• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

13ماہ سے لندن میں زیر علاج بیگم کلثوم نواز انتقال کر گئیں، ان کا جسد خاکی وطن کی دھرتی کے سپرد کردیا گیا، انا للہ و انا الیہ راجعون۔

وہ تین مرتبہ ملک کی خاتون اول رہیں، رستم زماں گاما پہلوان کی نواسی، اسلامی اور مشرقی روایات کا ایک متاثر کن نمونہ اور مثال تھیں، یہ سطور بدھ کی صبح مورخہ 12ستمبر کو لکھی جارہی ہیں، ایک کمرے میں بیٹھے کالم نگار کو لیکن پورے ملک کی فضائوں سے سوگوار ہوائوں کی خاموش سی صدائیں سنائی دے رہی ہیں۔

جو آیا، اس نے جانا ہے، یہ خالق کائنات کا فیصلہ ہے، بس ان کے جانے سے ہمارے قومی سیاسی سماج میں عظمت کی امیدوں کے دیئے جل اٹھے، یہ مرحومہ کے نیک طینت ، نیک سرشت اورنیک قلب ہونے کی تصدیق ہے، بھلا کس شکل میں؟ ا س شکل میں کہ جب اعتزاز احسن جیسے قوی دانشور اور تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی فیصل واوڈا ان کی علالت کے دوران میں اپنے ریمارکس پر قومی سطح پر معذرت اور معافی کا اعلان کررہے ہیں، تحریک انصاف پنجاب نے انتقال کی خبر کے ساتھ ہی پنجاب اسمبلی میں تعزیتی قرارداد جمع کرا دی!

غم اور صدمے کے سارے لمحے اپنی جگہ، ملکوں اور قوموں کی تلخ تاریخ میں ایسی عظمتوں کی چنگاریوں کے وجود کا ابھر آنا ان لمحوں کے شدید زخموں پر کہیں نہ کہیں اندمال کا باعث بن جاتا ہے، قومی سفر کو اخلاقی اقدار کے فروغ کی طاقت ملتی ہے، ہمارے نزدیک اعتزاز صاحب ، فیصل واوڈا اور اور تحریک انصاف پنجاب تینوں نے اس جانکاہ موقع پر نواز خاندان ہی کو نہیں، پاکستانی قوم کو ذہنی بحالی کی قوت فراہم کی، دونوں حضرات نے معافی مانگ کر ان کی علالت کے دوران اپنے ریمارکس کی غلطی کا ازالہ کردیا جس نے، بالخصوص اعتزاز جیسے رہنماکا اُجلا دامن نہایت داغدار کردیا تھا!

نواز خاندان زخم خوردگی اور دنیاوی بحرانوں کے جزیروں میں ہے، انسانوں نے انسانوں کے ساتھ جو کچھ کیا وہ ناقابل بیان اور ناقابل ادراک ہے۔ اس لئے اس خاندان کے لئے، قلباً دعائے رحمت اور بیگم صاحبہ مرحومہ کے لئے دعائے مغفرت!

پاکستان کے حکمرانوں اور پنجاب پولیس کی پاکستانی تاریخ میں ہر انسانیت کی تذلیل کے قابل نفرت اور قابل انتقام سیاہ نشانوں کی کمی نہیں، ان میں وہ سیاہ تاریخی واقعہ بھی شامل ہے جب کلثوم نواز، غیر آئینی حکمران مشرف کے خلاف جدوجہد کررہی تھیں، نوازشریف جیل میں تھے، لکشمی چوک میکلوڈ روڈ میں پنجاب پولیس کے ٹریفک لفٹر نے بیگم صاحبہ کو گاڑی سمیت قانون کی خلاف ورزی کے نام پر اوپر اٹھا لیا اور اس عجیب و غریب مزاج کی حامل قوم نے سرعام یہ تماشا دیکھا، مگر پاکستان کے حکمرانوں اور پنجاب پولیس کے واقعات میں یہ سیاہ لمحے ایسے ہیں جن کا بدلہ نہیں چکایا جاسکا، ہاں! دل سے ایک ہوک سی اٹھتی اور خالق کائنات کے آسمان کی جانب نگاہ اٹھ جاتی ہے! کلثوم نواز مرحومہ نے واجب الاحترام زندگی گزاری، ہم ایک بار پھر انہیں دعائے مغفرت و رحمت کے ساتھ اللہ کے سپرد کرتے ہیں!

قید و بند میں مبتلا نوازشریف، مریم صفدر اور کیپٹن (ر) صفدر کی پیرول کی رہائی، بیگم صاحبہ کے سفر آخرت کے آخری مراحل میں ان کی شرکت پر تحریک انصاف نے جس قانونی تہذیب اور وسیع الظرفی کا مظاہرہ کیا، وہ بھی پاکستان کی سیاست میں دم توڑ چکی اخلاقی اقدار کو ناقابل تردید طاقت فراہم کرے گا۔

سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر داخلہ احسن اقبال کے ہمراہ لاہور میں بروز ہفتہ مورخہ 8ستمبر 2018ء، مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے صدر، قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا! ’’عمران خان غلط فہمی میں نہ رہیں، دھاندلی کے خلاف پارلیمانی کمیشن بننے تک ایوان کی کارروائی چلنے نہیں دیں گے۔ ہم نے عوام کے 160ارب بچائے، عمران خان نے آتے ہی بجلی، گیس اور کھاد کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کردیا، حکومت کی 20دنوں کی کارکردگی سامنے آگئی، اگر یہ نیا پاکستان ہے تو ہمارا اللہ ہی حافظ ہے، ہماری حکومت نے بھاشا ڈیم کے لئے 100ارب روپے خرچ کئے، عمران خان کام کریں، بیڑا غرق نہ کریں، شہباز شریف کا مزید کہنا تھا! ’’صرف حزب اختلاف نہیں بلکہ سرکاری بنچوں کی سیاسی پارٹیاں بھی دھاندلی کا رونا رو رہی ہیں، 17۔اگست کو اسمبلی ہال میں عمران خان نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ پارلیمانی کمیشن بنانے کو تیار ہیں،3ہفتے گزر جانے کو ہیں، کمیشن کا نوٹیفکیشن نہیں ہوسکا۔ صدر ’’ن‘‘ لیگ نے مطالبہ کیا: ’’دھاندلی کے خلاف پارلیمانی کمیشن فوری بنایا جائے تاکہ دھاندلی کی تہہ تک پہنچا جاسکے۔ ہمارے دور میں کھاد کی قیمتوں کو کم کرنے کے لئے سبسڈی دی گئی اور کھاد کو سستا کیا، اب اربوں کی سبسڈی ختم کر دی گئی ہے جبکہ کھاد کی 800روپے قیمت بڑھا دی گئی۔ حکومت کے ان اقدامات سے غریبوں کے لئے زیادتی اور تذلیل کا بندوبست کیا گیا ہے!‘‘

قارئین میں سے بہت سے حضرات کو چند روز قبل عمران خان کا بیان یاد ہونا چاہئے جس کے مطابق ’’اپوزیشن کمزور ہے، اس سے کوئی خطرہ و خوف نہیں‘‘۔ خان صاحب نے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اپوزیشن کی ہیت ترکیبی کے اصل عنصر کو دریا میں کوزے کی طرح بند کردیا۔ یہ بیان اس ماضی کی تصدیق کرتا ہے جس میں اپوزیشن’’ عوام‘‘ کے نام پر ’’اقتدار‘‘ کا ہولناک کھیل کھیلتی، پاکستانی تاریخ کے مطابق، اندر خانے سینکڑوں ہزاروں تضادات اور مفادات کی لڑائیاں جاری رہتی ہیں چنانچہ جب بھی برسراقتدار گروہ کسی زد میں آیا، وہ اپوزیشن کے دبائو کے باعث نہیں بلکہ پس پردہ کچھ بین الاقوامی اور قومی ’’عناصر‘‘ کے حصہ ڈالنے کے نتیجے میں ’’تاج و تخت‘‘ سے محروم ہوا۔

موجودہ اپوزیشن کی اصولی طاقت کی اخلاقی اور واقعی تارپود اسی روز بکھر گئی تھی جب پاکستان پیپلز پارٹی نے صدارتی انتخاب، کے موقع پر ن لیگ کو جواباً یہ سندیسہ بھیجا ’’قطعاً اپنا امیدوار نہیں بٹھائیں گے، پہلی بار بھی اعتزاز، دوسری بار بھی اعتزاز اور تیسری بار بھی اعتزاز‘‘ چنانچہ ’’ن‘‘ لیگ نے مجبوراً مولانا فضل الرحمٰن پر اکتفا کیا۔

ہمارے ایک کولیگ کالم نگار نے بھی اس حوالے سے پاکستان میں اپوزیشن اتحادوں کی عملی سچائی بیان کی جس میں پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) ایوبی آمریت کے خلاف ڈیمو کریٹک ایکشن کمیٹی، 1967ء میں پانچ اپوزیشن جماعتوں کا ’’پاکستان جمہوری تحریک‘‘ کے نام سے متحد ہونا جسے بعد میں ’’ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی‘‘ کا نام دیدیا گیا، بھٹو صاحب کے دور میں ایک متحدہ محاذ کا قیام، ضیاء الحق کے خلاف ایم آر ڈی کی تحریک، 1999ء میں جنرل پرویز مشرف کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کا اے آر ڈی کے پلیٹ فارم پر جمع ہونا وغیرہ وغیرہ اور پھر پاکستان میں اپوزیشن کے مجموعی کردار کوایک تاریخی جملے میں سمو دیا یعنی ’’اب ان مثالوں کو موجودہ ایسے اتحاد پر کیونکر منطبق کیا جاسکتا ہے جس کے رہنمائوں میں باہمی اعتماد کو کجا، ایک دوسرے کے خلاف جن کی بیان بازیاں، قلابازیاں اور بغض و عناد سربازارہیں‘‘ ایسے اتحاد تارعنکبوت سے بھی کمزور ثابت ہوئے ہیں‘‘۔

ملکوں، قوموں اور افراد کی ناقابل گرفت طویل داستان تو معلوم نہیں کیا، کہاں اور کیسے شروع ہوئی، پاکستان کی حد تک ہمارے کولیگ کالم نگار نے اپوزیشن کا جو قصہ بیان کیا، وہ لوگ اس کے عینی شاہد ٹھہرتے ہیں جو پاکستان کی عمر کے برابر برابر ہیں!

سوال یہ ہے، ’’ن‘‘ لیگ کے تقریباً 30برس پر مشتمل ملکی اقتدار کے تاریخی تسلسل میں جوہری تبدیلی کیا ہے؟ جوہری تبدیلی، یہ کہ وقت کا طرز عمل اپنے چہرے کے دوسرے رخ کو ن لیگ کے مستقبل کا فیصلہ قرار دینے پر مصر دکھائی دیتا ہے، باقی وہ جانتا ہے جو سب جانتا ہے!

اپوزیشن اور شہباز شریف، اقتدار سے محرومی اور شہباز شریف، امکانی خدشات اور شہباز شریف، ان سوالات پر گفتگو کی ہمت نہیں پڑتی! کہنے کو تو لوگ یہ بھی کہتے ہیں، کاش! قومی اسمبلی میں خواجہ آصف اور صوبائی اسمبلی پنجاب میں خواجہ سعد رفیق اپوزیشن لیڈر ہوتے، اس لئے ابھی بہت سے موضوعات پر کہنے کی جرات نہیں ہورہی!‘‘

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین