• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اردشیر کاؤس جی کا انتقال ہوا تو خبروں کے چینلز پر پٹیاں چلیں۔ حسب روایت صدر، وزیراعظم اور دوسرے رہنماؤں کی جانب سے افسوس کا اظہار کیا گیا۔ اگلے دن یعنی اتوار کو اخبارات میں ان کا ذکر تھا۔ کالم نگار، مخیر شخصیت، نڈر اور بے باک، قائداعظم کے لبرل وژن کے پُرجوش حامی، عوام کے حقوق کے علمبردار، کراچی کے شہری مسائل اور تہذیبی ماحول سے منسلک۔ غرض ان کی طویل زندگی بے فیض نہیں گزری۔ 86برس ان کی عمر تھی۔ ان کے نام کی اجنبیت کو شاید کچھ لوگوں نے محسوس کیا ہو۔ ان کا تعلق ایک سرکردہ پارسی خاندان سے تھا جس کی جڑیں اس زمین میں پوشیدہ ہیں۔ یہ ایک قومی المیہ ہے کہ اقلیتوں کے بارے میں ہماری سوچ اور رویّے میں چند پیچیدگیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ جہاں نام نامانوس نہ ہو وہاں بھی ایک مجرمانہ جھجک آڑے آ جاتی ہے۔ مثلاً گزشتہ ہفتے پروفیسر عبدالسلام کی سولہویں برسی میڈیا میں تقریباً خاموشی سے گزر گئی۔ وہ پاکستان کی واحد شخصیت ہیں جنہیں کوئی نوبل انعام ملا اور اس لحاظ سے ہمارے لئے فخر و مسرت کا سبب ہیں۔ ان کے مذہبی عقیدے کے بارے میں کوئی کچھ بھی کہے، کیا ان کے پاکستانی ہونے پر کسی کو شبہ ہے؟ اسی طرح اردشیر کاؤس جی ایک ایسے پاکستانی تھے جن کی ولادت پاکستان بننے سے دو دہائی پہلے ہمارے اپنے شہر کراچی میں ہوئی اور ایک ایسے زمانے میں بھی کہ جب پارسیوں کی آبادی میں مسلسل کمی ہوتی رہی وہ نہ صرف کراچی میں رہے بلکہ عوامی بہبود اور سماجی انصاف کے حصول کی جنگ میں شامل ہو کر انہوں نے اپنے محب وطن ہونے کا ثبوت دیا۔
میں یہاں اردشیر کی زندگی اور ان کے کام کے بارے میں کسی تفصیل میں جانا نہیں چاہتا۔ میرے لئے ان کی ایک اہمیت یہ ہے کہ وہ کراچی کے جائز وارث تھے۔ یہ ایک ایسا شہر ہے جس کی یتیمی نے کئی نفسیاتی مسائل کو ابھارا ہے۔ جدید کراچی کی تعمیر میں مخیر پارسی خاندانوں اور افراد نے جو کردار ادا کیا وہ کالموں کا نہیں بلکہ کتابوں کا طلبگار ہے۔ ایک نام جمشید سروانجی کا، جیسے کوئی چمکتا ہوا ستارا ہے۔ وہ 1933ء میں کراچی کے پہلے منتخب میئر بنے اور انہوں نے اس شہر کو پورے برصغیر میں سب سے صاف ستھرے شہر کی حیثیت سے منوایا۔ تعلیمی ادارے، شفا خانے، پارک اور دوسری تفریح گاہیں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ پارسیوں نے اس شہر کو کیسے اپنایا اور سنوارا اور اب یہ شہر کس کی میراث ہے؟ ظاہر ہے کہ ہم سب کی، جو اسے اپنا گھر سمجھتے ہیں۔ آگے تو جیسا کہ ایوب خان سے منسوب ہے، سمندر ہے۔ پھر بھی کراچی کا کراچی میں رہنے والوں سے جو رشتہ ہے اسے سمجھنا اور اس تناظر میں اس شہر کی ملکیت کا فیصلہ کرنا آسان نہیں ہے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ یہ شہر اردشیر کا تھا۔ میں ذاتی طور پر محسوس کرتا ہوں کہ وہ یہ شہر میرے اور مجھ جیسے لوگوں کے حوالے کر گئے ہیں۔ مجھ جیسے لوگوں سے میری مراد یہ نہیں کہ کوئی مخصوص لسانی، تہذیبی، مذہبی یا سیاسی گروہ یا آبادی۔ مشکل یہ ہے کہ کوئی بھی شہر کس کا ہوتا ہے، اس کے مانے ہوئے اصولوں کا اطلاق یہاں نہیں ہوتا۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ میں ایسی زمین پر پاؤں رکھ رہا ہوں جو بارودی سرنگوں سے اٹی ہوئی ہے۔ سنبھل، سنبھل کر چلنا ہو گا اور یہ کام قسطوں ہی میں ممکن ہے۔ یہ بھی میں آپ کو بتا دوں کہ میں خود کو کراچی کا نوحہ گر تصور کرتا ہوں۔ میرا بچپن، میری جوانی (اور کتنے سال ہو گئے اسے گزرے ہوئے) اسی شہر میں گزری ہے۔ کلیجہ منہ کو آتا ہے جب وہ دن یاد آتے ہیں، جب اس شہر کی آبادی تو بہت کم تھی لیکن سینما سو سے زیادہ تھے۔ صدر کا علاقہ ایک زندہ شہر کے دل کی مانند دھڑکتا تھا۔ دوستوں سے ملنے کی جگہ کبھی کوئی کتب خانہ یا کافی ہاؤس ہوتی تھی اور شام کو سڑکوں پر پیدل چل کر ہم نئی فلموں اور نئے ناولوں پر بحث کرتے تھے۔ گویا میں نے کراچی کو پھلتے پھولتے بھی دیکھا ہے اور اسے تاراج ہوتے ہوئے بھی اور اس سارے عرصے میں اس پر لکھنے اور اسے سمجھنے کی کوشش جاری رہی ہے۔
کراچی کی کہانی کا آغاز پاکستان بننے سے پہلے ہوا۔ پاکستان بنا تو ایک بھونچال آ گیا۔ کسی بھی سونامی سے زیادہ معنی خیز، تاریخ کے جبر نے ہمیں ایسے حوادث سے دوچار کیا کہ کچھ ایسی حقیقتیں ظہور میں آئیں جن کی پیش گوئی تحریک آزادی کے زمانے میں نہیں کی گئی تھی۔ نچلی سطح پر جو وحشتیں پل رہی تھیں مسلم لیگ اور کانگریس کے رہنماؤں کو ان کا ادراک نہیں تھا۔ فسادات کی دیوانگی نے پوری دنیا کو دہلا دیا پھر مہاجرین کے دوطرفہ سیلاب سے، جو اپنی جگہ تاریخ کا ایک بڑا واقعہ تھا، نوزائیدہ پاکستان کی مشکلات اور ذمہ داریوں میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ آبادی کے اتنے ہمہ گیر تبادلے کا کوئی منصوبہ کبھی نہیں بنایا گیا تھا۔ آپ کہیں گے کہ ہم بہت دور چلے گئے لیکن میرا خیال ہے کہ کراچی کی جو اچھوتی صورت حال ہے اس کی بنیاد تب ہی پڑی تھی۔ بعد میں جو کچھ ہوتا رہا اس کا تعلق بھی پاکستان کے سیاسی اور تاریخی ارتقاء سے ہے۔ ہمارا راستہ بدل جائے گا، اگر ہم اس قتل و غارت گری کا جائزہ لیں جس نے پنجاب کی تقسیم کے ساتھ جنوبی ایشیاء کے دو ملکوں کے تعلقات میں زہر گھول دیا۔
کراچی میں گزشتہ 35, 30 سالوں میں جو تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ان کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہ بھی ایک حیرت انگیز حقیقت ہے کہ کراچی اب دنیا میں پشتون آبادی کا سب سے بڑا شہر ہے۔ کراچی میں رہنے والے پشتونوں کی تعداد پشاور کی آبادی سے زیادہ ہے اور کابل کی آبادی سے بھی۔ اس سارے آبادیاتی اتار چڑھاؤ میں کراچی کی اپنی مقامی اور قدیم آبادی کہیں کھو گئی۔ سندھی بولنے والے سندھی ایک اقلیت بن گئے۔ جنوبی ایشیاء کا کوئی دوسرا شہر اس انقلاب سے دوچار نہیں ہوا۔ اس صورت حال کے سیاسی، ثقافتی اور جذباتی مضمرات واضح ہیں۔ اس طرح سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں میں فاصلے بڑھ گئے۔ کراچی مسلسل اور غیر معمولی تبدیلیوں سے مجروح ہوتا رہا۔ یہ دوسری بات ہے کہ کراچی ایک صنعتی اور کاسموپولیٹن شہر کی صورت میں ملک کا سب سے بڑا مقناطیس بھی رہا۔ خواب دیکھنے والے اور مہم جو حضرات کھنچ کھنچ کے یہاں آتے رہے۔ بدامنی، ٹارگٹ کلنگ اور افراتفری کے باوجود کراچی میں زندہ رہنے کی سکت ابھی باقی ہے لیکن یہ سوال اب بھی اپنا جواب مانگتا ہے کہ کراچی آخر کس کا ہے اور جو بھی کراچی کو اپنا کہے اسے شہر کو بچانے کیلئے کیا کچھ کرنا چاہئے۔ اردشیر کی خاص توجہ کراچی کے شہریوں کے حقوق پر تھی۔ یہ کہ ان کی جان و مال کا حفاظت ہو، انہیں ایک صحت مند ماحول ملے۔ وہ قبضہ گروپ اور شہری سہولتوں کو پامال کرنے والی غیر قانونی تعمیرات کے خلاف لکھتے بھی رہے اور عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹاتے رہے۔ وہ شہر کے تاریخی، تہذیبی اور تعمیراتی ورثے کی حفاظت کے خواہاں تھے۔ اب یہ دیکھئے کہ کراچی دنیا کا شاید اکیلا اتنا بڑا شہر ہے جہاں پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ کراچی کو نیویارک اور ممبئی کی طرح تخلیقی سرگرمیوں کا مرکز ہونا چاہئے تھا۔ ایسا نہیں ہے۔ لاہور علم و دانش اور فنون کی آبیاری میں کراچی سے آگے ہے۔
چلتے چلتے میں یہ کہوں گا کہ شہر بھی درختوں کی مانند ہوتے ہیں۔ وہ اسی وقت پھلتے پھولتے ہیں جب ان کی جڑیں زمین میں دور تک پھیلی ہوئی ہوں۔ کراچی کے خزاں آلود ہونے کی ایک نشانی یہ ہے کہ وہ اپنے ملک اور اپنے صوبے میں تنہا ہوتا جا رہا ہے۔
تازہ ترین