• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ذمے بہت بڑے کام لے لیے ہیں ۔ ان میں ایک کام پاکستان کی سول سروس میں اصلاحات کا بھی ہے ۔ یہ ایسا کام ہے ، جو ناممکن تو نہیں لیکن بہت زیادہ مشکل ضرور ہے ۔ اگلے روز انہوں نے سول سرونٹس کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اصلاحات کے ایجنڈے پر عمل درآمد کیلئے سول بیورو کریسی مدد کرے ۔ انہوں نے بیورو کریسی کو سیاسی مداخلت اور نیب کی طرف سے ’’ توہین و تضحیک ‘‘ سے تحفظ دینے کا بھی اعلان کیا اور یہ بھی کہا کہ وہ دو سال میں بہت کچھ تبدیل کر دیں گے ۔ وزیر اعظم نےسول سروس ریفارمز کیلئے ممتاز بینکار اور ماہر اقتصادیات ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں ایک ٹاسک فورس بھی قائم کر دی ہے ۔ عمران خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جو کہتے ہیں ، وہ کر گزرتے ہیں ۔ اگر پاکستان کی سول سروس ریفارمز ہو جائیں تو واقعی نیا پاکستان بن سکتا ہے ۔

پاکستان کی سول سروس میں اصلاحات کیلئے قیام پاکستان سے اب تک کئی کمیٹیاں اور کمیشن تشکیل دیئے گئے ، جن کی تعداد 20 سے زیادہ ہے ۔ ان کمیٹیوں اور کمیشنز میں شامل ماہرین نے بہت عرق ریزی کے بعد اپنی رپورٹس مرتب کیں اور اصلاحات کیلئے اپنی سفارشات بھی پیش کیں لیکن ان سفارشات پر عمل درآمد نہ ہو سکا ۔ آخری جامع رپورٹ نیشنل کمیشن آف گورنمنٹ ریفارمز ( این سی جی آر ) نے 2008 ء میں پیش کی ۔ یہ رپورٹ بھی دیگر رپورٹس کی طرح سرکاری ریکارڈز کے آرکائیوز میں کہیں پڑی ہو گی ۔ وزیر اعظم عمران خان نے سول سروس ریفارمز کیلئے جو ٹاسک فورس قائم کی ہے ، اسے اس امر کا بھی جائزہ لینا ہو گا کہ اس حوالے سے مرتب کردہ پہلے والی رپورٹس پر عمل کیوں نہیں ہو سکا ۔ بھارت میں بھی پاکستان کی طرح سول سروس کا وہی نو آبادیاتی ڈھانچہ برقرار رکھا گیا تھا ۔ بھارت میں بھی وہی خرابیاں ہیں ، جو نو آبادیاتی خصوصیات کی حامل سول سروس یا بیورو کریسی میں ہونی چاہئیں ۔ اس حوالے سے بھارت کے ممتاز صحافی اور دانشور کلدیپ نائر کا ایک مقالہ نظر سے گزرا تھا ، جس میں بھارتی سول بیورو کریسی کی اصل ہیئت اور کردار کو اجاگر کیا گیا تھا ۔ پاکستان کی سول بیورو کریسی بھی غیر منقسم ہندوستان کے وقت کی نو آبادیاتی بیورو کریسی کا تسلسل ہے لیکن اس میں پاکستان کے سیاسی حالات کی وجہ سے مزید بگاڑ بھی پیدا ہوا ہے ۔ نو آبادیاتی خصوصیات کے ساتھ ساتھ اس میں پاکستانی خصوصیات بھی ہیں ۔

1922 ء میں اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم لائیڈ جارج نے برطانوی پارلیمنٹ سے اپنے خطاب کے دوران برصغیر ہندوستان کی بیورو کریسی کے بارے میں کہا تھا کہ ’’ یہ سول بیورو کریسی ایک اسٹیل فریم ہے ، جو برطانوی راج کو مضبوطی سے برقرار رکھے ہوئے ہے ۔ 1947 ء میں آزادی کے بعد ہمیں یہ نو آبادیاتی ورثہ ملا ۔ یہ ورثہ ’’ ایگزیکٹو رول ‘‘ ( Executive Rule ) کا تھا یعنی سارے اختیارات منتخب اداروں کی بجائے ایگزیکٹو ( اعلیٰ افسروں ) کے پاس تھے ۔ نو آبادیاتی ریاست کی ایگزیکٹو برانچ تمام اختیارات کامرکز و منبع تھی ۔ 1947 ء کے بعد پاکستان کی نئی حکمران اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی اور جمہوری عمل قبول نہیں تھا ، جس کی وجہ سے اس نے سول بیورو کریسی پر انحصار کیا اور پاکستان میں حقیقی معنوں میں افسر شاہی کا آغاز ہوا ۔ افسر شاہی کے لوگ ہی سیاسی عہدوں پر براجمان ہوئے ۔ اقلیتی نسلی اور لسانی گروہوں کے ساتھ جاگیردار اور شہری تاجر طبقہ سول بیورو کریسی کا جونیئر پارٹنر رہا ۔ پھر اسکندر مرزا اور ایوب خان کے ادوار میں سول بیورو کریسی کے اختیارات ملٹری بیورو کریسی کو منتقل ہونا شروع ہوئے ۔ یہ سلسلہ 1947 ء سے 1971 ء تک جاری رہا اور سیاسی عمل کو روکنے کے نتیجے میں ملک دو لخت ہو گیا ۔

ذوالفقار علی بھٹو کا عہد حکومت افسر شاہی ( سول اور ملٹری بیورو کریسی ) کیلئے ناسازگار ثابت ہوا ۔ اس سے پہلے ایوب خان دور میں بھی 303افراد کو خارج کیا گیا۔ پاکستان کی سول بیورو کریسی کیلئے یہ ایک دوسرا دور تھا ۔ بھٹو نے آتے ہی سول سروس کے 1300افسروں کو لازمی ریٹائرمنٹ پر بھیج دیا ۔ دونوں دفعہ بیوروکریسی کو فارغ کرنے سے ان میں competent, تجربہ کار اور اچھے آئی سی ایس افسران کی کمی ہو گئی۔ 1973ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے انتظامی اصلاحات کیں تاکہ بیورو کریسی پر مزید کنٹرول کیا جا سکے نہ کہ اہل لوگوں کو لایا جائے۔ اسی دور میں اعلیٰ انتظامی عہدوں پر براہ راست بھرتیاں بھی ہوئیں ۔ اس طرح سول بیورو کریسی میں سیاسی مداخلت کا آغاز ہوا ۔ انڈین سول سروس ( آئی سی ایس ) اور بعد پاکستان سول سروس ( پی سی ایس ) کے جن افسروں نے سیاستدانوں کے خیال میں پاکستان کے اندر جمہوری اور سیاسی عمل کو پنپنے نہیں دیاکسی حد تک صحیح ہو سکتا ہے مگرنااہل اور عزیزو اقارب افراد کی بھرتی بھی اسی زمانے میں ہوئی اور کو ٹہ سسٹم کا آغاز بھی۔ وہ ایک سیاستدان کے شدید ردعمل کا شکار ہوئے اور سول سروس کا پرانا ڈھانچہ برقرار نہ رہ سکا ۔ اسکے بعدنہ صرف سیاسی تقرریاں شروع ہو گئیں بلکہ سول بیورو کریسی کیلئے ملازمت کا آئینی تحفظ بھی ختم ہو گیا ۔ سول بیورو کریسی سیاسی مداخلت کی وجہ سے کمزور ہوئی تو ملٹری بیورو کریسی نے اپنی پوزیشن مضبوط بنائی ۔ بھٹو حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سیاسی قوتیں بھی کمزور ہوئیں ۔ اسکے بعد ملٹری بیورو کریسی نہ صرف نوکر شاہی کا مضبوط ادارہ بن گئی بلکہ مضبوط سیاسی ادارہ بھی یہی بیورو کریسی تھی ۔

جنرل ضیاء الحق نے سویلین اداروں میں براہ راست فوجی افسروں کی تقرریاں کیں اور یہ سلسلہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں مزید آگے بڑھا ۔ بھٹو کے بعد تمام جمہوری اور غیر جمہوری حکومتوں نے سول بیورو کریسی میں اپنی مرضی کے افسروں خصوصاََ ’’ وفادار ‘‘ افسروں کی تقرریوں کی پالیسی جاری رکھی اور افسران بھی تقرری حاصل کرنے کیلئے کسی نہ کسی کا وفادار بننے پر مجبور ہو گئے ۔ اس سسٹم نے کرپشن کو بھی رواج دیا اور پھر غیر ملکی امداد سے چلنے والے منصوبوں کیلئے آنے والے ڈالرز نے کرپشن میں اضافہ کیا ۔

سول سروس کی تاریخ کے اس مختصر جائزے سے صورت حال کے گمبھیر ہونے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان کی قائم کردہ سول سروس ریفارمز ٹاسک فورس میں انتہائی تجربہ کار ، اچھی ساکھ کے حامل اور معاملہ فہم لوگ موجود ہیں ۔ انہیں سول سروس اصلاحات کیلئے چند باتیں ضرور مدنظر رکھنا چاہئیں ۔ سول بیورو کریسی میں سیاسی مداخلت کے ساتھ ساتھ غیر سیاسی مداخلت بھی بند ہو ۔ سول بیورو کریسی دوبارہ ایسے ’’ ایگزیکٹو رول ‘‘ کی طرف نہ جائے ، جو جمہوری اور منتخب اداروں کے تابع نہ ہو ۔ سول بیورو کریسی میں بھرتیوں اور تقرریوں کا معیار صرف اور صرف قابلیت ، اہلیت اور کارکردگی ہو ۔ میرٹ سسٹم نافذ کرنا ہو گا ۔ مختلف سروس گروپس کے درمیان کھینچا تانی کو ختم کرنے کیلئے ان کی تقرریوں اور ترقیوں کا کوئی ایسا فارمولا بنانا ہو گا ، جو قابل عمل بھی اور گورننس کو بہتربنانے میں مددگار بھی ہو ۔ سول سروس کا ایسا ڈھانچہ بنانا ہو گا ، جس میں نئے پاکستان کی تعمیر کی خصوصیات ہوں ۔ جمہوری اور ترقی یافتہ پاکستان ۔ ٹاسک فورس کے چیئرمین ڈاکٹر عشرت حسین نے سول سروس ریفارمز کے حوالے سے اپنے ایک مقالے میں ان اصلاحات کا مقصد ان الفاظ میں بیان کیا ہے ۔ ’’ اچھی حکومتی اصلاحات پاکستان میں معاشی کارکردگی کو بہتر بنانے ، عدم مساوات اور علاقائی تفاوت کو ختم کرنے کیلئے ضروری ہیں ۔ ان اصلاحات کا انحصار ایک متحرک سول سروس پر ہے ، جس کے ارکان نہ صرف اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل ہوں بلکہ وہ جرات کا بھی مظاہرہ کر سکیں اور لوگوں کی خدمت کا بھی جذبہ رکھتے ہوں ۔ ‘‘ ہم امید کرتے ہیں کہ ٹاسک فورس قابل عمل تجاویز دے گی اور اس کی سفارشات ماضی کی کمیٹیوں ، کمیشنز اور ٹاسک فورسز کی طرح صرف ’’ آرکائیوز ‘‘ کا حصہ نہیں بنیں گی ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین