• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

  السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

’’پرنس آف ڈھاباں‘‘ کا خطاب

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصروں کروں گا۔ دونوں میں سرچشمہ ٔ ہدایت کے لاجواب صفحات موجود تھے۔ شُکر ہے یہ صفحات اب میگزین کا مستقل حصّہ بن گئے ہیں۔ ’’جمہوری حکومت کا احترام پاکستان کی خوش حالی اور استحکام‘‘ جی ہاں، جس کی بھی جمہوری حکومت آئے، اسے خوش آمدید کہنا چاہیے۔ ’’دی روڈ ٹو مکہ‘‘ کے خالق، علامہ محمّد اسد کے بارے میں ایمان افروز مضمون بے حد پسند آیا۔ ’’سُرخاب‘‘ میں26شامی روڈکی آخری قسط بھی زبردست رہی۔ ایک شمارے کے اسٹائل میں آپ کی اور دوسرے میں عالیہ کاشف کی تحریر تھی۔ دونوں ہی پسند آئیں۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ میں میرا پیغام شامل کرنے کا شکریہ۔ ’’آبی بحران کا حل پانی کی بچت‘‘ اچھی کاوش رہی۔ سید سجاد ظہیر کا احوال بھی پسند آیا۔ بلوچستان کے ولی تنگی ڈیم، وادیٔ اُڑک اور ہنہ جھیل سے متعلق مضمون مع تصاویر پڑھا، مزہ آگیا۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں اس بار محمد سلیم راجا نے مجھ ناچیز کو ’’پرنس آف ڈھاباں‘‘ کا خطاب دیا، بہت ہی اچھا لگا۔ آپ سے گزارش ہے کہ ایک ہفتے ’’ایک پیغام پیاروں کے نام‘‘ اور دوسرے ہفتے ’’جو دل میں اتر جائے‘‘ کا صفحہ ضرور شایع کیا کریں۔

(پرنس افضل شاہین، ڈھاباں بازار، بہاول نگر)

ج:ویسے چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوشی محسوس کرنا،خوش ہو جانا بھی بہت بڑی نعمت ہے۔

لکھا کرے کوئی، سمجھا کرے کوئی

اس بار شمارہ دل رُبا مسکراہٹ اور خشمگیں نگاہوں کے ملاپ کے ساتھ جلوہ نُما ہوا۔ ارے واہ! نجمی صاحب نے کس طمطراق اور شاعرانہ انداز سے حضرت عُمر بن عبدالعزیزؒ کی حیاتِ طیّبہ کے متعلق مضمون کا آغاز کیا، جیسے تسبیح کے دانے سلیقے سے پروئے ہوں!! واللہ! لطف آگیا۔ پھر فاروق اقدس کی سوشل میڈیا کے کردار اور استعمال سے متعلق ناگفتنی، درفنطنی، کہہ مکرنی، چہ میگوئی، کرم فرمائی، کرم گستری، عزت افزائی وغیرہ وغیرہ پڑھ کے بھی خُوب ہی محظوظ ہوئے۔ منور راجپوت کراچی کے دونوں ’’یتیم ہالوں‘‘ کی زبوں حالی و نوحہ گری لیے شریکِ بزم تھے۔ تو شگفتہ بلوچ جنسی ہراسانی جیسے مضمون کے ساتھ ہراساں کرتی نظر آئیں۔ رائو صاحب نے موبائل فون کی دوریوں، قربتوں، ملاحتوں، نزاکتوں، کثافتوں کا سیر حاصل احاطہ کیا، تو منور مرزا صدر اردوان کی کام یابی کے پس منظر میں عالمی افق میں وقوع پزیر تبدیلیوں پر خامہ فرسائی فرما رہے تھے۔ فرخ شہزاد نے تو پیارے وطن کے مختلف تفریحی مقامات کی مفت ہی سیر کروادی اور بھئی، یہ پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی کے خطوط کیسے ہوتے ہیں؟لکھا کرے کوئی، اور سمجھا کرے کوئی۔ میں تو بالکل بھی نہیں سمجھ سکا، آخر وہ کہنا کیا چاہتے ہیں۔ اگلا شمارہ سرِورق پر اسمارٹ نوجوانوں کے ساتھ نظر نواز ہوا۔ حضرت عُمر بن عبدالعزیزؒ کی سوانح حیات کی دوسری قسط کے کیا کہنے!! کیا خوب دل کش اندازِ بیاں ہے۔ منور راجپوت اب تک کے تمام انتخابات کی رُوداد لے کر حاضر ہوئے۔ میں نے تو ان تمام ہی انتخابات میں بھرپور شرکت کر کے اپنے ووٹ کا حق ادا کیا ہے۔ رائو صاحب، نیلسن منڈیلا کے ترکش کے تیر سے سب کو چھیدا کیے، تو ہیلتھ اینڈ فٹنس کے تینوں مضامین بھی خُوب تھے، میری مسّرت دو چند ہوگئی۔ (ڈاکٹر اطہر رانا طارق آباد، فیصل آباد)

ج : آپ کو تو پروفیسر صاحب کے ’’گنجلک نامے‘‘ میں سے صرف وہ سمجھنا ہوتا ہے، جو ہم خُوب سوچ سمجھ کر شایع کرتے ہیں۔ ذرا ہماری حالت کا اندازہ کیجیے کہ جسے 10 صفحات کے عمیق سمندر سے بہ مشکل 10 سطریں کشید کرنی ہوتی ہیں۔ بہ خدا آنکھیں ہی نہیں تھکتیں، دماغ بھی’’تھک ٹُٹ ‘‘ جاتا ہے،شل ہوجاتاہے۔

80سالہ بزرگوں کو جواب

یہ جنگ، سنڈے میگزین ہی کی جادوگری ہے کہ خطوط 3,3 ماہ بعد شایع ہوتے ہیں، مگر لوگ لکھنے سے پھر بھی باز نہیں آتے۔ ویسے اگر آپ80 سالہ بزرگوں کو ذرا مُسکرا کے جواب دے دیا کریں، تو یہ بھی ایک صدقہ ٔجاریہ ہے۔ اور ہاں، اس بار عمران خان اور نیلسن منڈیلا سے متعلق تحریریں بہت اچھی تھیں۔ (سیّد شاہ عالم زمرد اکبر آبادی، راول پنڈی)

ج : خیر سے آپ عُمرِ عزیز کے کون سے برس میں داخل ہو چُکےہیں…؟؟ہمارے خیال میں یہ ’’80 سالہ بزرگ‘‘ کا سابقہ، آپ نے اپنے مفاد میں خود لگا لیا ہے، وگرنہ ہم نے تو یہی پڑھ رکھا تھا کہ ’’مُسکرا کے بات کرنا بھی صدقہ ہے۔‘‘

ہم نہ ہوں گے، کوئی ہم سا ہوگا

’’بڑا اوکھا کم اے، بندہ پاگل ہوجاندا اے‘‘ ’’کیسے کرلیتی ہو، تم یہ سب، بہت مشکل کام ہے‘‘ یہ ہیں جڑواں بچّوں کی مائوں کے ذاتی تجربات اور چشم دید گواہان کے مجھے جڑواں بیٹیاں سنبھالتے دیکھ کر کلمات۔ سوا آٹھ ماہ بعد آمد پر آپ سب لوگوں کو، اپنے سب گلے شکوئوں کا تسلّی بخش جواب مل گیا ہوگا کہ میں کیوں غیر حاضر تھی۔ چاہتے ہوئے بھی رابطہ نہ کرسکی کہ اِک روایتی، معاشرتی ہائوس وائف بھی ہوں۔ پچھلے دنوں کراچی آمد پر ایک میگزین (عید شمارہ) پڑھنے کو ملا۔ تبصرے کے لیے سنبھال لیا۔ شمارہ اچھا ہے (ہائے!ہاجرہ اُٹھ گئی، اُسے تھپک تھپک کر سلایا) سرِورق ماڈلز کے باعث روایتی تھا، تو حفیظ اور اس کے پیارے بچّوں کے سبب جگمگا بھی رہا تھا۔ (زہرہ نے انگڑائی لی، اُس پر نگاہ ڈالی) سرچشمۂ ہدایت میں انوار برساتی عید نے ملّی احساس اجاگر کیا(اُف، ہاجرہ کے فیڈر کا ٹائم ہوگیا) ’’سنڈے اسپیشل‘‘ میں جمہوری تسلسل کے دس برس پڑھ کر کچھ خاص فخر محسوس نہیں ہوا، کہ اس نگوڑی جمہوریت نے ہمارے ساتھ جو جو کچھ کیا ہے، کچھ خاص قابلِ ذکر نہیں۔ (اوہ! زہرہ کی چوسنی گرگئی) سروے ہمیشہ کی طرح دل چسپ لگا، بچپن سے کن سوئیاں لینے کی عادت محبوب مشغلہ جورہا (ہاجرہ کا کاٹ رُک گیا اور وہ کسمسانے لگی) ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ فکر انگیز تحریر تو فادرز ڈے اسپیشل کا لفظ لفظ انہماک سے پڑھنے کے لائق تھا۔ ہمارے قومی ہیرو ’’مسٹر پرفیکٹ‘‘ لگے۔ (اب زہرہ اپنی جانب متوجّہ کررہی ہے) اسٹائل کی تحریر بھی آپ کی دُگنی محنت کی غمّاز تھی، جیسے جڑواں بچّوں کی پرورش! (لوجی، ہاجرہ نے گود کے لیے رٹ لگادی)’’ہیلتھ اینڈ فٹنس‘‘ میں ڈاکٹرز کی دائمی ہدایات کے باوجود عید پر بے تحاشا کھانے، بدہضمی اور پھر نتیجتاً رنگ برنگے امراض میں مبتلا ہونے کی عوامی عادات جاری و ساری رہیں۔ پیارا گھر اور اِک رشتہ، اِک کہانی میں عید اور فادرز ڈے کا مِلا جُلا سا سماں تھا۔ (زہرہ کو ہاتھ پکڑ کر سونے کی عادت ہے، وہ بے چین ہورہی ہے)ڈائجسٹ اور ناقابلِ فراموش موقعے کی مناسبت سے سجائے گئے، مگر پڑھ نہ سکی کہ بچیوں کےفیڈر کپڑے جو دھونے تھے۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی رونقیں تو یوں ہی لگی رہیں گی کہ ؔدائم آباد رہے گی دنیا…ہم نہ ہوں گے، کوئی ہم سا ہوگا۔

(مہناز علی رضا بٹ،تلونڈی کھجور والی، گوجرانوالہ)

ج: بہت بہت بہت مبارک ہو۔ چلو، اب تم اپنی اصل ذمّے داری نبھائو۔ کسی بھی ماں کے لیے اپنی اولاد کی بہترین تربیت سے زیادہ افضل کام کوئی ہوہی نہیں سکتا اور دو دو بیٹیوں کی دیکھ بھال، تعلیم و تربیت، بلاشبہ جان جوکھم کا کام تو ہے، مگر اجر بھی اُتنا ہی بڑا ہے۔ اور ہاں، جب بھی ذرا سا بھی وقت ملے، اپنی بزم میں چلی آنا کہ لاکھ آباد رہے دنیا، تم نہیں تو کوئی تم سا بھی نہیں۔

پورا دیوان جلادیا

ایک تو غم ِ روزگار، غم ِ یاراں، غم ِ محبت کے ماروں کو مہنگائی کے طوفانِ بادو باراں نے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ پھر اتوار کی صبح ہی سے آنکھ کُھلتے ہی ہماری ’’نورجہاں‘‘ ہانکا لگائے رکھتی ہیں، تو جب اُن کی آنکھ لگتی ہے، تو تب ہی کہیں جان کو امان ملتی ہے اور ہم میگزین کے مطالعے کے بعد، خط لکھنے بیٹھتے ہیں۔ خیر، بقول آپ کے، وہ جو ہم نے ’’بیس صفحات‘‘ کا نامہ تحریر کیا، تو وہ ہماری دن رات کی محنت تھی۔ پہلے ہماری والدہ نے ہمارا پورا دیوان جلادیا، پھر’’نورجہاں‘‘ نے دل جلایا اور رہی سہی کسر آپ نے پوری کردی۔ اب ہم جائیں، تو کہاں جائیں۔ بہرحال، صفحہ ’’سرچشمۂہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی کے انداز ِ تحریر کے کیا ہی کہنے۔ ’’اشاعت ِ خصوصی ‘‘ میں فاروق اقدس نے بھی سوشل میڈیا کے موثر استعمال پر عمدہ قلم کشائی کی۔ منور راجپوت نے تاریخی ہالز پر بہترین معلومات فراہم کیں،تو شگفتہ بلوچ بھی ’’فیچر‘‘ میں ایک انتہائی حسّاس معاملے پر بات کرتی نظر آئیں۔ ’’خانوادے‘‘ میں ڈاکٹر قمر عباس ’’مخزن کے گھرانے‘‘ کے ساتھ آئے اور خُوب ہی آئے۔ ’’یادداشتیں‘‘ میں عرفان جاوید نے شان دار یادیں شیئر کیں۔ بقیہ صفحات بھی ٹھیک ہی رہے۔ دوسرے شمارے میں منور راجپوت ’’الیکشن کہانی‘‘ سناتے رہے۔ فاروق اقدس نے عمران خان کا سارا ’’کچا چٹّھا‘‘ سامنے لا رکھا۔ رائو محمد شاہد اقبال نے نیلسن منڈیلا کی شخصیت کا خوب احاطہ کیا،جب کہ پیارا گھر، ہیلتھ اینڈ فٹنس، ڈائجسٹ اور آپ کا صفحہ حسبِ روایت ہی تھے۔ (محمد زبیر وارثی، ٹائون شپ، لاہور)

ج: آپ کا مزید 20صفحوں کا یہ’’بے ربط نامہ‘‘ دیکھ کر تو لگتا ہے، نہ امّاں جان نے کوئی غلط فیصلہ کیا تھا، نہ ’’نورجہاں‘‘ ہانکا لگا کرغلط کرتی ہیں اور نہ ہی ہم نے کسر پوری کرکے کچھ ٹھیک نہیں کیا۔ جس قدر ایڈیٹنگ آپ کے پچھلے خط میں ہوئی، اِس تحریرمیں کوئی رتّی بھر سدھار تو آنا ہی چاہیے تھا۔

’’استغفار‘‘ پر مضمون

ہم اور ہمارا پیارا مُلک جس مدّوجزر سے گزر رہے ہیں، جو معاشی، معاشرتی و اقتصادی بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔ بے اعتدالی، لاعلمی، بے فکری کے سمندر میں پیارے وطن کے مکین کثرت سے غوطہ زن ہیں، تو عالم ِ اقوام کے ساتھ ہمارا موازنہ کسی بھی طور ممکن نہیں۔ مسلسل ہر لمحہ، ہر فرد کو بس’’استغفار‘‘ کرنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا ’’استغفار‘‘ پر ایک جامع، مفصّل اور فکر انگیز مضمون کی درخواست ہے۔ (جنیدنظامی، ملتان)

ج:بلاشبہ، پوری قوم کو ’’استغفار‘‘ کرنے کی ضرورت ہے، لیکن اب ایسا بھی نہیں ہے کہ دنیا کا ہر کام دھندا چھوڑ کے، ایک کونا سنبھال لیں، جوگ لے لیں اور صرف استغفار ہی کرتے رہیں۔ ’’استغفار‘‘ کا کلمہ تو ہر کام، عمل کے ساتھ بھی، ہر لمحہ وردِ زبان رہ سکتا ہے۔ بہرحال، ایک مضمون لکھوانے کی کوشش بھی ضرور کریں گے۔

’’الیکشن نامہ‘‘لگا

’’سرچشمۂہدایت‘‘ میں حضرت عُمر بن عبدالعزیزؒ پر مضمون کی آخری قسط بھی محمود میاں نجمی نے بڑے ہی عُمدہ پیرائے میں تحریر کی۔ ماشاء اللہ، ماشاء اللہ۔ جب کہ باقی میگزین تو ’’الیکشن نامہ‘‘ ہی لگا۔ بہر حال، شان دار مضامین تھے اور سب ہی پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور ہاں،’’پیارا گھر‘‘ میں چاچا جی نے آم پر بہت خُوب لکھا۔ ناقابل ِ فراموش کی دونوں کہانیاں بھی اچھی رہیں۔

(رونق افروز برقی، دستگیر کالونی کراچی)

ج: الیکشن کے موسم میں’’الیکشن نامہ‘‘ ہی چھاپنا تھا ناں، اور کیا چھاپتے۔

کُھسّوں کے ساتھ پاجامہ

’’اسٹائل‘‘ میں ماڈل نےکُھسّے پہنے تھے، تو اس کے ساتھ چُوڑی دار پاجامہ کیوں نہیں پہنا ۔ کُھسّوں کے ساتھ ہمیشہ چُوڑی دارپاجامہ ہی جچتا ہے۔ یہ مغل بادشاہوں کی روایت ہے اور آج تک قائم و دائم ہے۔ مہربانی فرماکر اس روایت کا احترام کریں اور ماڈلز کو صحیح کامبی نیشن دیا کریں۔ نیز، سنڈے میگزین میں لطیفوں کی کمی شدّت سے محسوس ہوتی ہے۔ عوام ویسے بھی معاشی و معاشرتی مسائل میں گِھرے ہوئے ہیں، تو ایسے میں ہر ہفتے کچھ لطائف شایع کرنے کا اہتمام ضرور کیا کریں تاکہ تھوڑی دیر کے لیے کوئی ہنس بول تو لے۔ (نواب زادہ خادم ملک، سعید آباد، کراچی)

ج:او بھئی! اللہ کے واسطے، یہ پاجاموں کے ساتھ کُھسّے اور کُھسّوں کے ساتھ پاجاموں کے چکّر سے نکل آئیں اور بار بار وہی لطائف کی اشاعت کا تقاضا۔ خدارا، اگر اور کوئی بات کرنےکو نہیں ہے، تو کچھ عرصہ بریک لے لیں، ہم ہر گز بُرا نہیں منائیں گے۔

                                                                                             فی امان اللہ           

                           اس ہفتے کی چٹھی

زیرِنظر ’’الیکشن ایڈیشن‘‘ آِن الیکشن ڈے....اور..... ہماری سلیکشن جنگ، آِن سَن ڈے۔ ہمارا دیس پاکستان، اسلاف کی لاکھوں جانی و مالی قربانیوں کے نتیجے میں ووٹ کی طاقت (استصوابِ رائے) سے وجود میں آیا اور ہم منزلِ آزادی سے ہم کنار ہوئے۔ کیوں کہ؎ جذبہ کبھی پابندِ سلاسل نہیں ہوتا۔ مدیرہ صاحبہ! آزادئ اظہارِ رائے ہماری اوّلین نعمت، بیش بہا سرمایہ اور آخری سہارا ہے کہ اس کی بہ دولت ذہن کی گرہیں کُھلیں، فکر کے عقدے وا ہوئے۔ آپ نے قومی انتخابات کے موقعے پر سرِورقِ رسالہ قومی پرچم کے سبز و سفید رنگوں میں ڈھال کر گویا ہر پاکستانی (خیبر تا کراچی) کو اتحاد کی لڑی میں پرو، اخوت کے جذبے میں سمو اور وطن کی محبت میں بھگودیا۔ سرِورق کشائی کے بعد اوّل و اعلیٰ صفحہ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ ملاحظہ کیا، جہاں نجمی صاحب کو قومی حکمرانوں سے یہ عرض کرتے پایا کہ معاملاتِ عدل اور امورِ سلطنت میں حضرت عُمربن عبدالعزیز ؒ کو مشعلِ راہ بنائیے۔ اور ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں آپ نے بابائے ظرافت کا ’’منشورنامہ‘‘ ٹرانسپلانٹ کرکے تو سیاسی پارٹیوں کے انتخابی منشوروں کو ککھ سے بھی ہولا کردیا۔ (میں کوئی جھوٹ بولیا…؟؟)اور فاروق اقدس کے قلم نے یہ کیسا جادو کیا کہ چنگے بھلے ’’پبلک فِگرز‘‘ کو رنگ رنگیلا بنادیا۔ بھئی، جو چاہے آپ کا حُسنِ کرشمہ ساز کرے۔ ’’ڈیجیٹل الیکشن 2018ء‘‘ رائو صاحب کے قلم سے اِک اور ڈیجیٹل شاہ کار ثابت ہوا، لہٰذا اب ہمارے خیال میں انہیں ’’ڈیجیٹل رائٹر‘‘ کا ٹائٹل دینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ مرکزی صفحات پر منور راجپوت نے اپنے سیربین سے وطنِ عزیز کے عام انتخابات کی 48سالہ تصویری جھلکیاں دِکھا کر سیاست کے طلبہ کی ضروری حد تک آنکھیں کھول دی ہیں۔ (ویسے تصاویر کی ترتیب بائیں سے دائیں ہونے پر ہمیں چنداں اعتراض نہیں) منور راجپوت نےمُلک میں 120سیاسی جماعتوں (رجسٹرڈ) کے گھڑمس پر دل گرفتہ ہوکر انہیں ’’جمعہ بازار‘‘ لکھ دیا، تو پاجی!آخر ہم دنیا کا چھٹا بڑا ملک (بہ لحاظِ آبادی) ہیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں پھلوں کے بادشاہ آم کے خواص و افادیت بتانے پر اب برادرم چھکّن ٹوٹکوں کا بادشاہ کہلوانے میں حق بہ جانب ہیں۔ ہیلتھ اینڈ فٹنس کلب میں یک جان دو قالب کے مصداق اِک جگر کے دو رکھوالے (ڈاکٹرز) تھے۔ اب بات ہوجائے، ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی۔ اس ہفتے بزمِ خطوط میں برقی کی کاوش، پروفیسر منصور کا دل دا معاملہ، مصباح کی کشیدہ کاری، پروفیسر حمیدی کی میراتھن دوڑ (طویل ترین خط)، پرنس کی ناچیزیاں اور ریحانہ کی رعنائی دیگر سے ممتاز تھی۔ اور’’ Space creature‘‘ کے ٹائٹل کے بدلے میں بندے کی چِٹھی کو اعزاز سے نواز کر تو جناب نے شکریے کی دونوں لَتّیں بھَن چھوڑی ہیں۔ واہ جی! مان گئے، احسان کابدلہ کوئی نہیں سوائے نیکی کے۔ اگلے شمارے کے سرِورق پر سنہری پوشاک زیبِ تن کیے ماڈل، لبوں پر خفیف مسکراہٹ سجائے، پیا کے انتظار میں آنکھیں فرشِ راہ کیے دکھائی دی۔ ’’سرچشمۂ ہداہت‘‘ کے صفحات سے ہم قارئین دہرا فائدہ اٹھاتے ہیں کہ نجمی صاحب کے قلم کی وساطت سے دنیا سدھارنے کے ساتھ عاقبت سنوارنے کا بھی سامان ہوجاتا ہے۔ رئوف ظفر نے ’’انٹرویو‘‘ کے صفحے پر آئی سی یو کے ڈاکٹر جاوید کی وساطت سے سورئہ رحمٰن کے کرشمات بیان کرکے تو قارئین کو اور بھی گرویدہ کرلیا۔ اور ہاں، رائوصاحب کے ارادے ہمیں نیک، لیکن شرارت آمیز لگتے ہیں۔ وہ یوں کہ ان کی ویب سائٹس کی رنگا رنگ دنیا میں کھوکر کہیں ہم پرنٹ میڈیا سے الیکٹرانک میڈیا کی طرف نہ ہجرت کرجائیں۔ ویسے ہم پکّے ریڈر ہیں، خواہ قلم کچّا ہی سہی۔ ’’کہی اَن کہی‘‘ میں عالیہ کاشف کے روبرو، نوجوان اداکارشہزاد شیخ نے یہ اعتراف کرکے تو جنّت کمالی کہ ’’اپنی والدہ کا عکس ہوں‘‘ ورنہ ہمارے ہاں ایسے سقراطوں کی کمی نہیں، جو خود کو بقراط کا بھی ’’پیو‘‘سمجھتے ہیں۔ دو ہفتے کی گم شدگی کے بعد ’’ناقابلِ فراموش‘‘تو بازیاب کروالیا گیا، مگر ’’ڈائجسٹ‘‘ ہنوز روپوش ہے۔ چلیں جی، اینڈ آف دی لیٹر، ہائیڈ پارک میں ٹالھی تھلّے بیٹھ کر ’’آپ کا صفحہ‘‘ کی باتاں۔ جہاں برقی کی اسپیشل برقی، خادم ملک کی نوابی، ملک کا ہدیۂ لاجواب، مصباح کی صحافتی نافرمانی، مُرلی کا سہ سطری ٹَوٹا اور پروفیسر منصور کا دوشماری تبصرہ قابلِ ذکر تھے، تو وہیں آپ کی مانیٹر (چڑیا) کے ہاتھوں ہمارا سواگت۔ کہ ٹھونگوں کو بریک نہ لگی، تاوقت یہ کہ ہم نے شاعری سے توبہ کرلی۔ مگر اِک لالی پاپ (اعزازی چٹھی) ہدیتاً دے دیا، کہیں دل گیر، دل گرفتہ اور دل شکستہ ہوکر شکوہ کُناں نہ ہوں۔ جی مہربانی، تحفہ تو تحفہ ہی ہوتا ہے، نکّا ہووے بھاویں وڈّا۔ اور بھئی، یہ کیا ماجرا ہوگیا کہ جنگل کا جنگل ہرا ہوگیا۔ یعنی کہ اس بار تمام خطوط، جواب سے فیض یاب تھے۔ ہاہو.....ہپ ہپ ہرّے.....موجاں ای موجاں!!

(محمد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)

                            گوشہ برقی خُطوط

٭ کیا میں کھانوں کی تراکیب بہ ذریعہ ای میل بھیج سکتی ہوں۔ (مسز حمّاد، کراچی)

ج: ضرور بھیج سکتی ہیں، لیکن رومن میں لکھ کر نہیں، جیسے یہ ای میل بھیجی ہے۔

٭ میگزین حال ہی میں پڑھنا شروع کیا ہے۔ بہت پسند آیا۔ سنڈے اسپیشل، اشاعتِ خصوصی وغیرہ میں عمدہ موضوعات پر معیاری تحریریں پڑھنے کوملیں۔ (ڈول رانی)

٭ آپ نے ’’پیارا گھر‘‘ میں ’’انجیر‘‘ سے متعلق بہت ہی معلوماتی مضمون شامل کیا۔ ممکن ہو تو ’’کلونجی‘‘سے متعلق بھی ایسی ہی کوئی معلوماتی تحریر شامل کریں، کیوں کہ میرے خیال میں کلونجی تو انجیر سے بھی کہیں زیادہ فائدہ مند ہے۔ (نورالصّباح ندیم)

ج: جی ضرور۔ اِن شاء اللہ تعالیٰ۔

٭ 19اگست کے ’’سنڈے میگزین‘‘ میں ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کے صفحے پر ایک لفظ ’’عَش عَش‘‘ کو بالکل غلط تلفّظ کے ساتھ ’’اَش اَش‘‘ لکھ دیا گیا۔ ایک معیاری اردو جریدے سے ایسی غلطی کی توقع نہیں تھی۔ (زینب نور)

ج: درست لفظ ’’اَش اَش‘‘ ہی ہے۔ ’’معیاری جریدہ‘‘، دراصل غلط العام الفاظ کی اصلاح ہی کی کوشش کررہا ہے۔ آپ نے ہمارے یہاں کئی اور الفاظ مثلاً توتا، قسائی، ازدحام، گم صُم، طراوت، اِستادہ وغیرہ بھی چَھپے دیکھے ہوں گے، تو یہ دراصل غلط لکھے جانے والے الفاظ ہی کے درست تلفّظ ہی ہیں۔ فرہنگِ آصفیہ: جلد اوّل، ص 173پر ’’اَش اَش کرنا‘‘ کے معنی اس طرح درج ہیں، ’’فعلِ متعدی، نہایت خوش ہونا، واہ واہ کرنا، خوشی کے مارے وجد کرنا، تحسین و آفرین کرنا‘‘۔ یہ دراصل عربی لفظ ’’اشاش‘‘ تھا، جس کے معنی شادی و انبساط یا خوشی منانے کے تھے۔ اُردو میں اسے بگاڑ کر نہ صرف عَش عَش کرلیا گیا، بلکہ خلافِ قاعدہ ’’عیش‘‘ کو اس کا مآخذ بھی قرار دے دیا گیا۔

٭ کبھی صُبح بھیجا ہوا مضمون، شام کو زینت، کبھی صبحِ اُمید اور شامِ انتظار کی کشمکش، پھر بھی تُو میرا شوق، میرا انتظار دیکھ۔ کسی نے آج اپنی چِٹھی میں لکھا، عزیزہ انجم نظم سے نثر پر آگئیں۔ خوشی ہے کہ پڑھنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں۔ عرض صرف یہ ہے کہ نثر و نظم دونوں ہی اظہار کے طریقے اور دونوں رب کریم ہی کی عطا ہیں۔ (عزیزہ انجم)

ج: جی بے شک۔ اورخداداد صلاحیتوں پر تو بندہ رب کا جس قدر بھی شُکر گزار ہو، کم ہے۔

تازہ ترین