• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملکی حکومتوں کا اسلامی حکومت ہونا اور کسی حکومت کے حاکم کا مسلمان ہونا دو مختلف چیزیں ہیں۔ برصغیر ہندوپاک میں چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے سربراہ مختلف مذاہب کے ہوتے رہے اور اکثر و بیشتر رعایا اور حکمراں کے مذاہب الگ الگ ہوتے تھے لیکن سمجھدار حکمراں مذہبی رواداری کا سلوک کرتے ہوئے رعایا کو خوش اور وفادار رکھتے تھے۔ انگریزوں کے قبضہ اور حکمرانی کے بعد یہ نوعیت یکسر بدل گئی۔ انھوں نے 1857 کی انکے خلاف جنگ و جدّوجہد سے ایک اہم سبق یہ سیکھا کہ اپنی توجہ صرف نظام حکومت پر رکھی اور مذہبی باتوں کو مذہبی فرقوں پر چھوڑ دیا، مثلا شادی، طلاق، وراثت، وصیت لوگوں کی مرضی سے ان ہی کے مذاہب کی روشنی میں طے ہوتی تھیں، دو بڑی قومیں، ہندو اور مسلمان کے ماہرین عدالتوں میں متعین ہوکر ان مقدمات کا فیصلہ کرتے تھے۔ نہ تو ہندو راجاؤں کے دور میں ہندو دھرم ریاست کا دھرم تھا اور نہ ہی مسلمان حکمرانوں کے دور میں اسلام سرکاری مذہب۔ مغلیہ دور میں اسلامی حکومت تھی مگر رعایا کوئی بھی ہو کسی بھی مذہب کی سرکاری طور پر پابند نہیں تھی اگر ایسا ہوتا تو پورا ہندوستان مسلمان بن گیا ہوتا۔ دنیاوی رسوم اور بیرونی اثرات نے تہذیب و تمدن پر گہرا اثر چھوڑا ہے جسکے نشانات اب تک موجود ہیں۔ مسلمانوں کی شادی میں مہندی، اُبٹنا، میت کے بعد سوئم اور چہارم ہندوؤں کی رسومات کی نقول ہیں۔ پاکستان جو مسلمانوں کو ایک آزاد ماحول، معیشت اور مذہبی آزادی کے نام پر حاصل ہوا تھا اُسے مجبوراً کسی طرح سیکولر نہیں بنایا جاسکتا تھا اور موجودہ دور میں اسلامی سخت قوانین پر عوام سے عمل کروایا جانا ناممکن سا ہوگیا ہے۔ مسلمان لیڈروں نے وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اُسے اسلامی جمہوریہ قرار دے کر دینی اور دنیاوی طبقات کو خوش تو کردیا لیکن بات ادھوری ہی رہی اور ہم نہ اِدھر کے رہے اور نہ اُدھر کے رہے۔ اَب اِنتہاپسندوں کی آرزو ہے کہ پرانا اسلامی قانون سختی سے نافذ ہو، دوسری طرف ماڈرن طبقہ اس سختی کا قائل نہیں کیونکہ صدیوں نے اسلامی قوانین سے دوری اور غفلت نے لوگوں کی عادتوں پر کافی بُرا اثر ڈالا ہے۔ یہ ذہنی کشمکش کوئی پاکستان کے قیام کے بعد پیدا نہیں ہوئی بلکہ برطانوی دور میں ہی پیدا ہوچکی تھی۔ ایک گروہ سخت مذہبی پابندیوں کا مخالف تھا تو دوسرا ماڈرن یا جدید طرز فکر کو الحاد اور بے حیائی کا نمونہ سمجھتا تھا ایسے ہی دور میں ہندوستان میں سرسیّد احمد خاں نے تعلیمی اصلاح، مولانا حالی نے تہذیب و تمدّن اور علامہ اقبال نے شاعرانہ طریقہ سے اُمّت کو نصیحتیں کی اور سب کامیاب رہے۔ علامہ اقبال کے نزدیک مومن و مسلم کے کردار کو ظاہری اور حقیقی یکساں و بے مثال ہونا چاہئے۔ عمر خیام کی ایک رُباعی کا ترجمہ بیان کرتا ہوں۔ ”ایک بزرگ نے ایک فاحشہ عورت سے کہا کہ تو بدکردار ہے نیکی چھوڑ کر بدی کا راستہ اختیار کر رکھا ہے۔ اس عورت نے جواب دیا، میرا ظاہر وباطن یکساں ہے جیسی نظر آتی ہوں ویسی ہی ہوں مگر کیا آپ بھی جیسے نظر آتے ہیں ویسے ہی ہیں، آپ کے ظاہر وباطن میں کوئی فرق نہیں ہے۔“ یہی رُباعی ایک مغیّنہ نے بہادر شاہ ظفر کے محل میں انکے پیر و مُرشد میاں کالے کے سامنے سنائی تو میاں کالے فرش پر لوٹنے لگے، سر پٹکنے لگے اور بے ہوش ہوگئے کیونکہ ظاہر وباطن کے فرق کو وہ بخوبی سمجھتے تھے اور صوفی کامل تھے۔ آج ہمارے دینی رہنما جن طلباء کے طفیل میں آرام دہ زندگی بسر کرتے ہیں ان کے منتظمین کے رہن سہن کے طریقہ کار و طعام و قیام میں بہت فرق نمایاں نظر آتا ہے۔ یہاں دینی مساوات کا فقدان نظر آتا ہے۔
بھوپال کی حکمراں شاہجہاں بیگم (نواب حمید اللہ خان کی نانی) نے ایک نہایت عالیشان مسجد، تاج المساجد، بنوانا شروع کی تھی۔ تکمیل سے پہلے وہ وفات پا گئیں۔ صرف اندرونی حصّہ مکمل تھا۔ ان کی بیٹی سلطان جہاں اور ان کے بیٹے حمید اللہ خان کو اللہ تعالیٰ نے سعادت نہیں بخشی کہ وہ مسجد کی تعمیر مکمل کرادیتے۔ ایک فرشتہ صفت شخص مولوی عمران خان (جو دیوبند کے تعلیم یافتہ تھے) نے وہاں طلبا کو درس اور بڑوں کو وعظ کرنا شروع کردیا جو رفتہ رفتہ ایک عظیم درسگاہ بن گئی۔ طلباواساتذہ کے طعام و قیام کا انتظام بھی دارلعلوم کے ذمّہ تھا۔ 1962 میں نواب حمید اللہ خان کا انتقال ہوا اور ان کی جانشین (ساجدہ سلطانہ،منجھلی بیا اور بیگم پٹودی) نے اپنے باپ کے چہلم کے موقع پر زبردست کھانے کا انتظام کیا لیکن مہمان زیادہ نہ آئے اور کھانے کی بڑی مقدار بچ گئی انہوں نے یہ کھانا دارالعلوم بھجوادیا۔ منتظم اعلیٰ نے جب کھانے کی دیگیں دیکھیں تو انھوں نے معذرت کرکے واپس بھجوادیں اور بیگم صاحبہ کو پیغام بھجوادیا کہ اگر آپ کو بچوں کا خیال تھا تو دعوت میں مدعو کرتیں، ہم بچوں کو خیرات، زکوٰة کا پسماندہ کھانا نہیں کھلاتے اور ان کو مفت خوری اور خیرات کا عادی نہیں بناتے۔ ایک دینی رہنما کا اخلاقی عمل تھا۔ آجکل خیرات و زکو ٰة، قربانی کی کھالیں وصول کرنے میں ایک ادارہ دوسرے ادارے پر سبقت لیجانا چاہتا ہے، رقم کی ناجائز طریقہ سے وصولی کے لئے سیاسی جماعتیں بھی سرگرم عمل ہوگئی ہیں۔ حکومت بھی اس ناجائز کام میں پیچھے نہیں ہے۔ زکو ٰة کی رقم سے مالدار اَصحاب اقتدار حج و عمرہ کرنے میں آگے آگے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے سامنے بھی جعلسازی سے نہیں ڈرتے۔ حمایت علی شاعر# کا یہ شعر یاد آرہا ہے۔
راہزن کی بات اور کیا کہوں کھل کر
میر کارواں یارو، میرکارواں یارو!
دینی رہنما بھی اپنے اصلی فریضہ سے بے نیاز ہوگئے ہیں۔ اسلام کے بجائے اسلام آباد کو منزل مقصود بنا لیا ہے۔بے مقصد جلسے جلوس نکال کر قوم کے لاکھوں گھنٹے ضائع کرتے ہیں عوام کو سخت تکالیف کا سامنا کراتے ہیں اور سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ کراتے ہیں، جذباتی تقریریں کرکے جاکر آرام سے پھر وہی اپنی آرام دہ محفلیں ا ورکھانے ۔ حکمران و سیاستدان تمام پولیس اپنی حفاظت کے لئے لگا لیتے ہیں اور احکام اِلٰہی کو نظر انداز کرکے (ہماری موت کا وقت اور جگہ مقرر ہے اور اس کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا اور یہ کہ اللہ کی مرضی کے خلاف ہمیں کوئی گزند نہیں پہونچا سکتا) کفرانہ رویّہ اختیار کرتے رہتے ہیں۔ کراچی میں قتل و غارتگری کو ختم کرنے کے لئے اے این پی فوج لگانے کا بار بار مطالبہ کررہی ہے مگر ایم کیو ایم اور پی پی پی کراچی پر سے اپنی گرفت کمزور کرنا نہیں چاہتے۔ اَپنے مفاد پر بے گناہ لوگوں کے قتل و عام کو ترجیح دیتے ہیں۔ بڑے سے بڑے حادثہ، ہلاکتوں پر صرف یہ کہہ کر ہاتھ دھو لئے جاتے ہیں کہ نوٹس لے لیا ہے۔ حالات اس قدر خراب ہوگئے ہیں کہ تاجر برادری جو کہیں اور نہیں جاسکتی اس بات پر مجبور ہوگئی ہے کہ بھتہ خوروں کا ماہوار بھتہ لگادے اور جان کی اَماں پائے۔ پی پی پی یہ کہتی رہتی ہے کہ ریاست کے اندر ریاست قائم نہیں ہونے دینگے اور یہ بیانات صرف عدلیہ کے احکامات کی نفی تک محدود ہیں جبکہ کراچی، کوئٹہ اور پشاور میں بھتہ خوروں، فرقہ وارانہ قاتلوں، ڈاکوؤں اور لُٹیروں کی ریاست کے اندر ریاستیں قائم کرنے کی اجازت دیدی گئی ہے اور آہستہ آہستہ ہر شعبہ میں مافیا طاقتور ہوتے جارہے ہیں اور حکومت بے بس بنی سب کچھ قبول کررہی ہے۔ اَب تو بد امنی اور دیدہ دلیری کی یہ حالت ہے کہ دہشت گرد سپاہیوں، رینجرز اور آرمی کے اہل کاروں پر کھلے عام حملہ کر رہے ہیں اور ان کو قتل کررہے ہیں۔ یہ ہے ابتدا ملک کی تباہی کا۔ یہ سلسلہ جاری رہا تو پاکستان سیرالیون و لائبریا بن جائیگا۔دیکھئے موجودہ نظام حکومت اور حکمرانوں کو اور انکے اعمال کو دیکھ کر مجھے سُورہ المائدہ کی تشریح سے متعلق حضرت اَبوبکر صدیق کا رسول اللہ صلعم کا فرمان یاد آتا ہے۔ میں یہ پہلے بھی بیان کرچکا ہوں کہ مولانا مودودی کی تفہیم القرآن میں موجود ہے ”اے ایمان والو! اَپنی جانوں کی حفاظت کرو۔ جب تم ہدایت پر ہو تو کوئی گمراہ تمھارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتا۔ تم سب کو خدا کی طرف لوٹ کر جانا ہے اس وقت وہ تم کو تمہارے سب کاموں سے جو دنیا میں کئے تھے آگا کرے گا اور ان کا بدلہ لے گا (سورہ مائدہ ۔ آیت 105 )۔ حضرت ابوبکر نے ایک خطبہ میں فرمایا تھا۔ ”لوگو تم اس آیت کو پڑھتے ہو اور غلط تاویل کرتے ہو۔ میں نے رسول اللہ صلعم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جب لوگوں کا یہ حال ہوجائے کہ وہ برائی کو دیکھیں اور اُسے بدلنے کی کوشش نہ کریں، ظالم کو ظلم کرتے ہوئے پائیں اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو بعید نہیں کہ اللہ اپنے عذاب میں سب کو لپیٹ لے۔ خدا کی قسم تم کو لازم ہے کہ بھلائی کا حکم دو اور برائی سے روکو ورنہ اللہ تم پر ایسے لوگوں کو مسلّط کردے گا جو تم میں سب سے بدتر ہونگے اور وہ تم کو سخت تکلیفیں پہونچائینگے پھر تمہارے نیک لوگ خدا سے دعائیں مانگیں گے مگر وہ قبول نہ ہونگی“ یہ (یعنی موجودہ) نظام حکومت یقینا اللہ تعالیٰ کے عذاب و عتاب کو دعوت دے رہا ہے۔
تازہ ترین