• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ا نتہائی درجہ بددیانتی پر مبنی ’’کارنامہ‘‘ ہے

برطانیہ کی ایک خبر کے مطابق طلاق حاصل کرنے والے اوسط جوڑوں پر جن کے دو بچے ہیں ،سرکاری خزانے کو 80ہزار پونڈ رقم خرچ کرنا پڑے گی جبکہ ’’سنگل پیرنٹس ‘‘کے صرف بچوں پر اور بھی رقم خرچ کرنی پڑے گی مزید یہ کہ ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت پر سرکاری خزانے کو 75ہزار پونڈ سے لیکر ایک لاکھ 23ہزار پونڈ تک رقم خرچ کرنا پڑے گی۔ یہ اعداد و شمار حالیہ شائع ہونے والی منسٹر فار پالیسی اسٹڈیز میں دیئے گئے ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد شادیاں ٹوٹنے کے ٹیکس اور ویلفیئر سسٹم پر اثرات کو اجاگر کرنا ہے۔

کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر باب روتھورن نے کہا ہے کہ والدین کی طلاق یا علیحدگی جذباتی اور جسمانی مسائل کا باعث بنتی ہے لیکن اس سے مالی طور پر بھی منفی اثرات جنم لیتے ہیں ،انہوں نے کہا کہ تین میں سے ایک والدین کو طلاق کی صورت میں سرکاری خزانے سے لاکھوں پونڈ کی رقم خرچ کرنی پڑے گی۔ ایک اندازے کے مطابق اگر ایک شوہر 640پونڈ اور بیوی 250 پونڈ فی ہفتہ کما رہے ہیں تو وہ دس برسوں میں76ہزار پونڈ ٹیکس کی صورت میں ادا کریں گے۔ اور اگر ان کی علیحدگی ہو جائے اور وہ رقم بھی اسی قدر کماتے ہوں تو وہ چار ہزار پونڈ ٹیکس ادا کریں گے اور سرکاری خزانے کو ان پر80ہزار پونڈ پلے سے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ اور اگر ایک بے روزگار جوڑا سوشل ہائوسنگ میں اکٹھا رہتا ہے تو دس سال میں انہیں بلا ٹیکس ایک لاکھ 28ہزار پونڈ بینیفٹ میں ملیں گے لیکن علیحدگی کی صورت میں یہی رقم بڑھ کر ایک لاکھ 48ہزار پونڈ ہو جائے گی اور سرکاری خزانے کو مزید20ہزار پونڈ کا مالی نقصان ہو گا۔ اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے کشور حسین شاد باد کے باسی جو ولایت میں رہتے ہیں نے دھڑا دھڑ ’’طلاقوں‘‘ پر زور دے دیا ہے۔ یہ طلاق صرف کاغذات میں ہوتی ہے لیکن نکاح کو بدستور قائم رکھا جاتا ہے۔ برطانیہ کی حکومت ان دنوں اس مسئلے سے نمٹ رہی ہے۔

میری اطلاعات کے مطابق ’’حقیقی جمہوریت ‘‘ کی طرح حقیقی طلاق کا گراف نہ صرف بیرون ملک بلکہ اندرون ملک بھی بڑی تیزی سے اوپر جا رہا ہے جہاں تک طلاق کی شرعی حیثیت کا تعلق ہے۔کتاب و سنت کے بعد شریعت کا تیسرا ماخذ ’’اجماع‘‘ ہے۔ اس وقت اہل سنت و الجماعت کے پانچ مکاتب فکر ساری دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، سلفی، جبکہ اہل تشیع کے یہاں فقہ جعفری پر عمل ہے۔ ان تمام مکاتب فقہ کی کتابیں چھپی ہوئی موجود ہیں۔ میرے علم کے مطابق ان میں سے کسی کے یہاں طلاق واقع ہونے کے لئے مصالحتی کوشش کا ہونا شرط نہیں ہے کسی بھی کتاب میں طلاق دینے کے سلسلے میں کسی ایسی شرط کا ذکر نہیں ملتا۔

اس لئے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اس بارے میں ملت کااجماع و اتفاق ہے یہاں تک کہ علیحدگی کی صورت میں ثالثی کو بھی ضروری قرار نہیں دیا گیا بلکہ اس کا کوئی ذکر ہی نہیں آیا۔ لہٰذا قیاس کا تقاضا بھی یہی ٹھہرا کہ طلاق واقع ہونے کیلئے بھی پہلے ثالث کے ذریعے معاملہ طے کرنے کی کوشش کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ قرآنی آیات میں مرد عورت کا درجہ بتایا گیا کہ مرد صدر خاندان ہے اور عورت پر جائز امور میں اسکی اطاعت واجب ہے۔ چونکہ حقوق و فرائض کے بارے میں اکثر نزاع پیدا ہو جاتا ہے۔ اور میاں بیوی کی ہمہ وقتی رفاقت کی وجہ سے ان کے درمیان نزاع کا امکان زیادہ ہوتا ہے اس لئے خاص طور پر میاں بیوی کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اگر بیوی شوہر کے حقوق کے بارے میں کوتاہی کرے اور اسکی وجہ سے تعلقات میں ناخوشگواری پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو شوہر ذاتی طور پر اسکو حل کرنے کی کوشش کرے اور اسکی تین صورتیں ہو سکتی ہیں۔ پندو نصیحت ، عارضی طور پر ترک تعلقات اور سرزنش اور اگر اس سے بھی مسئلہ حل نہ ہو تو سماجی مداخلت یعنی سماج کو چاہئے کہ باہمی جھگڑے طے کرنے کیلئے دونوں خاندانوں کو لے کر اختلافات ختم کرانے کی کوشش کرے۔ یاد رہے کہ یہ سب ایک عمومی نصیحت ہے۔ چونکہ ازدواجی رشتہ خاندان کے استحکام کے لئے خصوصی اہمیت کا حامل ہے اس لئے خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ اس میں دراڑ نہیں ہونی چاہئے۔ شوہر بھی ذاتی طور پر اس کے لئے کوشش کرے اور سماج بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے لیکن اس کا تعلق خاص طلاق کے مسئلے سے ہرگز نہیں بلکہ کسی بھی قسم کا اختلاف شوہر و بیوی میں پیدا ہو تو اسے اس طرح سے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس لئے میرے حساب سے اگر علیحدگی کے بغیر چارہ نہ ہو تو جلد سے جلد اسے پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہئے کہ طلاق کو مشکل بنانا بظاہر عورت کے مفاد میں نظر آتا ہے لیکن یہ اس کے حق میں مضر رساں عمل ہے۔

غموں کا کوئی بھی موسم نہیں ہے

یہ میلہ سال بھر لگنے لگا ہے

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین