• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بہت ہی گہرا کنواں تھا۔جتنا گہرا تھا ،گولائی میں اتنا ہی بڑا۔اس کی بناوٹ بھی عجیب تھی ،عام اینٹوں کی جگہ اس میں بڑے بڑے سرخ پتھر استعمال ہوئے تھے جنہیں دیکھ کراندازہ ہوتا تھا کہ یہ کنواں کئی سو سال پہلے تعمیر کیا گیا ہوگا۔کنوئیں کے ارد گر د کوئی آبادی نہیں تھی ،بس ایک چٹیل میدان تھا اور چند اونچی نیچی گھاٹیاں ۔کہیں کہیں البتہ کسی کھنڈر کے آثار دکھائی دیتے تھے جنہیں دیکھ کر لگتا تھا کہ یہاں قدیم زمانے میں کوئی قوم آباد رہی ہوگی۔لیکن یہ کنواں ان کھنڈرات سے قدرے فاصلے پر تھا اور اپنی ہئیت کے اعتبار سے کوئی عجوبہ ہی معلوم ہوتا تھا۔کبھی کبھی اس کنوئیں میں سے عجیب و غریب آوازیں بھی سنائی دیتیں جو سرگوشیوں معلوم ہوتیں ۔لیکن پھرجلد ہی یہ سرگوشیاں چیخوں میں بدل جاتیں اور یوں لگتا جیسے لا تعداد بد روحیں چنگھاڑ رہی ہوں لیکن یہ بدروحیں نہیں عجیب الخلقت انسان تھے۔انکے سر جسموں کے مقابلے میں بہت بڑے تھے اور آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں ،ان کی زبانیں باہر کو لٹکی ہوئیں تھی اور ہونٹ موٹے اور سیاہ تھے ۔یہ لوگ ،جو کئی صدیو ں سے اس کنویں کی تہہ میں بیٹھے تھے ،جذبات سے بالکل عاری دکھائی دیتے تھے ۔انکی تعداد ہزاروں میں تھی ۔یہ لوگ سارا سارا دن اپنی باریک گردن اونچی کر کے اوپر کی طرف ٹکٹکی لگائے رکھتے اور جب رات ہوتی تو گردنیں لٹکا کر سو جاتے اور اگلے دن صبح پھر اوپر کی طرف منہ کرکے بیٹھ جاتے ۔یوں لگتا تھا جیسے انہیں کسی کا انتظار ہو۔اس عجیب الہئیت کنوئیں کی گہرائی اسقدر ابنارمل تھی کہ انہوں نے آج تک وہاں روشنی کی کرن نہیں دیکھی تھی ۔جس دن آسمان سرخی مائل ہوتا ،فضا میں جھکڑ چلتے، آندھی اور تیز ہوائیں چلتیں یا طوفان کے آثار دکھائی دیتے،اس دن کنوئیں کی ایکٹیویٹی قابل دید ہوتی ۔ کنوئیں کے باسیوں میں جوش و خروش بھر جاتا اور وہ محض گردن لٹکا کر اوپر کی طرف دیکھنے کی بجائے اچھل اچھل کر کنوئیں سے باہر دیکھنے کی کوشش کرتے مگر اس حرکت کا کوئی فائدہ نہ ہوتا۔الٹا وہ ایک دوسرے کو اپنے پاؤں تلے روند ڈالتے مگر کسی کے بھی چہرے پر ذرا سا بھی ملال نہ آتا۔تھوڑی دیر بعد جب آسمان صاف ہو جاتا اور سرخ آندھی تھم جاتی تو کنوئیں کے باسیوں کی اچھل کود بھی ختم ہو جاتی اور وہ مایوس ہو کر بیٹھ جاتے ۔ایسا نہیں تھا کہ وہ لوگ کنوئیں سے نکلنا نہیں چاہتے تھے ۔وہ سب اس قید سے نکلنا چاہتے تھے مگرکسی کو بھی طریقہ معلوم نہیں تھا۔انہیں بس اپنے آباؤ اجدادسے یہ پتہ چلا تھا کہ جس روز سرخ آندھی آئے گی وہ دن ان کی آزادی کا دن ہوگا ۔کیسے ؟ یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔کچھ کا خیال تھا کہ اس آندھی کے نتیجے میں ان سے بہتر شکل کی کوئی ذی روح ان کی طرف متوجہ ہوگی اور انہیں اس اندوہناک قید سے نجات دلائے گی۔خیال تو برا نہیں تھا مگر افسوس کہ اب تک کوئی خوش شکل روح انہیں ریسکیو کرنے نہیں آئی تھی۔
کنوئیں میں رہنے والوں میں ایک گروہ ایسا بھی تھا جو ان سب باتوں پر یقین نہیں رکھتا تھا۔اس گروہ کے اراکین کا خیا ل تھا کہ انہیں خود کنوئیں سے باہر نکلنے کی کوشش کرنی چاہئے مگر کنوئیں کی اکثریت اس خیال کو سرے سے مضحکہ خیز سمجھتی تھی ۔ان کے خیال میں کنوئیں کی ساخت کچھ ایسی تھی کہ اول تو گھٹا گھوپ اندھیرے میں اس کی دیواروں پر چڑھا ہی نہیں جا سکتا تھا اور اگر ایسا ہو بھی جاتا تو ان دیواروں کی اونچائی اس قدر زیادہ تھی کہ انہیں عبور کرنا نا ممکن تھا۔مگر وہ گروہ یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھا۔اس گروہ کا خیال تھا کہ یہ تمام سنی سنائی باتیں ہیں جو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتی چلی آ رہی ہیں اور بغیر تجربے کے مانی جاتی ہیں ۔جب بھی وہ گروہ کنوئیں سے باہر نکلنے کی کوئی ترکیب لڑاتا ،اسے طرح طرح کے طعنے دئیے جاتے جن سے ان کا مورال ڈاؤن ہو جاتا اور وہ سب تھک ہار کر بیٹھ جاتے ۔ایک دن پھر آسمان سرخ ہو ااور تیز ہوائیں چلنے لگیں۔ کنوئیں والوں نے ہمیشہ کی طرح جب یہ منظر دیکھا تو چیخنے چلانے لگے ۔اس دفعہ آندھی کی شدت بہت زیادہ تھی اور آسمان تو یوں ہو چلا تھا گویا کسی نے سرخ رنگ پھیر دیا ہوا۔یہ ماحول کئی روز تک ایسے ہی رہا،اس دوران کنوئیں والوں نے بھی کچھ زیادہ ہی اچھل کود کی ،انہیں یقین ہو گیا کہ اس دفعہ ان کی قید ختم ہونے کو ہے کیونکہ اس سے پہلے کبھی بھی سرخ آندھی کا دورانیہ اتنا طویل نہیں ہواتھا۔اور تو اور وہ کنوئیں کا وہ ”باغی“ گروہ بھی ڈبل مائینڈڈ ہو گیا۔انہیں لگا کہ جیسے واقعی کنوئیں کے باہر کوئی موجود ہے جو انہیں نکانے کے لئے پر تول رہا ہے ۔
جب آندھی ختم ہوئی تو کنوئیں والوں کو کسی شخص کی آواز سنائی دی ،یوں لگا جیسے کوئی انہیں کنوئیں کے باہر سے پکاررہا ہے اور ان کی مدد کرنا چاہتا ہے۔یہ احساس ہوتے ہی انہوں نے زور زورسے چلانا شروع کردیا۔مدد کرنے والے شخص نے جب یہ گریہ و ززاری سنی تو اس کا دل پسیج گیا۔کنوئیں کے باہر ایک نہایت موٹی اور لمبی رسی موجود تھی جو ممکن ہے کسی زمانے میں کنوئیں میں ڈول لٹکانے کے کام آتی ہو ۔اس نے فوراً وہ رسی کنوئیں میں لٹکائی اور کنوئیں کے باسیوں کو پکار کر کہا کہ وہ ایک ایک کرکے اس رسی سے لٹک کر باہر آ سکتے ہیں ۔لیکن جونہی وہ رسی ان تک پہنچی ،ان میں سخت کھینچا تانی شروع ہو گئی ،ہر کسی کی کوشش تھی کہ سب سے پہلے وہ رسی سے لٹک کر باہر نکلے ۔اسی کشمکش میں انہوں نے ایک دوسرے کو بھنبھوڑنا شروع کردیا۔آن ہی آن میں وہاں لاشوں کا ڈھیر لگ گیا۔یہ منظر دیکھتے ہی اس شخص نے رسی واپس کھینچ لی اور کنوئیں والوں کو سخت لعنت ملامت کی۔کچھ دیر کے لئے کنوئیں میں خاموشی چھا گئی لیکن پھر ان میں سے ایک اٹھا اور اپنی گردن اونچی کر کے مدد کرنے والے کو یقین دلایا کہ دوبارہ ایسا نہیں ہوگا،رسی پھر پھینکی جائے ۔مدد کرنے والے نے اس مرتبہ رسی پھینکنے کی بجائے انہیں مشورہ دیا کہ وہ ایک دوسرے کے کندھوں پر پیر رکھ کر بھی باہر نکل سکتے ہیں ۔یہ بات سن کر کنوئیں میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں اور آہستہ آہستہ وہ چہ مگوئیاں چیخ و پکار میں بدل گئیں ۔اب کی بار مدد کرنے والے پر آشکار ہوا کہ ان میں سے کوئی بھی سب سے نیچے کھڑے ہونے کو تیار نہیں لہٰذا یہ تجویز بھی قابل عمل نہیں ۔اس سارے عمل کے دوران بہت وقت گذر گیا۔کنوئیں کے باسی ایک ایک کرکے مرنے لگے۔ان کی یہ حالت دیکھ کر مدد کرنے والے کو ایک مرتبہ پھر ان پر ترس آ گیا ۔اس نے آخری مشورے کے طور پر کنوئیں والوں کو بتایا کہ اس کنوئیں سے نکلنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ وہ لوگ کنوئیں کے اندر سے وہ راستہ تلاش کریں جو اس کنو ئیں کی تعمیر کے دوران بنایا گیا تھا،اس نے بتایا کہ یہ راستہ تلاش کرنے میں وہ اسی صورت کامیاب ہو سکتے ہیں اگر ایک دوسرے کی مدد کریں ،اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو آئندہ کئی برسوں تک وہ کبھی باہر نہیں آ سکیں گے ۔کنوئیں کے باسیوں نے اسے بتایا کہ یہ ممکن نہیں کیونکہ کنوئیں میں اس قدر اندھیرا ہے کہ اس قسم کا راستہ تلاش کرنا قریباً نا ممکن ہے لیکن مدد کرنے والے نے اس بات کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھا اور رخصت ہوگیا ،کنوئیں کے باسی اسے پکارتے ہی رہ گئے۔لیکن اس کے جانے کے بعد پہلی مرتبہ کنوئیں والوں نے سورج کی ایک کرن دیکھی جس سے کنوئیں میں روشنی ہو گئی۔اب انہیں راستہ تلاش کرنے میں کوئی دقت نہیں ہونی چاہئے تھی !
تازہ ترین