• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رئیس فروغ مرحوم نے کیا خوب کہا تھا

لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں

اک برائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں

اوراچھے لوگوں کی قدر ہر مکتب فکر کے لوگوں میں یکساں ہوتی ہے۔بیگم کلثو م نواز شریف کی شخصیت بھی ایسی ہی تھی، یہی وجہ ہے کہ اُن کی نماز جنازہ میں ہر شعبے اور ہر مکتب فکر کے لوگوں نے ہزاروں کی تعداد میں شرکت کی۔اور اُنہیں عقیدت اور محبت کے مشرقی اقدار کے ساتھ رخصت کیا۔ اُن کی رحلت پر ملک بھر میں یکساں اظہار رنج وغم کیا گیا۔اور اُن کی سیاسی جدوجہد کی طرح ، مشرقی روایات سے اُن کے وابستگی ، شرافت اور متانت کا پورے ملک میں ذکر ہوتا رہا،یہی وجہ ہے کہ قطع نظراس کہ وہ ایک بڑے سیاسی خانوادے سے تعلق رکھتی تھیں،اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کی سب سے زیادہ خاتون اول رہنے کا اگرچہ اعزاز بھی اُنہی کے پاس رہا ،لیکن مختلف مراتب کے باوصف اُن کی زندگی کا مخصوص مشرقی طرز و انداز جس نے مشرقیت کے تمام جوہر سمیٹے ہوئے تھے ، لوگوں کی نظر میں رہا۔یوں عوام و خواص نے اُن کی موت کا غم یوں محسوس کیا گویا اُن کے اپنے گھرانے کا کوئی فرد اُن سےجدا ہوگیا ہے۔عام طور پر سیاسی شخصیات کے جنازے بڑے ہوتے ہیں،اور تعزیت کیلئے بھی تانتا بن جاتا ہے،بیانات بھی دکھ کے اظہار سے لدے ہوتے ہیں۔لیکن اکثر ایسا رسمی و روایتی طور پر ہوتا ہے۔بہت کم کم لوگ ہوتے ہیں ،جن کی جدائی کا احساس کسی دکھاوے کے بغیر بے ساختہ انسانی تن ومن میں پھیل جاتا ہے۔راقم کی یہ رائے ہے کہ بیگم کلثوم نواز کی موت کو ملک بھر میں اسی نگاہ سے دیکھا اور محسوس کیا گیا۔ بنابریں سیاسی طور پربھی یہ ایک ملکی سانحہ ہی قرار پایا ، یہی وجہ ہے کہ ملک بھر کے سیاسی و مذہبی رہنمائوں نے اس میں اپنی شرکت کو یقینی بنایا۔نماز جنازہ معروف عالم دین مولانا طارق جمیل نے پڑھائی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف خود گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے مولانا طارق جمیل کو لیکر وہاں آئے۔نوازشریف صاحب کے خود ڈرائیونگ کرنے سے یہ بات بھی عیاں ہوتی ہے کہ وہ اس پہاڑ جیسے غم تلے بھی خود کو سنبھالے ہوئے تھے،اور اس عمل سے ظاہر ہورہا تھا کہ من کی دنیاخواہ ریزہ ریزہ ہی کیوں نہ تھی ، لیکن وہ دکھانایہ چاہتے تھے کہ غموں کے ہر طر ف برپا میلوں میں بھی وہ پورے اوسان میں ہیں۔ یہ کوئی انہونی واقعہ نہیں ، لیکن آپ اور ہم جانتے ہیں کہ جن آزمائشوں سے اس وقت میاں صاحب گزررہے ہیں، بہرصورت ایک انسان ایسے موقع پر نڈھال ضرور ہوجاتاہے، لیکن میاں صاحب اس منظر میں فعال نظر آئے۔اس عمل کا اساسی مقصد قطعی طور پر ہماری فکر سے باہر نہیں کہ وہ مولانا طارق جمیل کی تکریم کو مد نظر رہتے ہوئےخود اُنہیں جنازہ گاہ لے آئے ۔اس سے بھی مگر عیاں تو یہی ہوتا ہے کہ ا عصاب کس طرح اُن کے قابو میں تھے کہ وہ اپنی خاندانی روایات کو نبھانے سے قاصر نہیں رہے۔بلا مبالغہ ایسے مواقع پر جب آپ طویل سزا کاٹ رہے ہوں،اور جیل سے سیدھے غم کدے میں آئے ہوں۔پھر بھی مگر پورے سلیقے سے دستور نبھارہے ہوں ، تو پیغام یہ عام ہوجاتا ہے کہ مصائب وآلام خواہ بڑھتے ہی رہے ہیں،لیکن استقامت کا جوہر اب بھی اپنے کمال پر ہے۔مختصر یہ کہ یہ منظر نامہ اُن لوگوں کو یاد دلاتاہےکہ جو چاہتے ہیں کہ میاں صاحب ٹوٹ جائیں،یہ کہ وہ ٹوٹے نہیں ہیں۔اور ایسے موقع پر بھی مخالفین کو شرمسار کرنے کیلئے فولادی عزم کا اظہار بقول باقی صدیقی کرجاتے ہیں۔

وقت کے پاس ہیں کچھ تصویریں

کوئی ڈوبا ہے کہ ابھرا دیکھو

اور جب میدان کارزار میں ایسے لوگوں سے بھی واسطہ پڑا ہو ، جو آپ کو کم تر یا جھوٹا ثابت کرنے کیلئے اقدار کی ہر سیڑھی گرانا چاہتےہوں، توایسے لوگوں کا جواب ہمت و عزم کے اعلیٰ پیمانے ہی ہوتے ہیں۔آپ اور ہم نے کلثوم نواز مرحومہ کی بیماری کے وقت دیکھا کہ میاں صاحب کے مخالفین نے کیاکیا ڈرامے تراشے۔ان ڈراموں کے کردار اپنی اداکاری کے تمام جوہر اس خاطر بروئے کار لاتے رہے کہ عوام کی نظر میں اس بیماری کو مصنوعی و سیاسی ظاہر کرکے یہ باور کرایا جائے کہ میاں صاحب اس سے سیاسی فائدہ یا عدالتی ریلیف حاصل کرنا چاہتے ہیں۔مشرقی و اسلامی اقدار میں سخت سے سخت مخالف کیلئے ایسے موقع پر اظہارہمدردی اگر نہ بھی پائی جاتی ہو، توتمسخر نہیں اُڑایاجاتا۔یہ صرف ہماری اقدار نہیں ہیں،دنیا کے کسی بھی معاشرے میں ایسے نہیں ہوتا۔لیکن ہمارے ہاں اعتزاز حسن جیسے کئی پتھر دل تھے ،جنہوں نےاقدار کی پامالی میں اپنا بھرپور حصہ ڈالا۔سید رند لکھنوی نےشاید ایسے ہی لوگوں کیلئے کہا تھا۔

کتنے دل تھے جو ہو گئے پتھر

کتنے پتھر تھے جو صنم ٹھہرے

خلاصہ یہ ہے کہ جہاں ایک طرف کلثوم نواز مرحومہ کے جناز ے سے پہلے اور بعد میں لوگ مرحومہ کی شرافت، متانت ،وفاشعاری اور ان کی جنرل پرویزمشر ف کی آمریت کے خلاف صبر آزما جدوجہد کا تذکرہ کررہے تھے،تو دوسری طرف وہ لوگ بھی موضوع بحث رہے ، اور رہیں گے ،جنہوں نے مرحومہ کی بیماری کو ڈرامہ قرار دیکر ہماری اقدار کا جنازہ نکال دیا تھا۔جہاں تک آمریت کیخلاف مرحومہ کی جدوجہد کا واقعہ ہے ،تو سب جانتے ہیں کہ 12اکتوبر1999کو جب پرویز مشرف نے مسلم لیگ کی حکومت کا خاتمہ کرکے ملک پرآمریت مسلط کی ،میاں نوازشریف پابند سلاسل ہوئےاور بڑے بڑے مسلم لیگی سورما سجدہ ریز ہوگئے۔جب کئی ایسی سیاسی جماعتیں جو میاں نوازشریف کا سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے کی ہمت ہار چکی تھیں، اُنہوں نے یا تو مٹھائیاں تقسیم کیں اور یا پھر خاموشی ہی کو تر جیح دی۔یوں دور دور تک سیاسی منظرنامہ پر کوئی آمر ِوقت کو للکارنے والا نہ تھا کہ ایسے میں کلثوم نواز سیاسی اُفق پر نمودار ہوئیں،اور کلمہ حق بلند کیا۔وہ اپنی جدوجہد میں کس قدر کامیاب ہوئیں،اس دوران میاں صاحب نے ڈیل کیوں اور کن مجبوریوں یا مصلحتوں کے تحت کی ۔ جمہوریت کیلئے یہ سودا کس قدر زیاں کا سبب ٹھہرا۔یہ اور ان جیسے نکات پر کافی بحث ہوچکی ہے ۔لیکن ایک بات جو روز روشن کی طرح عیاں ہے، وہ یہ ہے کہ تاریخ ایک آمر کو چیلنج کرنے اور اپنے شوہر کی جماعت کی شیرازہ بندی کے آگے پُل باندھنے کےحوالے سے جرات،صبر و استقامت سے مزین کلثوم مرحومہ کے کردار کو فراموش کرنہیں پائے گا۔ آج اُس سے بھی خوفناک حالات کا میاں صاحب کو سامناہے لیکن وہ ،اُن کی نڈر بیٹی اور وفا پرست ساتھی جس طرح اب تک مقابلہ کرتے آئے ہیں۔وہ اس امر کا مظہر ہے کہ اس بار ’ہار‘ ممکن ہے’ ہار‘ جائے۔مرحومہ اپنی بیماری کی وجہ سے ان تمام کٹھن حالات سے بے خبر رہیں جو ان کے پیاروں پر بیت رہے ہیں ۔لیکن وہ اگر یہ سارا کچھ دیکھ بھی پاتیں،تو وہ ان کیلئے نئی توانائی کا سامان بن جاتیں،اور میاں صاحب اور ان کی جی دار بیٹی نےجومزاحمتی کردار ادا کیا ، اور کررہے ہیں،وہ ان کے ایسے رندانہ جذبوں کو مہمیز دیتے ہوئے یقین کامل ہے، یہی کہتیں ۔

موت خاموشی ہے چپ رہنے سے چپ لگ جائے گی

زندگی آواز ہے باتیں کرو باتیں کرو

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین