• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈیم کے مسئلہ پہ پوری قوم کا متحدہونا یقیناً خوش آئند اور اچھا قدم ہے ۔ یہی منزل نہیں مگرمنزل کی طرف اٹھایاجانے والا قدم ایک احسن عمل ہے ۔ اب صرف ضائع ہونے والے پانی کو جمع ہی نہیں کرنا بلکہ اور بہت سے عمل بھی ساتھ ساتھ کرنے ہیں تاکہ زمین کے اندر پانی کی کمی کو روکا جاسکے۔ کل چیف جسٹس صاحب نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا دوبارہ اعلان کیا۔ یوں اندازہ ہوتا ہے کہ اب صرف دو ڈیم نہیں بلکہ یقیناً جہاں جہاں ممکن ہوگا وہاں ڈیم تعمیر کئے جائیں گے۔ پاکستان میں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ منصوبے تو شروع کردیئے جاتے ہیں اور پائے تکمیل تک بھی پہنچتے ہیں لیکن بعد میں ان کی آپریشن اور مینٹینس پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی اور ہر آنے والی حکومت کارحجان یہ ہوتا ہے کہ چونکہ یہ منصوبہ ان کے دور کا نہیں ،کیونکہ اس پر ان کے نام کی تختی نہیں لہذ اہم اس منصوبے کی مینٹینس پہ کیوں خرچ کریں؟ لیکن اب حالات جس نہج پہ آچکے ہیں کہ ہمارے حکمرانوں کو اپنے نام کی تختی اور اپنے دور کے شروع کئے گئے منصوبوں کے علاوہ اور دوسرے منصوبوں کو بھی اپنا ہی سمجھنا ہوگا کیونکہ یہ ملک کے منصوبےہیںاور کسی شخص واحد کے نہیں۔اب جبکہ پانی کا مسئلہ شدت اختیار کرچکا ہےتو ہنگامی بنیادوں پراور دوسرے کام بھی کرنے ہیں۔ جس سے سارا استعمال شدہ پانی ندی نالوں کے ذریعہ سمندر میں گرنے کے بجائے دوبارہ استعمال میں آسکے اور کم سے کم پانی سمندر میں گرے۔ایک تجویز یہ ہے کہ سب سے پہلے مسجدوں میں وضوخانے میں استعمال ہونے والے پانی کو گٹرلائن میں ڈالنے کے بجائے ایسی نالیاں بنائی جائیں جس سے یہ پانی کسی نہ کسی پودے ، کیاری یا باغات کو سیراب کرسکے۔ یا تو وضوکے پانی کو جمع کرکے پھر استعمال میں لایا جائے یا دوسرے بہت سے بڑے بڑے باغات کے ساتھ مسجدیں ہوتی ہیں تو براہ راست ایک نالی نکال کر یہ پانی باغ میں پہنچادیا جائے۔ پہلےاس تجویز پہ عمل مختلف اداروں اور باغ سے منسلک مسجدوں میں کیا جائے اور بعد میں ہر جگہ رائج کیا جائے۔ البتہ ایک بات کا دھیان رکھا جائے کہ وضوخانے میں کسی قسم کے کیمیکل کا استعمال نہ ہو۔ یوں ناصرف نکاسی آب کے نظام پہ کچھ دباؤ کم ہوگا تودوسری طرف باغات کو پانی دینے کے لیے الگ سے انتظام نہیں کرنا پڑے گا۔ اوریوں پانی کے ضیائع کو روکا جاسکے گا۔ ہرعلاقے کی بلدیہ یہ کام باخوبی کرسکتی ہے(لیکن اگر کرنا چاہے تو!)دوسرے نمبر پہ ٹینکرمافیا اور سارے غیرقانونی ہائیڈرنٹس چاہے وہ کتنے ہی قابل اثر شخصیت کے تحت چل رہے ہوں بندکروانے ہوں گے۔ کیونکہ ان ہائیڈرنٹس سے ٹینکروں میں پانی بھرنے اور پھر ان ٹینکروں سے گھروں میں منتقل ہونے تک پانی کا بے انتہا ضیاع ہوتا ہے ۔اگر یہی پانی پائپ لائنوں کے ذریعے براہ راست گھروں کی ٹنکی میں فراہم کردیا جائے تو اس پانی کے ضیاع کو روکا جاسکتا ہے اور پانی کی قلت کو بھی۔اسی طرح دیہی علاقوں میں خا ص طور پر زرعی زمینوں میں نہری آب پاشی کے نظام کو منضبط اور منظم کرنا ہوگا۔بہت زیادہ پانی کا ضیاع اس نظام کی کمزوری کی وجہ سے بھی ہوتا ہے۔ یہاں پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے ایک مستحکم نظام وضع کرنا ہوگا۔ جس کے لیے علاقے کے لوگوں کو اور ماہرین کو ساتھ ملاکر یہ قدم اٹھانا ہوگا۔ جس طرح ایک محاورہ ہے کہ " قطرہ قطرہ دریابننا" بالکل اسی طرح تھوڑا پانی انفرادی طور پر بچایاجائے تو ایک چھوٹے ڈیم سے زیادہ پانی کا ذخیرہ استعمال کیا جاسکتاہے۔یہ تو تھیں وہ تجاویز جو قلیل عرصے میں قابل عمل ہیں۔طویل المدت تجاویز ہیں کہ اب سائنس دانوں خاص طور سے ایچ ای سی کے تحت (محققین)ریسرچر زسے رجوع کیا جائے اور ان سے کہاجائے کہ اب اس طرف توجہ دیں ایسے کم لاگت منصوبے تیار کریں جن کی بدولت استعمال شدہ پانی کو قابل استعمال بنایاجاسکے ۔ باہر کی دنیا کی ہر تکنیک من وعن نہیں اپنائی جاسکتی ۔ اپنے جغرافیائی اور سماجی حالات کو بھی دیکھ کر کچھ تکنیک عمل میں لانی چاہئیں۔مثال کے طورپہ تقریباً ہرچھوٹے بڑے شہروں میں شہریوں کے گھر وںمیں بیت الخلا اور غسل کی جگہ ساتھ ساتھ ہوتی ہے ایسے میں کموڈ کو فلیش کرنے کے لیے کیاصرف صاف پانی ہی درکارہوتا ہے ؟ یقیناً ایسانہیں ہے۔تواگرغسل اور سنگ(واش بیسن) کے پانی کو گٹرلائن میں جانے کے بجائے فلیش میں جمع کئے جانے کا بندوبست ہوجائے تو صاف پانی کے بہت بڑے ضیاع کو روکا جاسکتا ہے۔اسی طرح کموڈکے اخراج کو ٹریٹمنٹ پلانٹ لگاکے کھیتوںاور کاشتکار ی میں استعمال کیا جاسکتاہے۔اسی طرح صنعتی استعمال شدہ پانی کو صاف کرنے کا مناسب بندوبست ہوناچاہیئے اس سے ایک طرف تو آلودگی کم ہوگی تودوسری طرف پانی کا استعمال دوبارہ ہونے سے مزید پانی کی طلب کم ہوجائے گی۔یقیناً بقیہ ماہرین اس سلسلے میں رائے مزیدرائے دے سکتے ہیں کہ کس طرح پانی کی مزید بچت کی جاسکتی ہے؟اس سلسلے میں اب سب کو مل کے اپنا اپنا حصہ ڈالناہوگا۔

minhajur.rab@janggroup.com.pk

تازہ ترین