• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شکر الحمد للہ! پاکستان میں جمہوریت کے 5 سال مکمل ہوا چاہتے ہیں۔ ہمارے روایتی سیاست دانوں کی یہ مشترکہ شکایت ختم ہوئی کہ انہیں اقتدار کی پوری باری نہیں لینے دی جاتی، جس کے نتیجے میں جمہوریت کا پودا تواناں نہیں ہو سکا۔ باری پوری کرتے کرتے انہوں نے جو عوام کے ساتھ کر دیا وہ غریب عوام ہی جانتے ہیں، خود غرضی، سیاستدانوں کی بے حسی، انہیں نہ سمجھنے دی گئی کہ ان کے ساتھ کیا ہو گیا۔ ایک اور مشترکہ شکایت اسٹیٹس کو کے سیاست دانوں کو ہمیشہ یہ رہی کہ میڈیا میں ہمیشہ انہیں ہی کوسا جاتا ہے، ان ہی کی کوتاہیوں پر نظر رکھی جاتی ہے، حالانکہ سیاست تو عبادت ہے، اور وہ بڑی جان مار کر سیاست کا کھیل کھیل رہے ہیں خیر سے ان کی یہ شکایت بھی دور ہوئی کہ طنز و تشنع اور تنقید کے تیروں کا رخ فقط ان ہی کی طرف ہے۔ اب تو وہ بھی مانیں گے، کہ ٹاک شوز میں صحافیوں اور جرنیلوں کے ساتھ بیٹھ کر وہ بھی ان کی ایسی کی تیسی کرتے ہیں اور میڈیا سب کچھ دیتا ہے، بلکہ میڈیا نے تو اپنا احتساب خود بھی شروع کیا ہے۔ صحافیوں پر جو جو الزامات لگے یا لگ رہے ہیں، وہ میڈیا سے ہی عام ہو رہے ہیں۔ بیورو کریسی کا کردار عدالتوں میں آئے روز بے نقاب ہوتا ہے۔ سب سے بڑھ کر جرنیل کسی بھی تنقید سے بالاتر سمجھے جاتے تھے اور انہیں عدالتوں میں طلب کر کے پیشیاں بھگتانا اور ان کے خلاف کسی کارروائی کا حکم دینے کا تو کوئی تصور واقعی نہیں تھا۔ یہ ساری ان ہونہایاں ملک میں ڈوگر عدالتوں کے خاتمے اور آزاد و غیر جانبدار عدلیہ کے کسی حد تک قیام کے بعد ممکن ہوا۔ سیاست دانوں، صحافیوں اور بیورو کریٹس کو مبارک ہو یہ ٹیڑھی کھیر بھی ان کی انگلیاں نکالنے میں کامیاب ہو گئیں۔ اب صورت یہ ہے کہ اس حمام میں سب… وزیراعظم اور ان کے ایک لمبی پگڑی والے وزیر سمیت دو گدی نشیں بھی تو عملاً احتساب کی زد میں آ گئے۔ بلاشبہ منتخب سیاستدانوں اور ان کی جماعتوں اور قائدین کی طاقت اور اس سے پیدا ہونے والے کرشمے اپنی جگہ اب بھی بہت اہم ہیں کہ یہ احتساب کے اس ادھورے (لیکن ساتھ ساتھ کچھ نہ کچھ نتائج دینے والے) احتسابی عمل میں رکاوٹیں ڈالنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ سو، چیف جسٹس افتخار چودھری صاحب نے کرائے کے بجلی گھروں کو کالعدم قرار دیئے جانے کے فیصلہ پر عملدرآمد نہ ہونے کے حوالے مخدوم فیصل صالح حیات کی دائر درخواست نمٹاتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں ”کوئی ملک لوٹ کر چلا جائے اب ممکن نہیں۔“
جناب چیف جسٹس کے یہ ریمارکس قانون کی روشنی میں احتساب کے عزم کے عکاس ہیں اور اس کے لئے عدلیہ سرگرم بھی ہے احتساب سے گھبرانے والے مفاد پرست عدلیہ کی اس سرگرمی کو طنزاً Judicial Activism بھی کہہ رہے ہیں۔ عدلیہ کا عزم، سرگرمی اور فعالیت اپنی جگہ قابل تحسین و اطمینان ہے، لیکن ”عزت مآب“ سیاست دانوں کے بنائے نظام کی طاقت اور ان کے ”کرشموں“ سے کرپشن کا تحفظ اور احتساب کے اثرات سے بچے رہنے کی صلاحیت کا اعتراف بھی کرنا پڑتا ہے۔ جاری جمہوری دور میں قومی خزانے اور عوامی خدمات کے قومی ادارے کو جس بے دردی سے لوٹا گیا ہے، اس کی کوئی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ کونسا ترقیاتی منصوبہ ہے جو وفاقی حکومت کے ہاتھ میں تھا اور اس میں ارباہا کے گھپلے نہیں ہوئے۔ عدلیہ کے سامنے کیا کچھ بے نقاب نہیں ہوا۔ مکمل ثبوت کے ساتھ، لیکن مکمل دیدہ دلیری سے آئین و قانون اور حلف شکنی کرتے ہوئے ”ذلت مآب“ عوام کو مزید ذلتوں کے گڑھوں میں دھکیلنے کے لئے کیا کچھ نہیں ہوا۔ نظام بد کی طاقت سے احتسابی عمل کے دوران ہی ملک کو اندھیروں میں فرق کرنے والے وزیر، وزیراعظم بن گئے۔ حج سکینڈل کے لاڈلے ملزم محفوظ رہے۔ ایفا ڈین کیس کا دوسرا لاڈلہ ملزم پوری شان بان سے منتخب ہوا۔ گویا احتسابی عمل اور اس کے اثرات کو ختم کرنے کی سیاست دانوں کی ”اعلیٰ صلاحیتوں“ کا مظاہرہ ساتھ ساتھ جاری ہے۔ اس سے تو یہ ہی ثابت ہو رہا ہے کہ سیاستدان جو بینکوں کو بغیر ڈاکے ڈال کر لوٹنے اور بچ جانے میں مہارت رکھتے ہیں، انہیں عدلیہ کے عزم کے مطابق اب کچھ بھی لوٹنے کی اجازت نہیں لیکن وہ بغیر اجازت سب کچھ لوٹ لیتے ہیں اور دھڑلے سے ملک میں ہی رہتے ہیں۔ پہلے تو کبھی کبھی ایگزٹ کنٹرول لسٹ کا ذکر آتا رہتا تھا۔ اب جبکہ ملک میں کھربوں کی لوٹ مار اقتدار کی محفوظ باری گزارتے گزارتے ہو چکی، نہ کوئی ایگزٹ لسٹ ہے نہ لٹیروں میں باہر بھاگنے کی کوئی گھبراہٹ۔ احتساب ہو ہو کر ساتھ ساتھ اس کا بے اثر ہوتے جانا کیا ہے؟ اسٹیٹس کو کی طاقت؟ ہوتی تبدیلی کی ناکامی؟ اس پر استاد گرامی ڈاکٹر شفیق جالندھری نے اپنے ایک حالیہ کالم ”ترقی اور خوشحالی کی بنیادیں“ میں یہ نیا نکتہ پیدا کیا ہے کہ ”اسٹیٹس کو“ کوئی حالت نہیں، حالتیں دو ہی ہوتی ہیں، تنزلی یا ترقی، جسے اسٹیٹس کو کہا جا رہا ہے، وہ اصل میں تنزلی ہے۔ کیونکہ جو معاشرے ترقی کر رہے ہیں، وہ اس معاشرے سے مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں، جسے ہم اسٹیٹس کو (جوں کا توں) کا شکار سمجھ رہے ہیں۔ ”اسٹیٹس کو ایک ہی حالت میں رہنے کی حالت ہے۔“ ان کی منطق یہ ہے کہ جب ترقی کرنے والے معاشرے آگے بڑھتے جا رہے ہیں تو دونوں کا گیپ بڑھ رہا ہے، اور ایک ہی حالت میں رہ جانے والا معاشرہ اصل میں تنزلی کی طرف چل پڑا ہے۔ کیونکہ ترقی کرتے ملک جوں کے توں معاشرے کی پسماندگی بڑھاتے جائیں گے ہماری تو یہ صورت ہے کہ ہم اس حالت میں بھی نہیں جس میں دس پندرہ سال پہلے تھے، لوٹ مار، رشوت، بدعنوانی، امن عامہ، مہنگائی، بے روزگاری، گویا قومی زندگی کے سارے منفی پہلو پہلے سے بدتر شکل میں ہیں، ہمارے ہمسائے اور ہم جیسے دوسرے ترقی پذیر ممالک آگے بڑھتے جا رہے ہیں۔ لیکن وہ قابل دید تبدیلیاں جو ہمارے قومی منظر پر رونما ہو رہی ہیں، مثلاً عدلیہ کی سرگرمی، میڈیا کا قومی زندگی میں بڑھتا مثبت کردار، فوج کا سیاست سے دور جانا، ہر بدعنوانی کا بروقت اور مکمل بے نقاب ہو جانا، بڑے بڑے لٹیروں کا عدلیہ میں پہنچنا، جرائم کا ثابت ہونا، کارروائیوں کا حکم ہونا، پھر اس میں انتظامیہ کی رکاوٹیں پڑنا، پھر ”سیاست دانوں کو ذلیل کرنے کا شور مچنا، لیکن پھر سارا احتسابی عملی بے اثر ہو کر انتخاب کے قریب ان کا اسی طاقت اور سج دھج سے منظر پر وارد ہونا۔ یہ جنگ، یہ کشمکش کتنی طویل ہے اور اس کے نتائج کب نکلیں گے؟ ہم اسٹیٹس کو میں بری طرح جکڑے گئے ہیں؟ جسے ہم اسٹیٹس کو سمجھ رہے ہیں، وہ ترقی کے مقابل تنزل ہے یا مایوسی کی کوئی بات نہیں ہم ارتقاء کی جانب گامزن ہیں؟ تبھی تو اقتدار کی باری پوری ہو گئی۔ گدی نشیں وزیراعظم پارٹی اور دیوتا کو ہاں ہاں کرتا اور عدلیہ کو نہ نہ کرتا، پرائم منسٹر ہاؤس سے واپس اپنی خانقاہ کا ہی گدی نشیں رہ گیا۔ خط پھر بھی لکھا گیا۔ جرنیل کٹہرے میں آ گئے، عدلیہ اپنا اعتماد بحال کرنے میں بہت حد تک کامیاب ہو گئی، میڈیا ٹرائل کرنے والے صحافیوں کا ٹرائل بھی میڈیا ہی کر رہا ہے۔ ہاں مشکل ہے تو سیاست دانوں کا تقدس ختم کرنا اور بڑی پارٹیوں میں مخصوص خاندان کی اجارہ داری، اس میں دراڑ کیسے پڑے گی؟ پڑے گی تو ہم یقینا ارتقاء کی جانب تیزی سے گامزن ہو جائیں گے۔ پارٹیوں کے سنجیدہ اور جرأت مند کارکن درباریوں کے جھرمٹ میں سچ کہنے کی ہمت کریں تو یہ کفر بھی ٹوٹ جائے گا، وگرنہ ہم روایتی سیاست کے دائرے سے باہر نہ نکل سکیں گے یہ اسٹیٹس کو ہے تنزلی یا ہوتے ارتقا کا ہو ہو کر ختم ہوتے رہنا؟
تازہ ترین