈیکل رپورٹوں کی صحت سے بھی خوب واقف ہے، اور اپنی صحت کو یوں خطرے میں دیکھ کر پریشان بھی ہے کیونکہ یہاں تو پریشانیوں کی ارزانی ہے اور بقول شاہ حسین غریب لوگوں کی خوراک کا یہ حال ہے کہ
مائے نی میں کنوں آکھاں درد وچھوڑے دا حال نی
یہ سکون آور ادویات بھی بغیر نسخے کے کسی کو نہیں دینی چاہئیں، حکومت اس سلسلے میں ایک موثر ضابطے کا اعلان کرے اور اس سانحے کے ذمہ داروں کو معاف نہ کرے۔

جنوبی پنجاب کے پرانے سیاسی خاندان نئے انتخابی اتحاد کے لئے جوڑ توڑ میں مصروف، مزاری، لغاری، دریشک، گورچانی، قیصرانی بزدار اور ہراج خاندانوں کے افراد میں مذاکرات آخری مراحل میں ہیں۔
ہمارے ہاں سیاسی انتخابی موسم کا طرئہ امتیاز ہے، کہ اپنا مستقبل سنوارنے اورقوم کا مستقبل لوٹنے والے گلیوں میں رلتے پھرتے ووٹوں کے بنجارے پھرنے لگے ہیں۔ مشتری ہوشیار باش! یہ طبقہ جاگیر داران و سرداران فقیرانہ صدا دیتے ہیں
بدل کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
جمہوری معاشروں میں جس طرح شر و خیر دو ہی ہوتے ہیں، سیاسی جماعتیں بھی دو ہی ہوا کرتی ہیں، یہ چوں چوں کا مربہ تو یوں لگتا ہے کہ یہ ملک چوزوں کی بستی ہے جن پر چیلیں منڈلا رہی ہیں۔ دنیا میں کہیں سرداری، جاگیرداری وڈیرہ شاہی نہیں ہمارے ہمسایہ ملک نے بھی ان لعنتوں سے خلاصی پالی ہے، لیکن پاکستان میں یہ مخصوص سیاسی قوتیں جو کبھی پس منظر اور کبھی پیش منظر ہوتی ہیں، استعماری قوتوں سے کم ضرر رساں نہیں، قومی و ملکی مفاد پر گروہوں، برادریوں، عقیدوں اور مختلف نظریوں کو ترجیح دینے کا نتیجہ ہے کہ جمہوریت آ کر بھی نہیں آ پاتی، جنوبی پنجاب ہو یا پورا ملک اب 18 کروڑ عوام کو انتہائی غیر جانبداری سے قومی مفاد کو پیش نظر رکھ کر اپنی رائے دینا ہو گی ورنہ اسی طرح ہے جمالو اور دما دم مست قلندر ہوتا رہے گا، اور پھر ایک انتہائی منزل آئے گی جب لوگوں کو اپنا فیصلہ ہر دباؤ سے آزاد ہو کر خود بچاؤ ملک بچاؤ کے لئے کرنا ہو گا۔ یہ نہ ہو کہ
شاد باش اے دل کہ فردا برسر بازار عشق
وعدہِ قتل است گرچہ وعدہ دیدار نیست
(اے دل خوش ہو کہ کل برسر بازار عشق یار نے قتل کا وعدہ کیا ہے۔ دیدار کا وعدہ نہیں کیا۔

فوج اور مافیا کی لڑائی میں میکسیکو کی 22 سالہ ملکہ حسن ماریہ ہلاک ہو گئی۔
لوگ اکثر دنیا سے بڑی شخصیتوں کے اٹھ جانے کا واویلا تو کرتے ہیں، لیکن حسن کے اٹھ جانے پر بیٹھے رہتے ہیں، صف عاشقاں کو خبر کرو کہ وہ کیوں سجدے میں چلے گئے، جب وقت قیام آیا؟ پندار حسن یوں پامال ہو اور غیرت عشق ایکشن میں نہ آئے، تو پھر کہنا پڑے گا کہ عشق بھی اٹھ گیا۔ یہ اعجاز ِحسن ہے کہ پروانے بزبان حال کہتے ہیں
ہمیں تو لوٹ لیا دل کے حسن والوں نے
گورے گورے گالوں نے کالے کالے بالوں نے
ماریہ سراپا حسنِ عالم تھی، اور اس کے خدوخال میکسیکو کی فضاؤں کو دلکش بنا دیتے تھے، فوج اور مافیا کے سینے میں کیا مرمر کی سل پڑی تھی کہ ایک گلِ نو خواستہ کو یوں بیدردی سے اپنی لڑائی کی بھینٹ چڑھا دیا، کیا فوج اور مافیا والوں کے سینوں میں دل نہیں دھڑکتے، یا ان کی آنکھیں حسن کو خراج پیش کرنے سے معذور ہوتی ہیں، بوالہوس کبھی حسن کی قدر و قیمت نہیں جان سکتا اگرچہ وہ اس کا دعویدار ہوتا ہے، مغرب اگرچہ بہت زیادہ مہذب ہو چکا ہے تا ہم ہنوز وہ بارگاہ حسن میں بیٹھنے کے لائق نہیں، ماریہ کی غلامی سرمگیں بڑی بڑی آنکھیں نرگس شہلاء تھیں، دھیرے دھیرے کھلتی اور بند ہوتی تھیں۔
یہ اٹھیں صبح چلے یہ جھکیں شام ڈھلے
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے
کیوں پیمانوں کو جن پر میکدے کا گمان ہوتا تھا توڑے گئے اور زیر خاک دبا دے گئے، خوبصورت انسانوں سے سوگوار ماحول خوشگوار ہو جاتا ہے۔
لوگ کیوں اپنی بستیاں اجڑنے سے نہیں بچاتے

وزیر اعلیٰ بلوچستان فرماتے ہیں: ڈاکٹر ہڑتال ختم کر دیں ورنہ ان کی اپنی طبیعت خراب ہو جائے گی اور ہمیں علاج کرنا پڑے گا۔
اگر مسیحا بھی ہڑتال پر چلے جائیں تو وہ دوسروں کو کیا اچھا کریں گے، خود ان کی مسیحائی جاتی رہے گی، اگر کسی کے دیوار اونچی کرنے سے دوسرے کی روشنی دھوپ ہوا رکتی ہو تو اسے اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے ایسا نہیں کرنا چاہئے، اگر یہ ہڑتال مریضوں کے مرنے تڑپنے کا سبب نہ بنتی تو کوئی بات نہ تھی چاہے ڈاکٹر حضرات عمر بھر یہ شوق پورا کرتے رہتے، کیوں کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان نے سدا تو وزیراعلیٰ نہیں رہنا، اگر طبیبِ قوم ہڑتال کرتا ہے تو ضرور کوئی مشکل ہے، جو اسے درپیش ہے، اگر ہم ڈاکٹروں سے یہ کہتے ہیں
کہ تم کیسے مسیحا ہو دوا کیوں نہیں دیتے
تو ہماری حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ ڈاکٹروں کے مرض کا علاج کرے، آخر کچھ تو ہے جو وہ دیوانی اونٹنی کی مانند سڑکوں سڑکوں دیوانہ وار پھرتے ہیں،
دوشیزائیں بھی ایک دوسری سے پوچھ لیتی ہیں
”سڑکے سڑ کے جاندی ایں مٹیارے نی!“
اور دوسری جواب دیتی ہے :
”کنڈا چبھا مرے پیر بانکیئے نارے نی!“
ڈاکٹروں کی خلِش دور کرنا ضروری ہے، ورنہ عطائیت کا سورج نصف الہنسار پر آ جائے گا۔ پھر وہی ہو گا جو کھانسی کے شربت سے ہوا، ڈاکٹروں کو بھی کچھ اپنی اداؤں پر زور دینے کے بجائے غور کرنا چاہئے، کیونکہ
کسی کا دم نکلتا ہے
تمہیں ہڑتال کی سوجھی
تازہ ترین