• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شاید پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہو کہ نئی حکومت بنتے بنتے دوست ممالک کے اہم عہدیداروں نے اس نئی حکومت کا خیر مقدم کرنے اور مبارک سلامت کے پیغامات پہنچانے کے لیے پہنچنا شروع کردیا یقیناََ یہ ایک مثبت سوچ اور حکمرانوں کی مقبولیت کی علامت کہی جاسکتی ہے سابق حکمرانوں کو بدعنوانی، کرپشن، لوٹ مار کے الزامات ہی نہیں بلکہ ان کے کردہ نا کردہ گناہوں کی سزا بھی سنا دی گئی انہیں سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا ہے وہ جو کہتے ہیں کہ مرا ہاتھی سوا لاکھ کا تو وہ اب تک اس بات پر یقین نہیں کر رہے کہ ان کا کھیل ختم ہوگیا ہے یا کردیا گیا ہے سیاسی تجزیہ نگاروں کی نظر میں وہ بڑے سیاستدان ٹھہرتے ہیں لیکن سیاست وہ بھی ملکی سیاست جس کا مزاج خود انہوں نے ہی بگاڑا ہے اب جبکہ وہ خود اپنے کھودے ہوئے گڑھوں میں گر چکے ہیں انتخابات نے ان کے ڈھول کا پول کھول دیا اس سے معلوم ہوا کہ کون کتنے پانی میں ہے، ہر بار الیکشن کے بعد ایسی ہی دہائی دی جاتی رہی ہے ہارنے والے دھاندلی اور نتائج کی تبدیلی کے نعرے ہی لگاتے ہیں حیرت اس بات پر بھی ہے کہ ایک طرف تو ہارنے والی تمام جماعتیں دھاندلی کے الزامات لگا رہی ہیں لیکن اس کے باوجودان کے جتنے بھی افراد ان انتخابات میں کامیاب ہوئے وہ کامیابی کو قبول بھی کر رہے ہیں اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ان کی کامیابی میں بھی اس دھاندلی زدہ الیکشن کا ہاتھ ہے ورنہ اگر دھاندلی بھرپور ہوتی جیسا کہ ان تمام لوگوں کا گمان ہے تو پھر انہیں بھی کامیاب نہیں ہونا چاہیے تھا اسمبلیاں کسی کی میراث نہیں ہے کہ ہر سال لازما ان ہی لوگوں کو کامیابی ملنی چاہیے جو پشت در پشت کامیاب ہوتے رہے ہیں چاہے وہ اپنے حلقوں میں کتنے ہی غیر مقبول کیوں نہ ہوچکے ہوں اگر انہیں یہ یقین کامل ہے کہ اس بار انتخابات میں زبردست دھاندلی کی گئی ہے تو جو بھی جتنے بھی ان میں سے کامیاب ہوئے انہیں بھی اپنی نشستیں چھوڑ دینی چاہیے تھیں تو ہی معلوم ہوتا حقیقی احتجاج لیکن جو مل گیا ہے اسے چھوڑنا نہیں جو نہیں مل سکا اسے چھین لیا جائے، الیکشن تو عوام کا فیصلہ ہوتا ہے کوئی کتنی بھی کیسے ہی بد عنوانی بے ایمانی کرلے لیکن عوام تو اندھے بہرے نہیں ہیں کہ وہ اپنے منتخب کردہ کیخلاف کامیاب ہونے والے پر خاموشی اختیار کرلیں، چاہے خلائی مخلوق ہوں یا زمینی ناخدا سے عوام کے سامنے بے اختیار و بے بس ہوتے ہیں ہونا تو یہ چاہیے کہ ملک و قوم کے مفاد میں تمام کامیاب ہونے والے ارکان پارلیمنٹ مل جل کر افہام و تفہیم سے ملک و قوم کے مفادات پیش نظر رکھتے ہوئے کام کریں، لیکن وطن عزیز میں ہمیشہ سے یہ رسم چلی آرہی ہے نہ خود کھیلنا ہے نہ کھیلنے دینا ہے ۔ موجودہ نئے حکمران جب حزب اختلاف کا حصہ تھے تو تب بھی ان کا معمول ایسا ہی تھا وہ حکمرانوں کیخلاف مہم در مہم چلاتے رہتے تھے اب جبکہ وہ صاحب اقتدار بن چکے ہیں تو ان سے شکست کھانے والی جماعتوں نے بھی وہی رویہ اپنا لیا ہے حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ نئے آنے والوں کو جو ان سیاست دانوں کے مقابلے میں ناتجربہ کار اور سیاست کی الف ب سے نا واقف ہیں کو موقع دینا چاہیے تاکہ یہ ناتجربہ کار سیاست دان جن کوبلی کے بھاگوں اقتدار مل چکا ہے اپنی نا اہلی سے کتنے دن حکومت چلا پاتے ہیں ۔

وزیر اعظم عمران خان کا ماضی گواہ ہے کہ انہوں نے ملک و قوم کے لیے اقتدار میں نہ ہونے کے باوجود کھربوں روپے کے سرمائے سے وسائل نہ ہوتے ہوئے کینسر جیسے موذی مرض پر قابوپانے کے لیے غریب غربا کو علاج کی سہولت مہیا کرنے کے لیے عوام کے عطیات سے وہ کارنامہ کر دکھایا جس کی مثال اس سے قبل تو کیا آج تک دوسری میسر نہیں عمران خان کے چاہنے والے بخوبی جانتے مانتے ہیں کہ وہ جو بھی ہے جیسا بھی ہے بد دیانت بے ایمان نہیں ہے عطیات سے ملنے والی دولت کا درست استعمال کرتا ہے اس میں سے کسی قسم کے غبن کا مرتکب نہیں ہوتا، وہ ایک درد مند دل رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب عمران خان نے عطیات کی اپیل کی تو لوگوں نے بہت مثبت جواب دیا ہے جب سے عمران خان مسند اقتدار پر جلوہ گر ہوا دنیا اس کی طرف کھنچی چلی آرہی ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کے لیے آسانیاں پیدا کر رہا ہے ۔وہ خوب اچھی طرح سمجھتا ہے جانتا ہے کہ اسے یہ موقع اللہ نے دیا ہے اگر اس نے یہ موقع گنوا دیا تو وہ ہمیشہ کے لیے بازی ہار جائے گا وزیر اعظم عمران خان کے مخالفین اس پر ذاتی نوعیت کے الزامات لگا رہے ہیں کیا ایسا کرنے والوں نے اپنے گریبانوں میں بھی جھانک کر دیکھا ہے کہ وہ خود کتنے دودھ کے دھلے ہوئے ہیں ۔عمران خان اور اس کے ساتھی بیک آواز اور یک جان ہو کر اپنی منزل کی جانب گامزن ہونا چاہ رہے ہیں وہ اپنے کیے ہوئے دعوئوں کو پورا کرکے دکھانا چاہ رہے ہیں لیکن یہ جغادری سیاست دان جو اب تک اپنی ڈفلی اپنا راگ الاپتے رہے ہیں وہ نہ خود سکون چین سے بیٹھ رہے ہیں نہ عمران خان ان کے ساتھیوں کو بیٹھنے دے رہے ہیں ۔ وہ لوگ دس سال حکمرانی کے باوجود کوئی مثبت کام سر انجام نہیں دے سکے اب انہیں یہ خوف کھائے جا رہا ہے کہ کہیں واقعی اگر عمران خان اور اس کی جماعت نے کچھ نیا کردیا کچھ کام جو ہمیشہ ادھورے رکھے جاتے ہیں انہیں پورا کردیا اور اپنے کیے گئے دعوئوں اور وعدوں کو کسی بھی حد تک پورا کردیا تو ان کی لٹیا ہی ڈوب جائے گی نہ وہ گھر کے رہیںگے نہ گھاٹ کے عمران خان کی کامیابی سے انہیں اپنا مستقل ڈوبتا نظر آرہا ہے اس لیے وہ اپنے تحفظ کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا رہے ہیں ان کے رات دن کا چین و آرام حرام ہوا جا رہا ہے انہیں یہ بھی خوف کھا رہا ہے کہ اگر کہیں عمران خان نے ان کی جیسی سیاست شروع کردی اور انتقامی حربے استعمال کرنا شروع کردیے تو پھر کیا ہوگا، اللہ ہمارے اہل سیاست کوعقل سلیم دےاور توفیق عطا کرے کہ انہیں ملک و قوم کے درد سے آشنا کردے اور وہ حکمرانوں کے ساتھ مل جل کر ملک و قوم کی فلاح و بہتری کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر اپنے حصے کا کام سر انجام دے سکیں، اللہ ہمارے وطن عزیز کا اہل وطن کا حافظ و ناصر ہوں وطن عزیز کو ہر بری نظر سے ہر طرح کی آفات حادثات سے محفوظ رکھے آمین یا رب العالمین۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین