• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

لندن کا نام ہم نے تین چار برس کی عمر میں پہلی بار ریڈیو سے سنا تھا۔ صبح سویرے ہمارے گھر میں ریڈیو لگتا جس میں خبروں کا آغاز اس طرح ہوتا ’’یہ بی بی سی لندن ہے اس وقت یہاں برطانیہ میں صبح کے۔۔۔۔۔‘‘ بڑی خواہش تھی کہ بی بی سی اردو سروس کے وہ دفاتر ملاحظہ کیے جائیں جن میں سدھو بھائی کے ساتھ ہمارے رضا علی عابدی کی خوبصورت آواز گونجتی تھی مگر عابدی صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ تو اٹلی آئے ہوئے ہیں۔ اسی طرح یہاں کے جدی پشتی ٹم گرین اور ریچل گرین سے ہمارے گہرے فیملی تعلقات ہیں مگر وہ لوگ ان دنوں ملائیشیا گئے ہیں۔ پیٹریشیا بھابھی سپین گئی ہوئی ہیں یوں محسوس ہو ا کہ دنیا واقعی گلوبل ویلیج ہے لہٰذا جو لوگ میسر ہیں انہی سے کام چلایا جائے۔ انگلستان کے مختلف مقامات پر گھومتے ہوئے اتنی دلچسپیاں سامنے آئی ہیں کہ سمجھ نہیں آرہی کس کا ذکر کیا جائے اور کس کا گول کر دیا جائے بالخصوص مغربی معاشرتی و خاندانی زندگی، سماجی اسلوب، باہمی تعلقات، اپنوں اور غیروں سے ملنے کا انداز، ان کی شخصی کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ یا میڈیا کی آزادیاں اور جمہوری رویے بالخصوص ان کی اخلاقی اقدار اور فرد کی اہمیت مذہبی سیکولر یا لبرل اپروچ۔ بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کے لکھے جانے کو ہم وطن شاید پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھیں گے۔ جب سر سیدجیسی مہان ہستی کی ایسی تحریروں پر اعتراضات اٹھے تو پھر ہماری کیا حیثیت ہے۔

بہرحال ایک پاکستانی کی نظر سے دیکھیں تو لندن سے ہماری شناسائی یا دلچسپی قائداعظم محمد علی جناحؒ، علامہ اقبال ؒ اور سرسید احمد خان کے یہاں گزارے لمحات کے حوالوں سے بھی ہے کہ وہ یہاں کہاں اور کیسے رہے اُن کے اس قوم اور ان کی تہذیب و ترقی کے متعلق کیا خیالات تھے؟ اور پھر جب ہم تحریک آزادی یا تحریک پاکستان کے حوالے سے پڑھتے ہیں تو بھی ہمیں قدم قدم پر انگلستان اور لندن کے حالات سے واسطہ پڑتاہے ہمارے بزرگ یہاں کہاں کہاں رہے؟ اُن کی ذہنی آبیاری یہاں کس طرح کے ماحول میں ہوئی؟ گول میز کانفرنسز کہاں منعقد ہوتی رہیں وغیرہ۔ آج کا لندن اُس وقت کے لندن سے کتنا اور کس طرح مختلف ہے؟

آج یہاں انگریز کے بجائے پاکستانی نژاد مسلمان لندن کا میئر ہے تو یہ کیسے ممکن ہوا ہے؟ درویش بارہا یہ بھی سوچتا رہا ہے کہ تھے تو مغل بھی غیر ملکی (یعنی ترک) حملہ آور ہی مگر انہوں نے جب ہندوستان پر قبضہ کیا تو پھر وہیں کے ہو گئے اُن کی زبان یا معاشرت بھی اگرچہ مقامی ہندوستانیوں سے مختلف تھی مگر وہ کچھ لے دے کر اس کا حصہ بن گئے آخر کیا وجہ تھی کہ انگریز جنہیں مغلوں کی نسبت اس خطے میں زیادہ پذیرائی مل سکتی تھی اس طرح مکس اپ کیوں نہ ہوسکے؟ جنوبی افریقہ آسٹریلیا یا امریکا کی طرح انہوں نے یہاں اپنی وسیع آبادیوں یا کالونیوں کو کیوں نہ بسایا ؟ حالانکہ وہ بڑے شہروں میں رہے لوگوں کے لیے مضبوط قلعہ نما کالونیاں بنا سکتے تھے اور کچھ انھوں نے بنا بھی رکھی تھیں مگر مقامی آبادی سے کمپنی بہادر نے جو تعلق بنایا تھا بعدازاں وہ بھی ختم کر دیا۔

’’پیسج ٹو انڈیا‘‘ جیسی کلاسیکل مووی میں ہم اس تفاوت کو بخوبی دیکھ سکتے ہیں آخر اس دوری یا اجنبیت کی وجہ کیا تھی حالانکہ کمتر طبقے سے تعلق رکھنے والے انگریز بھی جو کچھ عرصہ ہندوستان میں گزار کر آتے تھے واپس برطانیہ آکر خود کو ایسی ایلیٹ کلاس خیال کرتے تھے جسے یہاں کی جدی پشتی ایلیٹ کلاس حیرت سے دیکھتی تھی اور انہیں نودولتیے خیال کرتی تھی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اپنی تمامتر مقبولیت کے باوجود پارٹیشن کے ساتھ ہی اُن کا یہاں سے ایسے صفایا ہوا ہے جیسے اسپین سے مسلمانوں کا، تو اس کی ٹھوس وجوہ کیا ہیں؟ ہمیں یہاں بڑی دلچسپی ہے کہ اپنے پیرومرشد سرسید کے سفر انگلستان سے اقتباسات پیش کریں جو بڑی دلچسپی کے حامل ہیں۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ جو باتیں ہم مغربی تہذیب کی ستائش میں براہ راست تحریر نہیں کر سکتے وہ سر سید کے شیلٹر میں کر گزریں گے مگر کیا کریں ایک تو کالم کی طوالت زیادہ ہوتی جا رہی ہے دوسرا وقت بھی کم ہے تیسرے ہمارے عامۃ المسلمین کا ذوق یا میلان آج بھی شاید ڈیڑھ صدی قبل کے مقام یا اس کے کہیں آس پاس کھڑا ہے۔ سرسید نے جب اپنے اس سفرنامے کو لکھتے ہوئے ساتھ ساتھ اشاعت کے لیے ہندوستان بھیجنا شروع کیا تو ایسی تنقید شروع ہوئی کہ جس کے وہ عادی نہیں تھے۔ حیاتِ جاوید میں مولانا حالی کا یہ اقتباس اس امر کی غمازی کرتا ہے ’’15اکتوبر 1869ء کو انہوں نے ایک لمبی تحریر سوسائٹی اخبار میں چھپنے کو بھیجی جس میں چھ مہینے کے حالات مختصر طور پر بیان کیے تھے۔ یورپ کی ترقی اور اپنے ملک کے تنزل کی مثالیں پیش کر کے اہل وطن کو غیرت دلائی۔ اس تحریر کا نتیجہ بھی سوائے اس کے کہ لوگ برافروختہ ہوں اور بُرا بھلا کہیں، کچھ حاصل نہ ہوا تو 22 مارچ 1870ء کو ایک دوسری تحریر بعنوان ’’عرض ازطرف گنہگار سید احمد‘‘ہندوستان میں بھیجی پھر ایک اور تحریر بعنوان ’’عرضداشت سید احمد بخدمت اہل وطن‘‘ اخبار میں چھپنے کے لیے روانہ کی۔

ان تمام تحریروں کے دیکھنے سے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ اُس زمانے میں سرسید کو وطن کی بھلائی کا کس قدر خیال تھا گو ان تحریروں سے قوم و ملک کے کانوں پر جوں نہیں رینگی مگر درحقیقت یہ سب تمہیدیں تھیں اُن کارروائیوں کی جو آخرکار ہندوستان پہنچ کر سر سید کے ہاتھوں ظہور پذیر ہونے والی تھیں‘‘۔ مولانا حالی دوسری جگہ تحریر کرتے ہیں ’’یہ سفر نامہ نہایت دلچسپ طریقے سے لکھنا شروع ہوا تھا مگر جب اُس کے کچھ حصے ہندوستان میں شائع ہوئے تو مسلمانوں کی طرف سے اُس پر اعتراضوں کی بوچھاڑ پڑنی شروع ہوئی اور سرسید کو بھی لندن ہی میں لوگوں کی مخالفت کا حال معلوم ہوا۔ ابھی حضرت کے کان ایسی مخالف صداؤں سے زیادہ آشنا نہ تھے اس لیے انہوں نے ناراض ہو کر سفرنامہ لکھنا موقوف کر دیا مگر زمانہ باآواز بلند کہہ رہا تھا

ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا

آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا

مولانا الطاف حسین حالی ایک اور جگہ سر سید کی لندن یاترا کے متعلق لکھتے ہیں:الغرض سرسید بمبئی سے چوبیس دن میں لندن پہنچے اور میکلن برگ اسکوائر میں ایک مکان کرایہ پر لے کر ٹھہرے اپنے تمام دوستوں اور آشناؤں سے ملے۔ لارڈ لارنس سب سے زیادہ مہربانی، مروت اور خلق سے اُن کے ساتھ پیش آئے جیسے کہ وہ ہندوستان کے مسافروں کے ساتھ پیش آتے تھے وہ ہندوستان میں سرسید اور ان کے خاندان کو اچھی طرح جانتے تھے اور اُن کی خدمات سے آگاہ تھے۔ لندن میں وہ اکثر ان کو اپنے گھر ڈنر پر بلاتے اور مہینے میں ایک بار اُن سے ملنے کو آتے۔ انہوں نے ہی سرسید کو لندن کے اکثر امراء و مشاہیر سے ملوایا تھا‘‘۔۔۔۔

بہرحال ہم اپنے اس آرٹیکل کا اختتام لندن کے عظیم فلاسفر اور مدبر سر برٹینڈرسل کے ایک اقتباس پر کرتے ہیں جسے ان کی مغربی تہذیبی فکر کا ایک سمبل کہا جا سکتا ہے۔ ’’تین سادہ مگر پُرجوش جذبے میری زندگی پر ہمیشہ حکمرانی کرتے رہے ہیں ان میں سے ایک محبت کی تلاش ہے اور دوسرا علم کی جستجو ہے جبکہ تیسرا انسانی دکھوں کا بے پایاں درد ہے۔ طوفانی ہواؤں کی طرح یہ تینوں جذبے میری زندگی کی ناؤ کو کبھی یہاں کبھی وہاں کھینچتے رہے ہیں، میں نے محبت کی تلاش اس لیے کی کہ وہ وجد آفریں ہے۔ اس قدر وجد آفریں کہ ایسی مسرت کے چند لمحوں کی خاطر میں پوری زندگی فدا کر دوں۔ میں نے محبت کو اس لیے پانا چاہا کہ وہ تنہائی کے احساس کو مٹاتی ہے۔ اتنی ہی شدت سے میں نے علم کی خواہش کی۔ میں نے انسانوں کے دلوں کو سمجھنا چاہا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ ستارے کیوں چمکتے ہیں۔ محبت اور علم مجھے ممکن حد تک آسمانوں میں بلندیوں کی جانب لے جاتے ہیں لیکن ہر بار انسانی دکھ درد مجھے واپس زمین پر لے آتے ہیں درد بھری چیخوں کی صدائے باز گشت میرے دل میں مرتعش ہو جاتی ہے۔‘‘

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین