• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی کابینہ نے ’’ مشکل فیصلے ‘‘ نہیں کیے ، جن کی توقع کی جارہی تھی ۔ گیس اور بجلی مہنگی کرنے اور ٹیکسوں میں اضافے سے متعلق فیصلے نہیں کیے گئے ۔ اگلے روز وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس منعقد ہوا ۔ میڈیا کی نظریں خصوصاً اس اجلاس پر لگی ہوئی تھیں کیونکہ یہ توقع کی جا رہی تھی کہ کابینہ گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرے گی اور مزید ٹیکسوں کا بوجھ بھی لوگوں پر ڈال دے گی لیکن اجلاس سے اس طرح کی کوئی خبر نہیں ملی ۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے اجلاس کے فیصلوں کے بارے میں جو تفصیلات بتائیں ، ان پر میڈیا نے توجہ نہیں دی ۔ صرف اس بات کو بڑی خبر بنا کر پیش کیا گیا کہ بجلی اور گیس مہنگی نہیں ہوئی ۔ اس حوالے سے کئی سوالات پید ا ہوئے ہیں ۔ کیا وفاقی کابینہ کو مشکل فیصلے کرنا تھے ؟ کیا ان فیصلوں کو موخر کیا گیا ہے اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت یہ مشکل فیصلے کب تک موخر کرتی رہے گی ؟

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ملک کے معاشی حالات بہت خراب ہیں ۔ پاکستان کی حکومتیں اپنی مرضی کے فیصلے کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتی ہیں ۔ ان کے پاس کچھ کرنے کا اگر کوئی آپشن ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ مزید خرابی نہ ہونے دی جائے ۔ ماضی کی حکومتوں نے یہ کام بھی نہیں کیا اور بگاڑ میں اضافہ ہوتا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان ایک ملک کے حکومتی سربراہ کی حیثیت سے یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ حکومت چلانے کے پیسے بھی نہیں ہیں ۔ وزیر اعظم کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان تین ہزار ارب روپے کا مقروض ہے اور روزانہ 6 ارب روپے سود کی مد میں ادا کرتا ہے ۔ وزیر اعظم کے اس اعتراف سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حکومت کب تک ’’ مشکل فیصلوں ‘‘ سے گریز کرے گی ۔

پاکستان ایک ’’ مقروض سیکورٹی اسٹیٹ ‘‘ ہے ۔ ایک طرف اقتصادی پالیسیاں ان عالمی مالیاتی اداروں کی ’’ ڈکٹیشن ‘‘ پر بنائی جاتی ہیں ، جو ہمیں قرضہ دیتے ہیں اور دوسری طرف خارجہ اور داخلہ پالیسیاںسیکورٹی معاملات کے تابع ہوتی ہیں ۔ سیاسی قیادت اگر اپنی مرضی کی پالیسیاں دینا بھی چاہے تو اس سسٹم میں وہ پالیسیاں قابل عمل نہیں ہوتی ہیں ۔ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے زیادہ تر غریب اور ترقی پذیر ممالک اس جال میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ اگر سیاسی قیادت نے اس جال سے نکلنے کی کہیں کوشش کی تو اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا ۔ اس حوالے سے پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی مثال دی جاتی ہے ۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں تیسری دنیا کی حکومتوں کو فیصلے ماننا پڑتے ہیں ۔ عالمی مالیاتی ادارے ہمیں جو ’’ ترقی کا ماڈل ‘‘ بنا کر دیتے ہیں ، وہ ہمارے جیسے ملکوں میں مزید غربت اور معیشت کی مزید تباہی کا سبب بنتا ہے ۔ اس لیے کسی نے عالمی مالیاتی اداروں کو ’’ غربت کے آقا ‘‘ کا نام دیا ہے ۔ یہاں ایک واقعہ کا ذکر بے محل نہ ہو گا ۔ نگران وزیر اعظم ملک معراج خالد نے ایک مرتبہ کراچی میں کسی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے معاشی بحران پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور بتایا تھا کہ عالمی بینک نے اس بحران کا ذمہ دار بے نظیر بھٹو حکومت کی پالیسیوں کو قرار دیا ہے ۔ ملک معراج خالد کے اس خطاب سے ایک متنازع جملہ بھی اخبارات میں شہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہوا تھا کہ ’’ ہم نے عالمی بینک کو یقین دہانی کرا دی ہے کہ آئندہ بے نظیر بھٹو کی حکومت نہیں بنے گی ‘‘ ملک معراج خالد نے اگرچہ اس جملے کی تردید کر دی تھی لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو نے ان کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کر دی تھی ، جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ نگران وزیر اعظم نے انتخابات سے پہلے فیصلہ سنا دیا ہے ۔ لہٰذا عام انتخابات منصفانہ نہیں ہوں گے ۔ اس پٹیشن پر کبھی فیصلہ نہیں ہوا ۔ اس واقعہ سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تیسری دنیا کے ملکوں کی سیاست میں عالمی مالیاتی اداروں کا کردار کیا ہوتا ہے۔

تحریک انصاف کی موجودہ حکومت پر بجلی اور گیس کے نرخ بڑھانے اور ٹیکسوں میں اضافے سے متعلق مشکل فیصلے کرنے کے لیے یقیناًدباؤ ہو گا ۔ ریاستی اور حکومتی امور چلانے کے لیے پیسہ بھی تو چاہئے ۔ تحریک ا نصاف کی حکومت سادگی اختیار کرنے اور کفایت شعاری کے لیے جو اقدامات کر رہی ہے ، اس کے پاس کرنے کی گنجائش صرف اتنی ہے ۔ ماضی کی جمہوری حکومتوں نے یہ بھی نہیں کیا ۔ سیاسی رہنماؤں کو شاہانہ طرز زندگی زیب نہیں دیتا ۔ ایوان صدر ، پرائم منسٹر ہاؤس ، گورنر ہاؤسز ، چیف منسٹر ہاؤسز ، وزراء ، ارکان پارلیمنٹ اور بیورو کریسی پر جتنے اخراجات ہوتے ہیں ، وہ پاکستان جیسا مقروض ملک برداشت نہیں کر سکتا ۔ اگرچہ ان اقدامات سے پاکستان کے سارے معاشی مسائل حل نہیں ہوں گے لیکن مزید بگاڑ کا عمل رک سکتا ہے اور ہم بہتری کی جانب گامزن ہو سکتے ہیں ۔ ہمارے پاس فی الوقت صرف یہ کرنے کی گنجائش ہے کہ ہم اپنے اخراجات کم کریں ۔ غیر منافع بخش اور معیشت پر بوجھ اداروں کو منافع بخش بنائیں یا ختم کریں اور مزید قرضہ نہ لیں ۔ ان اقدامات کے اگرچہ فوری اثرات نظر نہیں آئیں گے لیکن کچھ عرصے بعد یہ محسوس ہو گا کہ یہ انقلابی اقدامات ہیں ۔ جس جال میں پاکستان جیسے ممالک پھنسے ہوئے ہیں ، اس سے نکلنا آسان نہیں ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے ان اقدامات سے ہماری جکڑ بندیاں آہستہ آہستہ کم ہو سکتی ہیں ۔ ان اقدامات کو نمائشی یا سیاسی اقدامات نہیں کہا جا سکتا ۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے بے جا اخراجات ختم کریں ۔ یہی ہماری نجات کا راستہ ہے ۔ سامراجی اور سرمایہ دارانہ نظام کو صرف سیاسی طور پر للکارنے اور اپنی خامیوں کو دور نہ کرنے سے یہ اقدامات بہتر ہیں ۔ ہاں موجودہ حالات میں تحریک انصاف کی حکومت مشکل فیصلے بھی مجبوراً کر سکتی ہے ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین