• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عام ٹیسٹ کرکٹ ہو یا ون ڈے کرکٹ کا ورلڈ کپ۔ اس میں ہارنے جیتنے کی گنجائش ہوتی ہے۔ ہم تو پہلے سے یہ گارہے ہوتے ہیں تم ہارو یا جیتو۔ ہمیں تم سے پیار ہے۔ لیکن یہ جو 5 سالہ ٹیسٹ ہے۔ اس میں ہارنے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ یہاں جو ٹیم ہارتی ہے چاہے ذاتی طور پر فتح مند ہوتی ہے۔وہ ملک کو کئی سال پیچھے لے جاتی ہے۔ قوم غربت کا شکار ہوتی ہے۔ ملکی خزانہ خالی ہوجاتا ہے۔

طارق عزیز ’نیلام گھر‘ میں کہا کرتے تھے۔ غلطی کی گنجائش نشتہ۔ایک مقام آجاتا ہے آزمائش میں کہ اتنی غلطیاں ہوچکی ہوتی ہیں کہ پھر غلطی ہونے پر مقابلے سے باہر ہونا پڑتا ہے۔ میرے خیال میں پاکستان اب ایسے ہی مقام پر کھڑا ہے۔

کھڑے ہیں اب تو وجود و عدم کی سرحد پر

بس ایک لغزش پا پر ہے فیصلہ ہونا

اب پاکستان مزید کوئی تجربہ یا آزمائش برداشت نہیں کرسکتا۔ اب ہمیں اپنی معیشت کو ہر حال میں واپس پٹری پر لانا ہے اور کتنی بھیک مانگیں گے اور کتنے کروڑوں کو غربت کی لکیر کے نیچے بھیجیں گے۔

پارلیمانی نظام کی ستم ظریفی دیکھئے پاکستان میں اعلیٰ عہدوں پر جو ہستیاں فائز ہوتی ہیں۔ صدر۔ وزیر اعظم۔ چیف جسٹس۔ آرمی چیف۔ ان میں چیف جسٹس بھی اور آرمی چیف اپنے اپنے شعبوں میں نچلے عہدوں سے کام کرتے۔ سرد و گرم چکھتے۔ مختلف آزمائشوں سے گزرتے۔ دُنیا کو سمجھتے۔ اس مقام تک پہنچتے ہیں۔ ان تین دہائیوں میں ان میں کتنا اعتماد اور معاملہ فہمی پیدا ہوچکی ہوتی ہے۔ ان کے مقابلے میں صدر اور وزیر اعظم کے لئے کسی تجربے اور مرحلہ وار آگے بڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہیں حکومت گرانے۔ انتظامیہ کو غیر مستحکم کرنے کا تجربہ تو ہوتا ہے۔ حکومت چلانے کا تجربہ بالکل نہیں ہوتا۔ جب وہ اپنی اکثریت کی بنیاد پر ان اعلیٰ مناصب پر متمکن ہوتے ہیں تو وہ اپنے گرد و پیش میں سب سے کم تجربہ کار ہوتے ہیں۔ اس لئے کبھی چیف جسٹس کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ کبھی آرمی چیف کا۔ آٹھویں ترمیم کے خاتمے سے پہلے ٹرائیکا تھی۔ صدر۔ وزیرا عظم۔ آرمی چیف ۔ آرمی چیف اپنا وزن جس کے پلڑے میں ڈال دیتے۔ تیسرا فارغ ہوجاتا تھا۔ صدر زرداری نے خود صدر کو بے اختیار کرکے اختیارات پارلیمنٹ یعنی وزیرا عظم کو منتقل کردئیے۔ اس کے بعد صدر مملکت صرف ممنون و عارف رہ گئے۔اب ٹرائیکا وزیر اعظم۔ چیف جسٹس اور آرمی چیف پر مشتمل ہے۔ آخر الذکر دونوں زیادہ سمجھ بوجھ۔ زیادہ اختیارات رکھتے ہیں۔ اپنے اپنے شعبوں کے با اختیار سربراہ ہیں۔ یہ شعبے بہت منظّم۔ بہت منضبط۔ کسی قسم کی سرکشی۔ بے رُخی اور انحراف کی گنجائش نہیں ہے۔ وزیر اعظم جس شعبے اور اداروں کے سربراہ ہیں وہاں نظم و ضبط کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ سرکشی لائق تحسین ہوتی ہے۔ قانونی طور پر ایک اپوزیشن بھی موجود ہوتی ہے۔ جو اچھے برے ہر سرکاری فیصلے کی مخالفت اپنا پیشہ خیال کرتی ہے۔

تھوڑے لکھے کو کافی جانیں۔ اکثر وزرائے اعظم ہوائی جہازوں۔ ہیلی کاپٹروں کے ملکی اور غیر ملکی جھولوں سے خوش ہوتے رہتے ہیں اور جب وہ واقعی اپنے آپ کو ملک کا سب سے با اختیار انتظامی سربراہ سمجھنے لگتے ہیں تو ان کا راج سنگھاسن ڈولنے لگتا ہے۔

تاریخ گواہی دیتی ہے کہ اکثر سیاسی سربراہوں کو حکومت میں آنے کی بے تابی رہتی ہے۔ لیکن حکومت کرنے کی تیاری کوئی نہیں کرتا۔ پہلے سے کوئی کابینہ اور متعلقہ شعبوں کے وزیروں کی کوئی تربیت نہیں ہوتی۔ کلیدی عہدوں پر تقرری کے لئے کوئی فہرست تیار نہیںہوتی۔جب حکومت میں آجاتے ہیں تو تیاری شروع کرتے ہیں ۔ اس لئے پہلے چار پانچ مہینے تیاریوں میں گزر جاتے ہیں۔

یہ تو اب ٹی وی تبصروں، کالموں، کتابوں سے قریباً طے ہوچکا ہے کہ ہماری موجودہ خرابی 40سال پہلے شروع ہوئی ۔ ماہرین معیشت اس سے پہلے کی 3دہائیوں کو کسی حد تک بہتر اور آگے بڑھتا قرار دیتے ہیں ان 40برسوں میں مختلف جگہ رکھے گملوں سے جو سیاستدان پروان چڑھائے گئے ۔ان میں یہ گمان پروگرام کیا گیا کہ وہ عقل کُل ہیں۔انہیں اسکول کالج یونیورسٹی جانے کی ضرورت ہے نہ کچھ پڑھنے لکھنے کی۔ نہ کسی انتظامی تجربے کی۔ وہ’ سب کچھ جانتے ہیں ‘کے زعم میں ان اعلیٰ عہدوں تک پہنچتے رہے اور جلد از جلد ناکام ہوکر رُخصت ہوتے رہے۔ مبصرین نے ایک فارمولا تراش لیا کہ منتخب نمائندوں کو غیر منتخب اداروں نے چلنے نہیں دیا۔ حقیقت یہ تھی کہ وہ وزارتِ عظمیٰ کو اپنا پیدائشی حق تصور کرتے رہے۔ تربیت کی بات کا تمسخر اُڑاتے رہے۔ دوسرے شعبے مضبوط ہوتے رہے۔

ہم اپنے صحافتی دَور میں بعض اوقات کوشش کرتے تھے کہ ایسے سیمینار منعقد کیے جائیں جن میں ہر مرکزی موضوع کے ذیلی موضوعات بھی متعین ہوں۔ مختلف مقررین اپنی تیاری صرف ان موضوعات تک محدود رکھیں۔ غیر سیاسی شخصیتیں۔ ڈاکٹرز۔ ماہرین تعلیم۔ انجینئرز اس سے اتفاق کرلیتے تھے۔ لیکن بڑے چھوٹے سیاستدان اسے اپنی توہین سمجھتے تھے اور کہتے تھے ہمیں آپ پابند نہ کریں۔ کیونکہ وہ تیاری کرنا ہی نہیں چاہتے۔

اب بھی سیاسی پارٹیوں میں یہی منظر دیکھنے میں آتا ہے۔ اس وقت پی ٹی آئی تو ساری سرکاری ایوانوں میں گم ہوگئی ہے کہیں بطور سیاسی پارٹی نہیں ملتی ہے۔

جن جمہوریتوں میں حکومت میں آنا ملک چلانے کے لئے ہوتا ہے۔ وہاں سیاسی پارٹیاں اپنے عہدیداروں اور کارکنوں کو باقاعدہ مختلف شعبوں کی تربیت دلواتی ہیں۔ برطانیہ کا ایک واقعہ اکثر سنا ہے کہ جان میجر جب وزیر اعظم تھے اور ٹونی بلیئر کی پارٹی زور پکڑ رہی تھی۔ پورا یقین تھا کہ اب ان کی حکومت آئے گی تو جان میجر نے ان کو خط لکھا کہ اب جب آپ کی پارٹی بر سر اقتدار آنے والی ہے ہم دیکھتے ہیں کہ گزشتہ 12سال سے آپ کی پارٹی انتظامیہ میں نہیں رہی آپ کے کسی بھی عہدیدار کو حکومت کا تجربہ نہیں ہے۔ اس لئے حکومت آپ کو تربیت کورسز کی پیشکش کرتی ہے کہ یہ ملک کے مفاد میں ضروری ہے۔ آپ کچھ اعلیٰ عہدیدار نامزد کریں۔ ایک اور امر واضح رہے کہ آپ حکومت میں نہیں ہیں۔ اس لئے اس تربیتی کورسز کی فیس آپ کو ادا کرنا ہوگی۔

ہمارے ہاں سیاست میں ریاست محور و مرکز نہیں ہے۔ اس لئے ریاست کو چلانے کی تربیت۔ فہم ضروری نہیں ہے۔ نتیجہ جمہوریت لڑکھڑاتی رہتی ہے۔ سرکاری شعبوں میں ہونے والے نت نئے آزمائشی تجربے۔ انہیں غیر مستحکم کردیتے ہیں۔ ایسے بچگانہ اقدامات اور بے سوچے سمجھے کیے جانے والے فیصلوں کی وجہ سے ہی اداروں کالجوں یونیورسٹیوں کو سیاست سے پاک رکھنے کی بات کی جاتی ہے۔ پولیس میں سیاسی مداخلت کو سب ناپسندیدہ کہتے ہیں۔ فوج بھی سیاسی مداخلت پسند نہیں کرتی۔ کیا سیاستدانوں نے اس تصوّر کو ختم کرنے کے لئے کچھ کیا کہ ان کا شعبہ سیاست ناپسندیدہ کیوں ہوتا جارہا ہے۔

غور تو کریں نوبت یہاں تک کیوں پہنچی ہے۔ آج کل جو اعلانات ہورہے ہیں۔ خواب دکھائے جارہے ہیں ۔ کھلونے دے کر بہلایا جارہا ہے۔ گورنر تو اسی اشرافیہ نے بننا ہے۔ عام پاکستانی گورنر ہائوس کو اندر سے دیکھنے کو ہی اپنی جمہوری جدو جہد کا ثمر سمجھ کر خوش رہے۔ آپ کا کیا خیال ہے۔ تربیت ضروری ہے یا نہیں؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین