• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
علی ارشد حکیم نے چند ماہ قبل فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے نئے چیئرمین کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھالی ہے۔اس سے پہلے وہ نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی(نادرا) کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ان دونوں اداروں کے باہمی اشتراک سے ٹیکس چوروں کے حوالے سے کچھ اعداد و شمار اکٹھے کئے ہیں۔ ان اعداد و شمار کے مطابق پیشے کے لحاظ سے تاجر سب سے زیادہ ٹیکس چور ہیں۔ ان ٹیکس چوروں کی تعداد 62779 ہے۔ جبکہ ٹیکس چوروں میں دوسری پوزیشن کنٹریکٹرز کی ہے ان کی تعداد 36270 ہے۔ 17853 ٹیکس چوروں کا تعلق امپورٹ اور ایکسپورٹ کے شعبے سے ہے اور تعداد کے لحاظ سے ان کی پوزیشن تیسری ہے۔13531 ٹیکس چوروں کا تعلق جنرل اسٹورز کے ہول سیلرز سے ہے اسی طرح 10728 ٹیکس چوروں کا تعلق جیولرز کے پیشے سے ہے۔10105 ٹیکس چور ایسے ہیں جن کا تعلق اسمال انڈسٹریز سے ہے۔کنسٹرکشن انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے ٹیکس چوروں کی تعداد 9569 ہے۔ ٹیکس چوروں میں بھاری فیسیں وصول کرنے والے 9330 ڈاکٹرز بھی ہیں جو ٹیکس چوروں میں آٹھویں پوزیشن پر ہیں، نویں پوزیشن پر ٹریول ایجنٹس اور دسویں پوزیشن پر پٹرول اور سی این جی اسٹیشنوں کے مالکان ہیں ان کی تعداد بالترتیب 5426 اور 3766 ہے۔
شہروں کے حوالے سے کراچی ٹیکس چوروں کے حوالے سے پہلے نمبر پرہے۔326144 ٹیکس چوروں کا تعلق شہر قائد سے ہے۔لاہور دوسرے نمبر پرہے۔جہاں ٹیکس چوروں کی تعداد 238050 ہے، تیسری پوزیشن وفاقی دارالحکومت کے جڑواں شہر راولپنڈی کی ہے۔ جہاں ٹیکس چوروں کی تعداد 117639۔چوتھی پوزیشن صنعتی شہر فیصل آباد کی ہے، جہاں ٹیکس چوروں کی تعداد 101422 ہے، کھیلوں کا سامان اور آلات جراحی بنانے کے حوالے سے معروف شہرسیالکوٹ ٹیکس چوروں کے اس اعداد و شمار میں پانچویں نمبر پرہے جہاں 97391 ٹیکس چور رہتے ہیں، اسی طرح گوجرانوالہ، گجرات،ملتان، پشاور اور اسلام آباد ٹیکس چوری کے حوالے سے بالترتیب چھٹی، ساتویں، آٹھویں، نویں اور دسویں پوزیشن پر ہیں۔
ایف بی آر اور نادرا کے مشترکہ اعداد و شمار کے مطابق 24 لاکھ ٹیکس چوروں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ جس میں سے 22 لاکھ مرد حضرات ہیں اور خواتین جن کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ اکثر ورکنگ خواتین محنتی اور ایماندار ہوتی ہیں لیکن 24 لاکھ ٹیکس چوروں میں 10.2 فیصد تعداد خواتین کی ہے، اس تناسب سے دو لاکھ 40 ہزار 292 خواتین بھی ٹیکس چوری میں ملوث ہیں لیکن ایف بی آر اور نادرا نے 24 لاکھ ٹیکس چوروں کے اعداد و شمار میں ایک حیران کن بات بتائی ہے کہ 24 لاکھ میں سے 11 لاکھ ایسے ٹیکس چوروں کی ہے جن کی عمریں 18 سے 35 سال کے درمیان ہیں اور یہ ٹیکس چوروں کی کل تعداد کا 47 فیصد بنتا ہے۔ ان گیارہ لاکھ میں سے دو لاکھ 42 ہزار ایسے ٹیکس چور شامل ہیں جن کی عمریں 18 سے 25 سال ہیں۔
یوتھ ٹیکس چوروں کی یہ تعداد میرے لئے ایک دھچکا تھی۔کیونکہ ملک میں بے روزگاری کے اس سمندر میں اس وقت نوجوان جس صورتحال سے دوچار ہے وہ ہم سب جانتے ہیں۔ اور یہ بھی جانتے ہیں کہ ہمارے ملک میں اتنی کم عمر کے نوجوان کتنا کچھ بزنس کرتے ہیں کہ وہ ٹیکس بھی چوری کرنے لگے۔
میں ذاتی طور پر اپنے ایک دوست کو جانتا ہوں جو بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے بعد پاکستان میں ایک کاروبار سے منسلک ہے اور اس نے ٹیکس دینے کیلئے نہ صرف بہت سارے مسائل کا سامنا کیا ہے بلکہ ٹیکس دینے کیلئے وکیل اور اکاؤٹنٹ کی صورت میں ایک بڑی رقم بھی خرچ کرنا پڑی۔
اور میں یہ بھی نہیں مانتا کہ ہم لوگ ٹیکس نہیں دیتے بلکہ 50 سے 60 لاکھ تو تنخواہ دار طبقہ ٹیکس دیتا ہے جو خود بخود ان کی تنخواہ سے کٹ جاتا ہے۔
اچھی مالی پوزیشن والا شخص بھی براہ راست اور بالواسطہ ٹیکس دیتا ہے لیکن انتہائی کم آمدنی والا شخص بھی سال میں بے تحاشا ٹیکس دیتا ہے۔ چاہے وہ ایک لیٹر پٹرول خریدتا یا اپنے لئے ایک سگریٹ کی ڈبیا، سردرد کی گولی خریدتا ہے کہ کوارٹر لیٹر دودھ کا ڈبہ وہ ٹیکس کے ظالمانہ نظام سے بچ نہیں سکتا، ہم ہرماہ یوٹیلٹی بلز میں نہ جانے کون کون سے ٹیکس ادا کرتے ہیں اور اس میں محمود و ایاز سب شامل ہیں، دس روپے کے ایزی لوڈ سے ایک ایس ایم ایس تک میں ٹیکس شامل ہے، پھر ہمارے ٹیکس کلیکشن کی آمدنی کو ضائع کرنے کے لئے قومی خزانے میں بڑے بڑے سوراخ ہیں،جن میں واپڈا، پی آئی اے، اسٹیل ملز اور ریلویز کے محکمے شامل ہیں۔
زراعت کے شعبہ سے ہم 4 بلین ڈالرز ٹیکس کی صورت میں قومی خزانے میں شامل کرسکتے ہیں ، زراعت کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے ٹیکس بچانے کیلئے دوسرے کاروبار کی آمدنی بھی زراعت میں شو کرتے ہیں۔
اگر ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب کو دیکھا جائے تو پاکستان کا تناسب 9.5 فیصد ہے سعودی عرب کا پانچ فیصد ہے اس طرح 23 ایسے ممالک ہیں جن کا تناسب ہم سے کم ہے ۔ اپنی مس مینجمنٹ اور نا اہلی کو چھپانے کے لئے یہ شور مچانا چھوڑ دیں کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے۔جبکہ عوام بہت ٹیکس دیتے ہیں اور یہ غریب کے ساتھ بہت بڑی نا انصافی ہے کہ اسے اپنے جائز ٹیکس سے بھی زیادہ ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔مسئلہ ٹیکس اکٹھا کرنے کے طریقہ کار کا نہیں ہے، اصل مسئلہ اس پالیسی کا ہے جس کے تحت ملک میں ٹیکس اکٹھا کیا جاتا ہے اور اس کو ٹھیک کرنا بے حد ضروری ہے۔ ٹیکس اکٹھا کرنے کیلئے عوام کے اعتماد کو بڑھانا بہت ضروری ہے تاکہ عوام ٹیکس بوجھ نہیں بلکہ خدمت سمجھ کر ادا کریں۔
تازہ ترین