• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگلے روز ایک وزیر کو میر خلیل الرحمٰن میموریل سوسائٹی (جنگ) کے سیمینار میں مدعو کرنے کے لئے فون کیا تو فون پی ٹی آئی کے وزیر کے پی ایس او نے اٹھایا۔ ہمیں بڑی حیرت ہوئی کہ موصوف اس سے قبل پنجاب میں ن لیگ کے ایک وزیر کے ساتھ دس برس تک رہے اور وہ وزیر جس بھی محکمے میں گیا وہ پی ایس او ان کے ساتھ دم چھلے کی طرح ساتھ ساتھ رہا جبکہ پچھلے دس برس کیا 35برس سے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت رہی ہے۔ اور پچھلے پانچ برسوں میں تو مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے پنجاب اور مرکز میں جو ’’کارہائے‘‘ نمایاں انجام دیئے ہیں وہ پوری قوم کے سامنے ہیں۔ خیر اس پر آگے چل کر بات ہو گی ہم نے پی ٹی آئی کے اس نئے وزیر کے پرانے پی ایس او سے پوچھا کہ بھئی پی ٹی آئی والے تو کسی پی اے اور پی ایس او کو جس نے ن لیگ کے وزیر کے ساتھ کام کیا ہو اس کو اپنے پرسنل اسٹاف میں نہیں رکھ رہے، آپ کے پاس کون سی گیدڑ سنگھی ہے۔ اس پر پی ایس او موصوف بولے جناب وزیر موصوف کو کیا پتہ؟ اصل میں پچھلے دس سال تو میں ہی اس محکمے کے سارے معاملات کو دیکھ رہا تھا اور اس وزیر کو بھی میں ہی سب کچھ گائیڈ کرتا تھا کیونکہ اس محکمے سے وابستہ تمام لوگ جتنا مجھے جانتے ہیں اتنا کسی کو بھی نہیں جانتے۔ اس پی ٹی آئی کے وزیر کو بھی میں نے ہی گائیڈ کرنا ہے۔ کوئی بھی وزیر اپنے پی ایس او (پرسنل اسٹاف آفیسر) اور پی اے کے بغیر نہیں چل سکتا۔ یہ بات طے شدہ ہے اور جب کوئی وزیر اپنے محکمے کا پہلی مرتبہ سربراہ بنتاہے تو اس کو تو بالکل کچھ علم نہیں ہوتا۔ اصل میں پی ایس او اور پی اے ہی وزیروں کو چلاتے ہیں حتیٰ کہ فائلوں پر نوٹ تک لکھنا بھی پی ایس او سکھاتے ہیں۔ کئی ایسے وزیر بھی رہے ہیں جو اپنے اسٹاف کے نوٹ پر ہی دستخط کر دیا کرتے تھے۔ جس ملک کے وزیروں کو ان کے پی ایس او یا پی اے چلائیں گے تو پھر بن گیا نیا پاکستان۔ اس وقت پنجاب کی بے شمار اسامیوں پر وہی پرانے چہرے براجمان ہیں۔ اب ان کی وفاداریاں ن لیگ کے ساتھ رہتی ہیں یا تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ، اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا۔ دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ جو آفیسر کل تک شہباز شریف کے گن گاتے تھے آج عمران خان کو دنیا کا بہترین انسان قرار دے رہے ہیں۔ ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر تو اٹھتے بیٹھتے یہ کہتے رہتے ہیں کہ وہ تو جب طالب علم تھے تب سے عمران خان کے کرکٹ کھیلنے کے انداز کے دیوانے تھے۔ مگر ایک بات طے شدہ ہے کہ جو آفیسرز اپنی اپنی اسامیوں پر یا پھر نئی اسامیاں پیدا کر کے بیٹھ گئے ہیں تو انہوں نے یہ پیغام اس ملک کے بے وقوف ووٹروں کو دے دیا ہے کہ وہ کتنے طاقتور اور اثر و رسوخ والے ہیں اور انہوں نے عوام اور وزیروں کے درمیان پھر فاصلے پیدا کر دیئے ہیں۔ صاحب میٹنگ میں ہیں، صاحب سے ملاقات نہیں ہو سکتی، فائل نہیں مل رہی، آج فائل صاحب نے نہیں پڑھی، صاحب کل ملیں گے، اندر سیکرٹری صاحب، ایم پی اے، ایم این اے بیٹھے ہیں۔ یہ ساری چکر بازیاں نئے پاکستان میں کچھ پرانے اور کچھ نئے کھلاڑیوں کے ساتھ شروع ہو چکی ہیں۔ کہتے ہیں کہ سو دن میں پاکستان بدل جائے گا، سو دن تو کیا کئی سو دن بھی آ جائیں کچھ خاص نہیں ہوگا۔روایتی اسٹاف، روایتی افسروں، بیورو کریسی اور دیگر محکموں کے دیمک زدہ چہروں کے ساتھ تو نیا پاکستان کبھی نہیں بنے گا۔ آج پاکستان کی سیاست اور سرکاری محکموں میں بے شمار دیمک موجود ہے جو اس ملک کو کھا رہی ہے۔ لاہور کالج کی وائس چانسلر ڈاکٹر فرخندہ منظور (جنہوں نے دیمک پر پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے) کے بقول ’’دیمک کی ساڑھے تین ہزار اقسام ہیں۔‘‘ ہمارے خیال میں پاکستان کے ہر محکمے میں یہ اقسام موجود ہیں۔ ہمارے ملک کا سسٹم دیمک زدہ ہے۔ ہر اچھی روایت، اقدار کو مفادات کی دیمک کھا گئی۔ ماضی میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں پورے سسٹم میں کرپشن کی ایسی دیمک چھوڑ گئے ہیں جس نے پورا نظام مفلوج کر دیا ہے۔ ارے بابا پندرہ دن گزر چکے ہیں۔ پیچھے 85دن رہ گئے ہیں۔ کہا گیا کہ ہم بچت کریں گے یہ کیسی بچت ہے کہ پنجاب میں پھر 45وزیر بنا دیئے۔ 5 مشیر اور 5معاونین خصوصی بھی بنا دیئے اور وفاقی کابینہ میں بھی 28وزیر ہو گئے۔ اب ان وزراء کی گاڑیوں، پٹرول، گھروں کے کرایوں، موبائل فونز کے بل، ہوائی سفر کے اخراجات، بجلی، پانی اور گیس۔ ایک طرف یہ کہنا ہے کہ ملک کے خزانے کی صورتحال کچھ ٹھیک نہیں تو دوسری طرف وزیر پہ وزیر اور مشیر پہ مشیر بنائے جا رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ صرف عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کے گانے ہی میں نیا پاکستان بنے گا۔

مسلم لیگ (ن) کے سابق وفاقی وزیر احسن اقبال فرماتے ہیں کہ ہم نے بارہ ہزار میگاواٹ بجلی کے لئے اور پتہ نہیں کن کن منصوبوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے تو کسی سے چندے نہیں مانگے تھے۔ حضور والا آپ ہی کے نواز شریف نے قرض اتارو ملک سنوارو میں اوورسیز پاکستانیوں سے لاکھوں ڈالرز مانگے تھے، آپ نے بھیک نہیں مانگی بلکہ باہر سے قرضے لے کر پوری قوم کو بھکاری بنا دیا۔ 250ارب کا قرضہ لے کر اورنج ٹرین بنانا، بالکل درست تھا؟ اور وہ اورنج ٹرین آج تک نہیں چل سکی۔ قرضے لے کر سڑکیں بنانا درست تھا؟ ۔پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بالکل درست کہا ہے کہ ڈیم کے لئے بھیک مانگنے کا طعنہ دینے والوں کو شرم آنی چاہئے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اسحاق ڈار کو ملک واپس لانے کے لئے ریاست پر زور دیا اور کہا کہ کیا ریاست ایک اشتہاری کو وطن واپس نہیں لا سکتی۔ پاکستان کی معیشت کو اسحاق ڈار نے تباہ و برباد کر دیا اور اگر حکومت نے ان کی پاکستان میں جائیدادیں واقعی ضبط کی ہیں تو ان کو نیلام کر کے اس کے پیسے بھی ڈیم فنڈ میں دے دیئے جائیں۔ دوسری طرف بڑے میاں صاحب اگر آپ واقعی اس ملک اور قوم کے ساتھ مخلص ہیں تو پھر آپ کو چاہئے کہ دنیا کے جن جن ممالک میں آپ کی جائیدادیں ہیں ان میں سے نصف فروخت کر کے ان کے پیسے ڈیمز میں ڈال دیں ۔ آپ اپنے پورے اقتدار کے زمانے میں ایک بھی ایسا اسپتال نہیں بنا سکے جہاں پر آپ کی اہلیہ کا علاج ہو سکتا۔ بڑے میاں صاحب اب بھی وقت ہے کہ اس غریب قوم کی دعائیں لیں اور بددعائوں سے بچیں۔

پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے بھی میاں شہباز شریف کی راہ پر چلتے ہوئے اچانک راولپنڈی کچہری کا دورہ کر ڈالا اور سرکاری افسروں کو کہا کہ وہ قبلہ درست کر لیں، روش نہ بدلی تو تادیبی کارروائی ہو گی۔ سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ جب وزیر اعلیٰ راولپنڈی کچہری پہنچے تو سوائے ایک خاتون اے ڈی سی جی ملیحہ جمال کے سارا عملہ جن میں کمشنر، ڈی سی، اے ڈی سی جی رجسٹرار، سپرنٹنڈنٹ اور دیگر عملہ دفاتر سے غائب تھا۔ محترم عثمان بزدار سیکرٹریٹ بھی جا کر دیکھ لیں افسروں کی اکثریت غائب ہو تی یا پھر میٹنگ میٹنگ کھیل رہی ہوتی ہے۔ کچھ تو عدالتوں میں حاضری کا کہہ کر پورا پورا دن غائب رہتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ صاحب آپ کہتے ہیں کہ دفاتر میں پرچی سسٹم ختم کر دیا گیا ہے۔ جناب آج بھی سیکرٹریٹ کے دروازے غریبوں پر بند ہیں۔ آج بھی سیکرٹریوں، ایڈیشنل سیکرٹریوں اور ڈپٹی سیکرٹریوں کا اسٹاف انتہائی بری طرح عوام کو ذلیل کرتا ہے۔ یقین نہ آئے تو آپ وقتاً فوقتاً بغیر اپنے پی اے اور سیکرٹری کے براہ راست مختلف دفاتر میں سائل بن کر فون تو کر کے دیکھیں ساری صورتحال آپ کے سامنے آ جائے گی۔

تازہ ترین