• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فیڈر۔یشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (FPCCI) کی ریسرچ اینڈ پالیسی ڈویژن نے وسط ایشیائی ریاستوں کامن ویلتھ انڈی پینڈنٹ اسٹیٹس (CIS) کے پوٹینشل پر ایک اہم رپورٹ مرتب کی اور تھنک ٹینک کے ممبر ہونے کے ناتے مجھے پیش کی گئی۔ رپورٹ میں معلوماتی ڈیٹا شیئر کیا گیا تھا جس کو پڑھ کر میں نے سوچا کہ اپنا آج کا کالم وسط ایشیائی ریاستوں کے پوٹینشل پر تحریر کروں۔

8 دسمبر 1991ء کو سوویت یونین کی تقسیم کے بعد 12 وسط ایشیائی ریاستیں وجود میں آئیں جن میں آرمینیا، آذربائیجان، بیلاروس، جارجیا، قازقستان، کرغزستان، مولدوا، روس، ترکمانستان، تاجکستان، یوکرائن اور ازبکستان شامل تھیں۔ 2008ء میں جارجیا کے CIS بلاک چھوڑنے کے بعد اب 11 ممالک CIS کے ممبرز ہیں۔ ان میں 2ممالک کے علاوہ باقی تمام اسلامی ممالک ہیں جو تیل، گیس اور معدنی ذخائر کی قدرتی دولت سے مالا مال ہیں۔ اکتوبر 1994ء میں شہید بینظیر بھٹو نے اپنے دور حکومت میں باہمی تجارت بڑھانے کیلئے CIS ممالک کے دورے کئے اور وہ مجھے بھی دو بار اپنے ساتھ ترکمانستان لے کر گئیں۔ایک بار ہم نے ترکمانستان کے یوم آزادی کی تقریبات میں پاکستانی طائفے کے ساتھ شرکت کی جبکہ دوسرے دورے میں ہمارے ساتھ ملک کے ممتاز بزنس مین شامل تھے۔ ترکمانستان میں اعلیٰ کوالٹی کی کاٹن پیدا ہوتی ہے جس کو پاکستانی بزنس مین امپورٹ کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے جنہیں دورے سے واپسی سے پہلے ترکمانستان حکومت نے ٹریڈ لائسنس جاری کئے۔ بینظیر بھٹو اکثر مجھ سے کہتی تھیں کہ CIS ممالک انرجی کوریڈور کی حیثیت سے پاکستان کی بڑھتی ہوئی بجلی اور گیس کی ضروریات کو پورا کرسکتے ہیں۔ اکتوبر 1997ء میں وزیراعظم نواز شریف نے ترکمانستان کا دورہ کیا جس کے بعد ترکمانستان کے صدر ECO کانفرنس میں شرکت کیلئے پاکستان آئے۔ مارچ 2011ء میں تاجکستان کے صدر نے تاجک بزنس مینوں کے ساتھ اسلام آباد اور کراچی کا دورہ کیا اور پاکستانی بزنس مینوں کو تاجکستان آنے کی خصوصی دعوت دی جس کیلئے میں فیڈریشن کے صدر، TDAP کے چیف ایگزیکٹو اور پاکستان میں تاجکستان کے سفیر کے ساتھ مل کر 118 بزنس مینوں پر مشتمل وفد کو 30 مئی سے 3جون 2011ء کو پی آئی اے کے چارٹرڈ طیارے میںتاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے لے کر گیا۔ پاکستانی بزنس مینوں کے وفد میں ٹیکسٹائل، فارماسوٹیکل، لاجسٹک، پھل، سبزیاں، چاول، سیمنٹ، کنسٹرکشن سیکٹرز کے بزنس مین شامل تھے۔ دوشنبے کا اسلام آباد سے فضائی فاصلہ صرف ایک گھنٹے 40منٹ ہے لیکن پاکستان، تاجکستان کے درمیان باقاعدہ پرواز نہ ہونے کی وجہ سے براستہ دبئی یا استنبول جانے سے یہ سفر 8 سے 10گھنٹے طویل ہوجاتا ہے لہٰذا میں نے دوشنبے جانے کیلئے اسلام آباد سے پی آئی اے کا چارٹرڈ طیارہ حاصل کیا جو نہایت کامیاب تجربہ ثابت ہوا۔ تاجکستان کے صدر کی دعوت کی وجہ سے ہمارے دورے کو سرکاری اعزاز اور پروٹوکول دیا گیا جبکہ وفد کے سینئر اراکین کیلئے خصوصی گاڑیاں اور مترجم کا انتظام تھا۔ تاجکستان کے وزیر خارجہ حمروخون ظریفی سے ملاقات میں، میں نے انہیں بتایا کہ چترال سے تاجکستان کی سرحد وخان (Wakhan) کوریڈور کے راستے صرف 36 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور اگر یہ روڈ نیٹ ورک بنادیا جائے تو پاکستان سے تاجکستان چند گھنٹوں میں پہنچا جاسکتا ہے جو دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں بہت سود مند ثابت ہوگا۔ مجھ سمیت وفد کے 10سینئر اراکین کی تاجکستان کے صدر امام علی رحمون کے صدارتی محل میں ایک گھنٹے سے زائد ملاقات رہی۔ اس موقع پر تاجک صدر نے بینظیر بھٹو اور آصف زرداری سے اپنے گہرے تعلقات کا اظہار کیا۔ سوویت یونین سے تاجکستان کے آزاد ہونے کے بعد بینظیر حکومت نے تاجکستان کو انتظامی اخراجات کیلئے 17 ملین ڈالر کا قرضہ دیا تھا جو بعد میں معاف کردیا گیا۔ دورے کے اختتام پر تاجکستان کے صدر کی خواہش پر وفدکے سینئر ارکان کو تاجکستان ایلمونیم اسمیلٹر کا معائنہ بھی کرایا گیا۔ تجارت کے فروغ کیلئے بینکنگ نیٹ ورک کا ہونا بڑا مددگار ثابت ہوتا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ تاجکستان کے دورے کے بعد ہماری تجویز پر حکومت پاکستان نے تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں نیشنل بینک آف پاکستان کی برانچ کا افتتاح کیا اور تاجکستان کو ڈینم فیبرک سپلائی کرنے کیلئے اس برانچ سے پہلا لیٹر آف کریڈٹ ہماری کمپنی کے نام پر کھولا گیا۔ تاجکستان میں دوشنبے کے علاوہ نیشنل بینک کی برانچیں قازقستان کے شہر الماتے، کرغیزستان کے شہر بشکک، ترکمانستان کے شہر اشک آباد اور ازبکستان کے شہر تاشقند میں بھی کھولی گئی ہیں۔

CIS ممالک کی معیشتوں کا پاکستان سے موازنہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وسط ایشیائی ریاستوں میں قازقستان کی فی کس آمدنی سب سے زیادہ 11196 ڈالر، ترکمانستان کی 6402 ڈالر اور ازبکستان کی 2157 ڈالر جبکہ پاکستان کی فی کس آمدنی 1640 ڈالر ہے۔ جی ڈی پی گروتھ میں ترکمانستان کی 6.5 فیصد، ازبکستان کی 6 فیصد اور تاجکستان کی 6 فیصد جبکہ پاکستان کی 5.8 فیصد ہے۔ ایکسپورٹس میں قازقستان کی48.3 ارب ڈالر، ازبکستان کی 8.5 ارب ڈالر اور ترکمانستان کی 7.6 ارب ڈالر جبکہ پاکستان کی 24 ارب ڈالر ہے۔ امپورٹس میں قازقستان کی 29.3 ارب ڈالر، ازبکستان کی 11.4 ارب ڈالر اور ترکمانستان کی 3.5 ارب ڈالر جبکہ پاکستان کی 58 ارب ڈالر ہے۔ آبادی کے لحاظ سے CIS ممالک میں سب سے زیادہ آبادی ازبکستان کی 3 کروڑ 13 لاکھ، قازقستان کی ایک کروڑ 79 لاکھ اور تاجکستان کی 87 لاکھ جبکہ پاکستان کی آبادی 20 کروڑ نفوس پر مشتمل ہے۔ وسط ایشیائی ریاستوں میں بزنس کرنے کی سہولت میں ازبکستان سب سے آگے ہے جہاں صرف 3 محکموں سے 5 دن میں بزنس کرنے کی اجازت مل جاتی ہے۔پاکستان اور CIS ممالک کے درمیان ECO تجارتی معاہدے کے علاوہ کوئی آزاد یا ترجیحی تجارتی معاہدہ نہیں جس کی وجہ سے ان ممالک کے مابین تجارت کو فروغ حاصل نہیں ہوسکا۔ 2017ء میں CIS ممالک کی پاکستان سے ٹریڈ میں پہلے نمبر پر قازقستان ہے جس کی ٹریڈ 78 ملین ڈالر ہے جس کے بعد ترکمانستان 20 ملین ڈالر اور تاجکستان 11.6 ملین ڈالر ہے جبکہ پاکستان سے CIS ممالک ایکسپورٹس میں سیریل، آئل سیڈ، ٹیکسٹائل مصنوعات، ادویات، چائے، تازہ پھل اور سبزیاںشامل ہیں۔ 2017ء میں دنیا کے 136 سیاحتی ممالک میں قازقستان 81 ویں نمبر پر ہے جہاں سالانہ 45 لاکھ سیاح آتے ہیں جبکہ تاجکستان 107 ویں اور کرغزستان 115 ویں نمبر پر ہے۔ سیاحت میں پاکستان کا نمبر 124 ہے جہاں سالانہ 10 لاکھ سیاح آتے ہیں۔ تاجکستان میں اپریل سے اکتوبرکے دوران ہزاروں میگاواٹ بجلی سرپلس ہوتی ہے۔ تاجکستان نے پاکستان کو ایک ہزار میگاواٹ بجلی ’’قزا 1000‘‘منصوبے کے تحت فراہم کرنے کیلئے ایک معاہدہ کیا ہے۔ 13 دسمبر 2015ء کو وزیراعظم نواز شریف نے تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کی گرائونڈ بریکنگ میں شرکت کی جس کی رو سے پاکستان، بھارت، ترکمانستان، افغانستان کے راستے قدرتی گیس حاصل کرسکیں گے۔

پاک چین اقتصادی راہداری علاقائی تجارت اور باہمی روابط کیلئے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ دنیا کے تجارتی بلاکس کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ علاقائی تجارت سب سے کامیاب ماڈل ہے۔ نارتھ امریکن ممالک امریکہ، کینیڈا اور میکسیکو نافٹا (NAFTA) کی باہمی تجارت 68 فیصد، 27 یورپی ممالک کے بلاک یورپی یونین (EU) کی باہمی تجارت 53 فیصد اور جنوبی ایشیائی ممالک آسیان کی باہمی تجارت 26 فیصد ہے جبکہ ہمارے جنوبی ایشیائی ممالک کے بلاک سارک (SAARC) کی باہمی تجارت بمشکل 6 فیصد ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہم اپنے ریجن میں تجارت بڑھانے میں کامیاب نہیں رہے جس کی سب سے بڑی وجہ پاکستان اور بھارت کے خراب سفارتی تعلقات ہیں لیکن سی پیک کے جدید انفراسٹرکچر منصوبوں سے علاقائی روابط اور تجارت کو فروغ دیا جاسکتا ہے کیونکہ سی پیک کے ریل، روڈ اور گوادر پورٹ کے سمندری نیٹ ورک کے ذریعے لاجسٹک لاگت ایک تہائی سے بھی کم ہوجائے گی جس کی وجہ سے روس، ایران، افغانستان، ترکی اور وسط ایشیائی ممالک (CIS) نے بھی سی پیک میں شامل ہونے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ CIS ممالک مستقبل میں علاقائی تجارت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین