• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
محمد مہدی
اوسوالڈ سپنگلر کی کتاب Decline of the West نے پوری دنیا بالخصوص مغربی دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا تھا بلکہ اس تہلکے کے آثار آج تک محسوس ہو رہے ہیں۔ تہذیبوں اور ممالک کی جہاں پر زوال کی وہ نشانیاں بیان کرتا ہے وہاں اس نے رومی جمہوریہ کے زوال کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ ’’یہ مقولہ کہ سیزر سے قبل تمام رومی تاریخ (250ق م) مکمل طور پر جعلسازی ہے بالکل درست ہے۔ یہ سب موجودہ دور کی تحقیقات کا نتیجہ ہے۔ کلاسیکی دنیا تاریخ کے بارے میں کیا نقطہ نظر رکھتی تھی اس کا اندازہ اسکندر کے دور سے سیاسی، روحانی تناظر کی رومانوی داستان میں ملوث ہو جانے سے کیا جا سکتا ہے۔ داستان اور تاریخ میں فرق کا نمایاں ہونا رومی جمہوریہ کے زوال میں شروع ہوا۔ عوام نے شعوری طور پر آزاد ہو کر اساطیر اور دیوی دیوتائوں کے انتخاب میں سوجھ بوجھ کا مظاہرہ شروع کیا۔ مذہب کا وجود برائے نام رہ گیا اور گوئٹے اور نٹشے کے مطابق اس دور کے رومی معاشرت کا مذہب مروجہ ادب کی پیداوار ہے‘‘۔ بدقسمتی سے رومی زوال کی یہ نشانی وطن عزیز میں آج بھی پوری طرح جلوہ فگن ہے بالخصوص خارجہ معاملات میں ہماری توقعات داستانوں کے فرضی ہیروئوں کی مانند ہے حالانکہ حقیقت اس سے کوسوں دور ہوتی ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے وقت بھی یہ تصور دے دیا گیا تھا کہ ہمیں بچانے کوئی اور آئے گا اور اب میڈیا اور سوشل میڈیا کے دور میں یہ تصور کہ ہم فلانے کی اس طرح کی ضرورت ہیں۔ پاکستان نے گزشتہ حکومت کے زمانے میں اپنی تاریخ کا سب سے بڑا معاشی معاہدہ سی پیک کی صورت میں کیا جو بجا طور پر قابل تحسین بھی ہے۔ سی پیک اس وقت اتنا موضوع بحث ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کے ڈین آف آرٹس ڈاکٹر اقبال چاولہ اور ڈاکٹر امجد مگسی نے چینی اسکالرز کے ہمراہ ایک بین الاقوامی سیمینار منعقد کروایا کہ جس میں راقم الحروف نے اپنی گزارشات پیش کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں بالخصوص امریکہ اس معاہدے کے اثرات کا نہ صرف چین کے حوالے سے تجزیہ کر رہا ہے بلکہ پاکستان کے کردار کو بھی سمجھنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہ معاہدہ کرنے پر وہاں ایک ناراضی بھی موجود ہے اور اس ناراضی کے اثرات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ایک تو اس منصوبے پر دستخط کرنے کے سیاسی اثرات سابقہ حکومت کے لئے قائم ہوئے جو بالکل واضح طور پر موجود نظر بھی آ رہے ہیں۔ دوئم اس سے پاکستان کے امریکہ کی ریاست سے جس سطح پر تعلقات ہیں وہ مزید گمبھیر ہو رہے ہیں جو پہلے ہی شک و شبہ کے زیر سایہ چل رہے تھے۔ پاکستان کی نوزائیدہ حکومت سے معاملات کرنے کے حوالے سے ویسے ہی بین الاقوامی دنیا شش و پنج کا شکار ہے کہ ان سے معاملات کو طے کرنے سے کیا معاملات طے ہو سکیں گے یا پاکستان میں طاقت کے اصل مرکز سے ہی معاملات کو رکھنا مناسب ہو گا۔ اس سلسلے میں بہت واضح طور پر امریکہ کا بیان سامنے آیا کہ جب مائیک پومپیو پاکستان آ رہے تھے تو پینٹاگون نے بیان دیا کہ پاکستان کی فوج سے روابط جنوری سے برقرار ہیں۔ اس بیان سے یہ نتیجہ اخذ کرنا قطعاً مشکل نہیں کہ امریکی حکومت درحقیقت اب کس طرف دیکھ رہی ہے۔ افغانستان کا مسئلہ امریکہ کے نزدیک ایک ایسا معاملہ ہے جو اب سی پیک میں ہونے والے بتدریج اقدامات سے جڑا ہوا ہے۔ امریکہ سے تلخ تعلقات اس وقت ایک حقیقت بن چکے ہیں اب دوسرا معاملہ چین سے مربوط ہے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے تک سی پیک اس انداز میں رواں دواں تھا کہ پاک چین تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر کرتا جا رہا تھا مگر چین کے وزیر خارجہ کے حالیہ دورے سے قبل ہی نوزائیدہ حکومت کی جانب سے ایسے بیانات سامنے آنا شروع ہو گئے کہ جس سے یہ محسوس ہونے لگا کہ سی پیک کا معاملہ کھٹائی میں پڑ سکتا ہے۔ دوسری طرف رزاق دائود کے ایک برطانوی اخبار کو دیئے گئے مبینہ انٹرویو سے یہ واضح ہوگیا کہ سب اچھا نہیں ہے۔ اور دوستوں میں جب سب اچھا نہ ہو تو ایسی صورت میں برا نتیجہ سامنے آنے کے امکانات بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ امریکہ سے تعلقات کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ تصور کرنا کہ چین سے بھی معاملات گزشتہ حکومت کی سطح پر نہیں رہیں گے ایک سوہان روح تصور بن جاتا ہے۔ جب چین سے تعلقات کا ذکر امریکہ کے پہلو بہ پہلو کیا جا رہا ہے تو اس سے یہ تصور اخذ کر لینا درست نہیں ہو گا کہ میں چین کے ساتھ مل کر کسی بلاک میں جو امریکہ مخالف ہو شامل ہونے کا تصور پیش کر رہا ہوں۔ کیونکہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اس نوعیت کے بلاکوں کی سیاست ماضی بن چکی ہے۔ ویسے بھی اس بلاک میں ایک دوسرا طاقتور امریکہ مخالف ملک روس کو سمجھا جاتا ہے اور روس کے پاکستان سے تعلقات کی اس وقت یہ حالت ہے کہ صدر پیوٹن نے جو وہاں پر ہر کام کے کرتا دھرتا ہیں عمران خان یا ڈاکٹر عارف علوی کو مبارک باد تک دینا پسند نہیں کیا۔ ان حالات میں بلاکوں والی باتیں کرنا یا کسی کے خلاف یا کسی کی حمایت میں محاذ قائم کرنے اور اس کا حصہ بننے کی باتیں صرف وہ لوگ ہی کر سکتے ہیں جو داستان گوئی سے مجمع اکٹھا کرنے کا کام کر رہے ہوں۔ ایسی داستانیں سنانے والے اس امر کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ بالفرض ایسا کوئی محاذ قائم ہو بھی جائے تو اس صورت میں صرف ایک طرف پلڑا جھکانے سے وہی نتائج نکلیں گے جو امریکہ اور سوویت یونین کے تصادم میں نکلے تھے۔ اس وقت بھی یہ صورتحال ہے کہ امریکہ اور چین دنیا کی ان دو بڑی طاقتوں کے مفادات کا ٹکرائو پاکستان کی سر زمین پر ہو رہا ہے۔ اور ہم ابھی تک دو برادر اسلامی ممالک کے پاکستانی سر زمین پر ٹکرائو پرانی پراکسیوں کے نتائج کو بھگت رہے ہیں۔پاکستان میں موجود حقیقی فیصلہ ساز قوت کو سی پیک اور اس حوالے سے پالیسی سازی کرتے ہوئے خیال رکھنا چاہئے کہ ہم کسی کی بھی مخالفت کو اپنے مفاد میں نہیں پاتے۔ ملک کو مشرکات پر لا کر اختلافات کے برے نتائج سے بچا جا سکتا ہے۔ کیونکہ صرف عظمت کے قصے داستان میں ہوں گے۔ حقیقت صرف حقیقت ہوتی ہے۔
تازہ ترین