• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی معیشت کی حالت ایسی ہے جیسے امریکی یا کسی اور ملک کی رولر کوسٹر کو تفریح کے دوران جھٹکے لگتے ہیں لیکن آخر کار انسان بحفاظت نیچے اتر ہی آتا ہے۔ ایسے ہی حالات اب معاشی میدان میں نظر آرہے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ہمارے وزیر اعظم بار بار کہیں کہ ملک چلانے کیلئے پیسہ نہیں ہے، عملاً ہمارے ملک میں وسائل یا پیسے کی کوئی کمی نہیں ہے، اصل کمی انصاف اور گورننس کی ہے جو محض بیانات یا دعوے کرنے سے پوری نہیں ہوسکتی ۔ اعظم نے چند روز قبل سول سروس کے افسروں سے خطاب میں بہت کچھ کہا، یہ وہی کچھ تھا جو پچھلے تیس سالوں سے ہر صدر اور وزیر اعظم بیان کرتے رہے ہیں، مگر ماضی کے حکمرانوں اور آج کے وزیر اعظم میں ایک فرق یہ محسوس ہورہا ہے کہ ان شعبوں میں وہ اگر کچھ نہ کرسکے تو کم از کم پی ٹی آئی کی حکومت اور وزیر اعظم عمران خان کو تو کرنا پڑے گا۔ سابق صدر مشرف کے دور میں عالمی بینک نے پاکستان میں عدالتی اصلاحات اور انصاف کی فراہمی کے ساتھ ساتھ گورننس کی صورتحال بہتر بنانے کیلئے قرضے، گرانٹ سب کچھ دیا تھا، مگر اس حوالے سے نہ تو عالمی بینک اپنی تجویز کردہ اصلاحات پر عملدرآمد کراسکا اور نہ ہی ہماری بیوروکریسی نے سیاسی دبائو اور مصلحتوں کے تابع ہو کر ایسا کیا۔ ایک زمانہ تھا کہ پاکستان کی بیوروکریسی کے غیر سیاسی اور غیر متنازع ہونے پر فخر کیا جاتا تھا اور ہمارے افسروں کی قابلیت اور صلاحیتوں کا اعتراف عالمی ا دارے بھی کرتے رہے، پھر ایک وقت ایسا بھی آیا ہماری بیوروکریسی ماڈل ٹائون اور70کلفٹن میں تقسیم ہوگئی۔ لاتعداد افسروں نے اپنی گاڑیوں میں دونوں پارٹیوں کے جھنڈے اور گھروں میں غیر اعلانیہ پارٹیوں کا اہتمام شروع کردیا۔ یہ سلسلہ بھٹو صاحب کے دور سے شروع ہوا، پھر مسز بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف اور حتیٰ کہ میاں شہباز شریف کے حوالے سے عروج پر چلا گیا۔ جس سے نقصان یہ ہوا کہ ہماری بیوروکریسی عوام کی خادم بننے کے بجائے سیاسی قیادت یا قائدین کی خادم بن کہ رہ گئی۔ جس سے ملک میں عملی طور پر سول سروسز کے اسٹرکچر کا بیڑا غرق ہوگیا یا کردیا گیا۔ اب وزیر اعظم عمران خان کی خواہش ہے کہ بیوروکریسی کو ٹھیک کرکے 2سال میں گورننس کو بہت بہتر بنادیں گے۔ ایسا ممکن ہے، مگر اس کے نتائج اس سے بھی کم مدت میں مثبت حاصل کئے جاسکتے ہیں جس کیلئے وزیر اعظم کو اپنی ذات سے لے کرارکان پارلیمنٹ تک کوپابند کرنا ہوگا کہ وہ سول سروسز کے ا فسران کو صرف میرٹ پر کام کرنے دیں،جس میں پولیس سے لے کر چھوٹی عدالتیںاور مفاد عامہ کے ادارے قابل ذکر ہیں۔ گورننس اس وقت خراب ہوتی ہے جب کئی ممبران پارلیمنٹ یا بااثر افراد اپنے اثر و رسوخ یا سیاسی دبائو سے سرکاری امور میں دخل دیتے ہیں، ا س سے نظام متوازن نہیں رہتا۔ اس حوالے سے فوری طور پر اگر امریکہ اور یورپ کی طرح پاکستان میں ٹریفک سسٹم کی خرابی اور قانون شکنی پر بھاری جرمانے عائد کردئیے جائیں تو انسانی رویوں میں تبدیلی لانے میں بڑی مدد مل سکتی ہے لیکن اس کیلئے پہلے ٹریفک پولیس افسروں کی تربیت اور رویے کو بہتر بنانا ہوگا اور دوسری طرف عوام میں بڑھتے ہوئے عدم برداشت کے رجحان کو دور کرنے اور قانون کا احترام کرنے کی سوچ پیدا کی جاسکتی ہے۔ یہ کام کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ صرف قانون کو سہنا اور اس پر عمل کرنا اچھی گورننس کا نام ہے۔ اس طرح تعلیم و صحت اور مفاد عامہ کے دیگر شعبوں میں بھی یہی طریق کار اپنانا ہوگا۔ گورننس کے ماڈل کا لنک جب تک عوام کی بنیادی ضروریات اور معاشی و عدالتی انصاف سے نہیں ہوگا۔ اس وقت پاکستان کیا دنیا بھر میں گورننس کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ابھی الیکشن سے قبل ہم لوگ آسٹریلیا میں چند ہفتوں کیلئے قیام پذیر تھے۔ وہاں ٹریفک کے شعبے سے لے کر ہر جگہ بھاری جرمانے آسٹریلوی عوام کو قانون شکنی کی طرف مائل ہی نہیں ہونے دیتے جبکہ یہاں عام تاثر ہے کہ قانون پر عملدرآمد کرانے والے ہی سب سے زیادہ قانون شکنی کے مرتکب اور عوام کو انصاف کی عدم فراہمی میں رکاوٹ بنتے ہیں۔

تازہ ترین