• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے نزدیک کراچی، جوخدا جانے کتنے کروڑ کی آبادی کا شہر ہے، نہ صرف ناقابل حکمرانی ہے بلکہ ناقابل انتظام بھی ہے جبکہ دوسروں کا خیال ہے کہ اس کا انتظام کیاجاسکتا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ کس طرح اس شہر کو سیاسی اور غیر سیاسی کھلاڑیوں کی جانب سے لوٹا اور برباد کیا گیا۔نومنتخب وزیراعظم عمران خان جو آج کراچی کے دورے پر شہر کیلئےاپنا ایک منصوبہ لے کر پہنچ رہے ہیں، اس شہر کیلئے اجنبی نہیں، اس پر عمل درآمد اس وقت تک ممکن نہ ہوگا جب تک کراچی میں شہری ایمرجنسی نافذ نہ کردی جائے۔ یہ سچ ہے کہ کراچی کی ترقی کے بغیر پاکستان ترقی نہیں کرسکتا اور کراچی اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک گند صاف نہ ہوجائے۔ وزیراعظم ایسا کرسکتے ہیں، یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے لیکن شاید وہ ہی ایسا کرسکتے ہیں اگر کرنے کی پختہ ارادہ ہو۔ گذشتہ چالیس سالوں میں اگر کسی چیز نے شہر میں ترقی کی ہے تو وہ ایک مافیا کے بعد دوسری مافیا ہے۔ یہ مافیا ایک دوسرے کا خیال رکھتی ہیں اور وزیراعظم عمران خان کو اس عنصر کو اس وقت ذہن میں رکھنا چاہیےجب انہیں ان ہی پرانے افسران کی طرف سے بریفنگ دی جارہی ہو۔ ائرپورٹ سے اسٹیٹ گیسٹ ہاوس آنے کیلئے انہیں ہیلی کاپٹر نہیں بلکہ شارع فیصل استعمال کرنا چاہیے تاکہ انہیں پتہ چلا کہ کس طرح قیمتی زمین پر تجاوزات قائم ہیں اور کس طرح یہ قیمتی زمینیں استعمال کی جارہی ہے۔ سڑک کے ایک طرف کے ایم سی ہے جبکہ دوسری جانب کنٹونمنٹ بورڈ۔ یہ وزیراعظم عمران خان کے لئے موقع ہے کہ وہ اس شہر کا قرض ادا کریں جس نے ان کی پارٹی تحریک انصاف کو 14نشستیں جیت کردیں اور جن نشستوں نے انکے بطور وزیراعظم انتخاب میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ عمران خان کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ سابقہ میئر ز اور ایڈمنسٹریٹرز جیسے ڈاکٹر فاروق ستار، مصطفیٰ کمال، نعمت اللہ، فہیم زمان، ڈاکٹر عارف حسن جیسے لوگوں سے ملیں اور شہر کے متعلق ان کے خیالات معلوم کریں۔ وہ کراچی سے متعلق اپنے منصوبے کے حوالے سے پہلے ہی مثبت پیغام دے چکے ہیں اور اب انہیں جس چیز کی ضرورت ہے وہ لوگ ہیںجو ان کے منصوبوں کو عملی جامع پہنا سکیںکیونکہ ایسے لوگ پہلے ہی موجود ہیں جن کی نظریں کام سے زیادہ پیسے پر مرکوز ہوتی ہیں۔ کراچی کو میٹروپولیٹن شہر قرار دینے سے یہ میٹروپولیٹن شہر نہیں بن جائیگا، اسے ایک چھتری تلے آناہوگا اور میئر کا براہ راست انتخاب کوئی برا خیال نہیں۔ لیکن اس سے پہلے ہمیں اس شہر کی صحیح صحیح آبادی معلوم کرنے کی ضرورت ہے ۔ 2017میں ہونیوالی مردم شماری نے یا تو کراچی یا سندھ کے ساتھ انصاف نہیں برتا۔ اس معاملے کو مشترکہ مفادات کی کونسل میں اٹھایا جاسکتا ہے۔ لہذا میں کہتا ہوں کہ وزیراعظم کو کراچی میں فوری طور پر شہری ایمرجنسی کا اعلان کردینا چاہیے اور سول سوسائٹی اور لائق افراد پر مشتمل بورڈ تشکیل دینا چاہیے جو سندھ حکومت کی مشاورت سے منصوبوں کی نگرانی کرے۔ اگر ارادہ پختہ ہو تو راہ نکل ہی آتی ہےلیکن اس مرتبہ سرخ فیتے کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ، اور ان کے کراچی سے تعلق رکھنے والے مشیر اور وزیر جیسے سعید غنی اور مرتضی وہات کی طرف سے مثبت رد عمل کی امید ہے۔ کراچی میں شہری ایمرجنسی اس لئے ضروری ہے کیوں کہ یہ منی پاکستان ہے جہاں تمام برادریاں بستی ہیںلیکن جس طرح گذشتہ پانچ دہائیوں میں اس شہر کو چلایا گیا اس نے اس شہر کو روشنی کے شہر سے کچی آبادی کے شہر میں تبدیل کردیا۔ موجودہ صورتحال میں شہر کی نصف سے زائد آبادی سات یا آٹھ ہزار کچی آبادیوں میں رہتی ہےجن میں سے اکثر شہر کے بیچوں بیچ آباد ہیں۔ مبینہ طور پر ان کچی آبادیوں کے وجود میں لانے میں ایک منظم مافیا کا ہاتھ ہے۔ کراچی میں کوئی چالیس لاکھ غیر ملکی آباد ہیں جبکہ پولیس کو شہر کی ترقی میں بہت ہی کم دلچسپی ہے۔ کراچی میں شہری ایمرجنسی لگانا اس لئے بھی ضروری ہے کیونکہ ہر وہ میگا پروجیکٹ جس سے شہر ترقی کرسکتا تھا، دس سے لے کر چالیس سال تک کی تاخیر کا شکار رہا۔ ان منصوبوں میں لیاری ایکسپریس وے اورکراچی ماس ٹرانزٹ پروگرام شامل ہیں۔ لہذاعمران خان کے ذہن میں جو بھی منصوبے ہیں اس کی تکمیل کیلئے انہیں ٹائم فریم بھی دینا چاہیے جس کی مدت تین سال سے زائد نہیں ہونی چاہیے۔ انہیں شہر کا باقاعدگی سے دورہ بھی کرتے رہنا چاہیے کیونکہ وزیراعظم نے اگلے روز خود کہا تھا کہ کراچی میں ریلوے کی زمین کا ایک ٹکڑا اروبوں روپے مالیت کا ہے۔ بعض حالات میں انہیں عدلیہ کی مدد کی ضرورت ہو گی جو پہلے ہی کراچی بد امنی کیس اور واٹر کمیشن کی صورت میں اپنا کردار ادا کررہی ہے۔ کراچی کو سرسبز بنانا شہر سے آلودگی اور گند صاف کئے بغیر ممکن نہ ہوگا۔ اس مقصد کے لئے شہر کو بڑی سائز کی بسیں اور بغیر کسی تاخیر کے سرکر ریلوے کی بحالی درکار ہےجبکہ اس کے ساتھ ساتھ گرین لائن پروجیکٹ کو فوری طور پر مکمل کرنا بھی ضروری ہے۔ شہر کے اکثر فلائی اوور اور انڈر پاس ناقص ہیں جس کے باعث ٹریفک کی روانہ متاثر رہتی ہے۔ اگر وزیراعلیٰ خود اعتراف کر چکے ہیں کہ سندھ کا بڑا مسئلہ لائق افراد کا نہ ہونا ہے تو حکومت کو کس طرح مثبت نتائج مل سکتے ہیں۔ کوئی بھی ادارہ اٹھاکر دیکھ لیں، چاہے وہ کے ایم سی ہو، کنٹونمنٹ بورڈ، ڈی ایچ اے، ایم ڈی اے، کے ڈی اے، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، فائر بریگیڈ، کے ایم سی اسکول یا اسپتال، یہ سمجھنا قطعا مشکل نہیں ہوگا کہ شہر کا اس قدر بےترتیب حال کیوں ہے۔ شہر کے حوالے سے عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں کوئی بھی فائل بغیر پیسے کے حرکت نہیں کرتی۔ کے الیکٹرک بھی وہ ادارہ ہے جہاں فوری نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اس شہر میں جس کی آبادی کروڑوں میں ہو، ملی بھگت سے پانی اور بجلی چوری کی جاتی ہے۔

تازہ ترین