• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنوبی ایشیا گزشتہ دو دہائیوں سے بتدریج موسمی تغیرات کے باعث بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور بارشوں کی کمی کا شکار چلا آرہا ہے اس کے اثرات سب سے زیادہ افغانستان پر نمودار ہوئے ہیں جو پہلے ہی گزشتہ 20برس سے خانہ جنگی کا شکار اور غیرملکی فوجوں کا میدان جنگ بنا ہوا ہے اور گزشتہ تین سے پانچ برسوں سے بارشیں نہ ہونے کے باعث قحط کا شکار ہے اس صورت حال میں ساڑھے تین کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں متاثرین کی تعداد بڑھتے بڑھتے 25لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ ملک کے 20وسطی صوبے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں جو کہ زراعت کے لئے سازگار چلے آرہے تھے ان میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے، ہزاروں بھیڑ بکریاں ہلاک اور لاکھوں افراد نقل مکانی کرکے خیموں میں بے سرو سامانی کی حالت میں رہنے پر مجبور ہیں۔ افغانستان صدیوں سے ہمارے ساتھ مذہبی اور ہمسائیگی کے رشتے میں بندھا ہوا ہے اور دونوں ممالک دکھ سکھ میں ہمیشہ ایک ساتھ کھڑے رہے ہیں اس موقع پر بھی بجا طور پر حکومت پاکستان نے جذبہ خیر سگالی کےتحت 40ہزار ٹن گندم سردست افغانستان بھیجی ہے جو پاکستانی قوم کے لئے باعث اطمینان بات ہے اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کی مجموعی صورت حال کو پاکستان انتہائی تشویش کی نگاہ سے دیکھتا ہے افغانستان کرہ ارض پر انتہائی غربت کا شکار ملک لیکن اس کا ماضی شاندار ہے جو صدیوں پہلے شاندار طرز زندگی کا حامل تھا۔ اس وقت شدید غذائی قلت کا شکار ہونے کے باعث وہاں کی حکومت نے عالمی برادری سے تعاون کی اپیل بھی کی ہے۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور ورلڈ فوڈ پروگرام کے تحت 81ملین ڈالر کی خطیر رقم سے متاثرین کی امداد کا پروگرام شروع کیا گیا ہے امید ہے کہ عالمی برادری متاثرین کی امداد کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرے گی۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین