• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈاکٹر مہدی حسن سے لیکر راشد رحمن اور جناب عارف نظامی سے لیکر سلیم بخاری تک فوج کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ جرنیلوں کے خلاف کارروائی کا دانہ سب سیانوں نے ڈالا مگر ہوشیار اور حاضر جواب وفاقی وزیر اطلاعا ت قمر الزمان کائرہ نے چگنے سے انکار کر دیا البتہ عدالت عظمیٰ کے بارے میں بعض اخبار نویسوں کی گفتگو انہیں بھلی لگی اور انہوں نے اپنے صدارتی خطاب میں اصغر خان کیس کے عدالتی فیصلے کا وہ حصہ تبصرے کے قابل سمجھا جو ایوان صدر کے سیاسی کردار کے حوالے سے ہے ۔
اصغر خان کیس کا فیصلہ آنے کے بعد حقیقی جمہوریت اور سول حکومت کی مثالی بالادستی کے خواہشمند جن خواتین و حضرات کو یہ خوش فہمی لاحق تھی کہ اب منتخب جمہوری حکومت کشتوں کے پشتے لگائے گی سابقہ جرنیلوں کے علاوہ آئی ایس آئی سے پیسے بٹور کر 1990ء کا الیکشن خریدنے والے سیاست دانوں کو قانون کے کٹہرے میں لاکھڑا کریگی انہیں کائرہ صاحب کی عملیت پسندانہ گفتگو سے مایوسی ہوئی حتیٰ کہ فوج اور عدلیہ کو ”مٹروا“ قرار دیکر کائرہ کے جذبات کو انگیخت کرنے والے مدیر گرامی کو بھی اپنے استاد محترم مجیب الرحمن شامی کے اکرام میں اپنے الفاظ واپس لینے پڑے ۔
ماضی کی غلطیوں کو سدھانے اور آئین شکن آمروں کو قانون کے کٹہرے میں لاکر آنے والوں کے لئے نشان عبرت بنانے والوں کے استدلال میں وزن ہے اور میری ناقص رائے میں فوجی شب خون کا راستہ روکنے کی اہم تدبیر یہی ہو سکتی ہے ۔ مداخلت کے انجانے خوف اور مستقبل کے اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا کوئی جمہوری حکومت بھلا یکسوئی کے ساتھ آگے کیسے بڑھ سکتی ہے وہ تو پورے عرصہ اقتدار میں ایسی درزیں اور سوراخ بند کرنے میں لگی رہتی ہے جہاں سے مداخلت کار حشرات الارض کی در اندازی کا اندیشہ ہو ۔ کارکردگی پر توجہ کیا خاک دیگی؟
مگر اس حوالے سے ترکی کی مثال دینے والے دانشور اور قلمکار اس بنیادی حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ جس طاقتور ادارے کو اقتدار کا چسکا پڑ چکا ہو اسے آئین و قانون کا پابند اور جمہوری اقدار و روایات کا خوگر بنانے کے لئے محض ایوان صدر اور ایوان وزیر اعظم پر تسلط اور پارلیمینٹ میں سادہ یا دو تہائی اکثریت کافی نہیں ورنہ یہ کام محترمہ بے نظیر بھٹو 1988ء اور میاں نواز شریف 1990ء یا 1997ء میں کر گزرتے۔ بلند کردار، اخلاقی برتری اور بے عیب عوامی مینڈیٹ کے بغیر محض امریکہ کی سرپرستی، خوشامدی عناصر کے بے مغز مشوروں اور جوڑ توڑ کے ذریعے پارلیمانی اکثریت کے بل بوتے پر ان اداروں سے چھیڑ چھاڑ مہنگی پڑتی ہے اور لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں اس لئے صدر زرداری نے اگر اب تک حکومت کو غنیمت جانا اور اقتدار حاصل کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی اور کائرہ صاحب نے گزشتہ روز کسی کی دلیل اور مطالبہ پر کان نہیں دھرا تو ان کا قصور نہیں، انہیں اپنی کمزوریوں کا احساس ہے اور زمینی حقائق کا ادراک ،ترکی میں انتخاب جیتنے والی طیب اردگان اور عبداللہ گل کی پارٹی کو اقتدار نہ تو امریکہ نے کسی فوجی حکمران کے ساتھ سمجھوتے کے ذریعے دلایا ہے اور نہ انہوں نے ماضی کے غیر جمہوری فوجی اقتدار میں حصہ داروں کو گلے سے لگا کر اپنے اتحادیوں کو لوٹ مار، قانون شکنی، اقربا پروری اور قومی وسائل کو حلوائی کی دکان سمجھ کر نانا جی کی فاتحہ پڑھنے کی کھلی چھٹی دی ہے ان کے دامن پر نہ تو بدعنوانی اور لوٹ کھسوٹ کا کوئی داغ ہے اور نہ بیرون ملک ان کے اثاثے اور کاروبار ہیں قومی خدمت کے بل بوتے پر عوامی مقبولیت ان کا سرمایہ ہے اور ملکی ترقی و خوشحالی ان کا ایجنڈا اس اخلاقی برتری کی بنا پر وہ کبھی اسرائیل کو آنکھیں دکھاتے ہیں کبھی امریکہ کے سامنے حرف انکاردہراتے اور کبھی حاضر سروس و ریٹائرڈ جرنیلوں کو عدالت کے کٹہرے میں لاکر ماضی کی پہاڑ جیسی غلطیوں کا مواخذہ کرتے ہیں۔
ترکی میں جمہوریت ترقی و خوشحالی، امن و سکون کا سبب قومی خود مختاری میں اضافے اور مذہبی عقائد و شعار پر عائد قدغنوں کے خاتمے کا ذریعہ بنی ہے اور عوام کو بہتر معاشی و سماجی زندگی گزارنے کا موقع ملا ہے جس نے حکومت اور عوام کے باہمی رشتے کو مضبوط سے مضبوط تر کیا ہے ۔یہی مضبوط رشتہ احتساب کے بے لاگ عمل کی داغ بیل ڈالنے میں مدد گار ثابت ہوا مگر ہمارے ہاں منتخب جمہوری حکمرانوں کا کل اثاثہ کیا ہے ؟ بیان بازی، وعدہ فروا، جوڑ توڑ، عدالتی فیصلوں سے گریز اور اجتماعی فیصلوں میں شفافیت کا فقدان، ملک و قوم کے لئے انتخاب اور جمہوریت ازبس ضروری مگر اپنی جماعتوں میں نامزدگی، موروثیت اور ذاتی پسند و ناپسند کا رواج، اگر انتخاب اور جمہوریت ملک کے لئے مفید ہے تو پھر سیاسی جماعتوں کو اس سے مبرا رکھنے کا جواز ؟”جی دھڑے بندی ہوتی ہے، سیاسی قیادت کی گرفت کمزور پڑ جاتی ہے اور جماعتیں اضمحلال کا شکار ہو جاتی ہیں “ تو کیا یہ خرابیاں ملک میں پیدا نہیں ہوتیں۔ اس منافقت کا کوئی جواز ہے ؟
جب کوئی سیاسی قیادت اور منتخب حکومت اعلیٰ کردار، اخلاقی برتری اور عوامی خدمت کے سرمایہ سے مالا مال ہو کر فوجی قیادت اور اعلیٰ عدلیہ ماضی کا حساب کتاب اپنے کئے کا جواب طلب کریگی تو کسی اسلم بیگ اور ارشاد حسن خان کو جرات انکار نہ ہو گی ، حکمرانوں کو میڈیا کے سامنے معذرت خواہانہ طرز عمل اختیار کرنے کی ضرورت پیش آئیگی اور نہ مفاہمت کا راگ الاپنے کی مجبوری لاحق ہو گی
ہو صداقت کے لئے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے
پریس ٹاک کے دوران میری نظر سٹیج پر آویزاں بینر پر پڑی ”طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں “ کیا واقعی ؟ میں نے سوچا اگر ایسا ہے تو پھر عوام کے منتخب نمائندے ہمیشہ اپنی بے بسی، بے چارگی اور مظلومیت کا رونا کیوں روتے ہیں انہیں عوام کی طاقت پر یقین نہیں یا اپنے بے لوث عوامی نمائندہ ہونے میں شک ہے کائرہ صاحب سے پوچھنا پڑے گا۔
تازہ ترین