• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شفقت اللہ وکیل ہیں۔سیاست سے شغف ہے۔ عملی سیاست میں بھی حصہ لیتے ہیں۔مطالعہ کا ذوق ہے، اخبارپڑھنے کا شوق ہے۔ ٹیلی وژن پر خبریں ہوں، گفت گوہو یا کوئی معلوماتی پروگرام نہایت انہماک سے دیکھتے ہیں۔کوئی مشین ہو یا کل پرزہ، ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اسے کھول کر،اسکے چلنے کے بارے میں جانیں۔گاڑی صرف مہارت سے چلاتے ہی نہیں بلکہ اس کے چلن کی معلومات بھی رکھتے ہیں۔ان کی معاملہ فہمی اور معلومات کے ان سے ملنے والے، ان سے بات چیت کرنیوالے معترف ہوتے ہیں۔ مگر اس کا کیا کیا جائے کہ لمبے سفرپر روانہ ہونے کے کچھ ہی دیر بعدہم سفر پہلے تو ان کی نیند سے بوجھل آنکھوں کو کھلا رکھنے کی لاحاصل کوشش اور پھر گاڑی کو بائیں جانب پہلو تہی کرتے دیکھ کرخود ڈرائیونگ کی پیش کش کردیتے ہیں۔ ساتھ سفر کرنے والے جواحباب گاڑی چلانا نہیں جانتے وہ فقط باتوں میں الجھا کر جگانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ظاہر ہے دعائیں تو انھیں یاد ہی ہوتی ہیں!

نیندسے مغلوب ہوتے دیکھ کرگاڑی چلانے کی خدمات پیش کرنے سے پہلے، میں نے بھی شفقت اللہ کو جگانے کیلئے باتوں کا سہارا لینے کی کوشش کی تھی اورسونے جاگنے کی جنگ میں جو ٹوٹی پھوٹی بات چیت ہوپائی تھی وہ درختوں سے متعلق تھی۔میں نے سوچا کہ وہ تھوڑی دیر نیند پوری کر لیں تو بات پھر سے چھیڑتے ہیں مگر ان کی ایک خوبی اور ہے کہ ڈرائیونگ سیٹ کے علاوہ کسی اور نشست پر انھیں نیند آتی ہی نہیں۔سو انھیں اس باربھی مستعد پایا۔کہنے لگے کہ وہ اس بات کے قائل ہیں کہ درخت ہمارے بغیر رہ سکتے ہیں ہم درختوں کے بغیر نہیں۔ درختوں کیلئے مہم سے مراد صرف پودوں کے ساتھ سیلفیاں لینا نہیں۔یہ تو زندگی کا پیام ہے، زندگی کو رنگ دینے کا نام ہے۔مگریہ مہم شعور اور آگہی کے بغیر صرف بھیڑ چال ہوگی جس کا نتیجہ منفی ہی ہوگا مثبت نہیں۔کس زمین میں کون سا پودا لگانا ہے یہ جان کاری اگر مل جا ئے تولوگوں کے کئی سال بچ جائینگے۔ماحول کے مطابق لگائے گئے درخت بیماریوں سے دفاع کرتے ہیں اور جب اس سے الٹ کیا جائے تو بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔مثلاً فصلوں میں نیم کے درخت زرعی ادویہ پر آنے والے خرچ اور مضر اثرات سے بچائیں گے ۔ورنہ اسلام آباد میں لگے درختوں کا الرجی کا باعث ہونا تو آپ سب جانتے ہی ہیں۔اگر کوئی پودا مناسب آب وہوا، ماحول اورزمین میں نہیں لگے گا تووقت کا ضیاع ہوگا اورمال کا زیاں۔یوں یہ لاعلمی یا کم علمی شعوری کوشش کو بھی بے ثمر کر سکتی ہے۔میں اس موضوع پرآپ سے گفت گو پچھلے ہفتہ کر چکا تھا سوموضوع کو اس سوال سے موڑنے کی کوشش کی کہ درخت کہاں لگائے جاسکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ایسی جگہوں پر درخت لگائے جائیں جہاں رسائی آسان ہو۔لوگ دل چسپی لیں گے۔ سڑکوں ، نہروں اور دریاوں کے کنارے ، ریل کے ٹریک کیساتھ ساتھ بھی درخت لگائے جاسکتے ہیں۔موٹروے کے اطراف زمین اور آب وہوا کی موزونیت سے لگے سایہ دار اور پھل والے پودے، پھول اور سبزیاں محفوظ رہیں گے ، سفر کو خوش گوار بنائیں گے اور قریبی منڈیوں کے ذریعہ آمدن کا بڑا ذریعہ بھی بنیں گے۔ زمین ایسی بھی ہے جو خالی ہے یا کم زور ہے۔ایسی زمین کے مالک کسانوں کو ترغیب دی جائے کہ وہ ایسے پودے لگائیں جو منافع بخش اور نقدآور تو ہوں ہی، زمین کی زرخیزی بھی بحال کریں۔پودوں اور درختوں کے لیے مناسب نرخوں پر زمین پٹے پر بھی دی جاسکتی ہے۔ قدرتی جنگلات میں بھی لکڑی کے کٹاو کو کسی نظم کے تحت لایا جائے۔ ہر تحصیل اور ضلع کی سطح پرایسے علاقے مخصوص کیے جائیں جہاں درخت محفوظ و مامون رہیں۔ہمارے دوست امجد وڑائچ جو پچھلی نشست پر خاموشی سے یہ باتیں سن رہے تھے گویا ہوئے کہ ہر ہاوسنگ سوسائٹی کیلئے لازم ہونا چاہئے کہ درختوں کیلئے جگہ مخصوص کرے۔ساتھ ہی ساتھ وہاں کے رہائشی بھی اہتمام کریں درخت لگانے کا۔اپنے گھر کے سامنے لگے اجنبی درخت کا تذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ اس پر بیٹھے بدنما پرندے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ کوئی بری آتما بھٹک رہی ہے سو انھیں اس سے ڈر لگتا ہے۔انکا کہنا تھا کہ زمین کے لیے موزوں اور ماحول سے مطابقت رکھنے والے پودوں اور درختوں ہی پر خوش نما تتلیاں اور خوش رنگ، خوش گوار اورخوش گلو پرندے آتے ہیں۔

راستے میں چائے پیتے ہوئے میں یہ سوچ رہا تھا کہ مسائل کے سادہ حل بہترین ہوتے ہیں۔سائنس دانوں کا یہ ماننا ہے کہ کسی بھی ٹیکنالوجی کی نسبت درخت اور جنگلات ہی بڑھتی حرارت اور آلودگی کا صحیح طور سے مقابلہ کر سکتے ہیں اوراگلی صدی کے آغاز تک درجہ حرارت میں اضافہ کی اوسط ایک اعشاریہ پانچ سینٹی گریڈسے نہ بڑھنے کے عالمی ہدف میں معاون ہوسکتے ہیں۔ ہم ترقی کی انتہاوں کو چھو رہے ہیں مگرزندگی زوال آمادہ ہے ۔درختوں کے معاملہ میں ہم انتہائی غریب ہیں اور یوںزندگی کا دم گھٹ رہا ہے۔اسے سانس فراہم کرنے کو درخت اور جنگل نہ صرف بچانا ضروری ہے بلکہ ان کو بڑھاوا دینا بھی لازم ہے۔یہ ایک بار کا کام نہیں ،یہ جہد مسلسل ہے ۔یہ جاگنے کا وقت ہے۔ یہ عمل کا وقت ہے۔فرنٹ سیٹ پر سونے کی ممانعت کا زمانہ گیا۔زندگی کی گاڑی اب اسی طورچل سکے گی کہ اس کی کسی بھی نشست پر کوئی نہ سوئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین