• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حق گوئی و بیباکی کے پیکرحامد میر دنیائے صحافت کے وہ انوکھے لاڈلے صحافی ہیں جنہوں نے کھیلن کو چاند تو نہیں مانگا تھا، ایک پیہم جدوجہد کا رستہ ہی اپنایا تھا۔ پھرکیوں ان کے قتل کا سامان کیا گیا۔ اللہ نے انہیں اس حادثے سے بطور خاص کیوں بچایا؟ یہ ایک اشارہ ہے کہ انہیں محفوظ رکھنا کسی بڑے مقصد کے حصول کاموجب ہے۔ وہ ہنستے مسکراتے چہرے کے ساتھ اپنی عقابی نظریں جب گاڑھ دیتے ہیں توکتنے ہی سیاہ پردے اٹھ جاتے ہیں۔ انہوں نے ناحق کو بے نقاب کرنے کا ورثہ اپنے والد وارث میر سے پایا ہے۔ کیا یہ ایک بم ان کے مشن کو زیروبم کرسکے گا
حق گوئی و بیباکی آئین جواں مرداں
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
اقبال کا یہ شاہین، اب نئی اورزیادہ اونچی فضاؤں میں پرواز کرے گا کہ یہ سیمرغ قاف ہے اوراس کا د امن سیاہ دھبوں سے صاف ہے۔ ایک بات کا گلہ ضرور ہے کہ قوم تو اس سورما کیساتھ ہے ہی لیکن اے طبقہ ٴ صحافت تیری غیرت کو کیا ہوا، یہی وہ موقع ہے کہ تمام چینلز، اخبارات اپنے ضمنی نظریاتی اور رقابتی فاصلوں کو مٹا کر حامد میر کے ارد گر د ایسا حصار بنالیں کہ ان جیسے اوربھی نڈر صحافی پیدا ہوں اور جوہیں وہ یہی چلن اختیار کریں۔ موت ایک ڈیڈ لائن ہے۔ اس کا کسی بم حادثے یا بیماری سے کوئی تعلق نہیں اسی لئے آج میرِ صحافت حامدمیر ہم میں موجود ہیں اور ان کے حوصلے پہلے سے زیادہ بلند۔ ان کیلئے یہ شعر ایک تمغہ ٴ بسالت ہے
ہرگز نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدہٴ عالم دوام ما
(وہ انسان کبھی نہیں مرتا جس کا دل جذبہٴ عشق سے زندہ ہو بلاشبہ، صفحہ ہستی پر ہمارے امر ہونے کی مہر ثبت ہوچکی ہے
وہ اپنا خرامِ جرأت جاری رکھیں تاکہ لوگ کہیں
ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے
کہے دیتی ہے شوخی نقشِ پا کی

بھارتی وزیر داخلہ نے کہا ہے: مذاکرات کے لئے ہمارے دروازے کھلے ہیں۔ کچھ عناصر جان بوجھ کر کشمیر میں صورتحال خراب کرنے کے درپے ہیں۔
”بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی“ مسئلہ کشمیر کے حل پر ٹھیک ہے کہ مذاکرات کو 65برس بیت گئے اور کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا لیکن ہم نے بھی اس سلسلے میں مخالف سمت میں ٹریفک چلائے رکھی ، جس کا انجام صفر نکلا۔ ایک طرف مذاکرات در مذاکرات کرتے رہے، ساتھ ہی ہمارے کیمپ سے ایک ہزار سال تک جنگ جاری رکھنے اور یہاں تک کہ بھارت کو ایٹم بم سے اڑانے کی دھمکیاں بھی دی جاتی رہیں جبکہ یہ تو ممکن نہیں کہ
جنگ بھی رہے اور امن بھی
اگر مذاکراتی عمل پر حربی و جنگی حاشیہ آرائی نہ کرتے تو امکان تھا کہ یہ مذاکرات ضرور رنگ لاتے اور بھارت خوفزدہ ہو کر اتنا لاؤ لشکر بھی اکٹھا نہ کرتا۔ آج اگر وہ اسلحہ کے انبار لگا رہا ہے توہماری طرف سے بھی اسے ازلی دشمن کا خطاب دے دیا گیا ہے کہ گویاہم نے ہی اسے عسکری تیاریوں پر آمادہ کیا۔ آج کے حالات میں کہیں بھی اس دنیا میں جنگ کے ذریعے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوسکا۔ رات دن دنیا بھر میں دھڑا دھڑا اسلحہ فیکٹریوں کی چمنیوں سے دھواں اٹھ رہا ہے۔ کوئی بھی غیرمسلح نہیں۔ کوئی پیار کی بات بھی کی جائے ۔ہر سروِ آزاد کو آرپار آنے جانے دیاجائے ، ہم نے صرف ہندو سے تعصب کو مخصوص کردیا ہے۔ اپنی لڑائیوں سے آنکھیں موند لیں۔ کیا ہم ہندو سے پیار کرتے ہیں، اگر کرتے ہوتے تو وہاں آنجہانی بال ٹھاکرے پیدا نہ ہوتے، اگر پہلے ہی سے کسی کو قابل نفرت قرار دے دیا جائے تو کیاوہ آپ کی تبلیغ پر کان دھرے گا۔ ہم سے زیادہ تو صوفیہ نے سیاسی ہم آہنگی پیدا کی تھی کہ یہی کہتے رہے: ”میرا در کھلا ہے کھلا ہی رہے گا تمہارے لئے“ منفی اور جنگجویانہ سوچ سے ہٹ کر بھی دکھائیں۔ یہی مذاکرات مسئلہ کشمیر بھی حل کرنے کاذریعہ بن جائیں گے، آنے جانے کے راستے کھولنے سے پاکستان بھارت نہیں بن جائے گا۔

خبر ہے کہ عمارتوں کو جاذب ِ نظر بنانے کے لئے جھروکے بنانے کی روایت ختم ہوگئی۔ اہم ترین مقصد یہ ہے کہ خواتین پردے میں رہتے ہوئے باہر رونما ہونے والے واقعات دیکھ سکیں۔
جس کسی کے دماغ میں یہ خیال پیداہوا ہے اس نے عمارتوں کو جاذب ِ نظر بنانے کی اوٹ میں خواتین کو جاذب ِ نظر بنانے کیلئے جھروکوں پر زور دیا ہے۔ جب جھروکے ہی جھروکے ہوں گے تو ہر جھروکے کے سامنے اک جھروکہ ہوگا اور انہی جھروکوں سے صدا بلند ہوگی
کل شب میں نے دیکھا چاند جھروکے میں
رات کو سبھی نے دیکھا ہوگا کہ تارے چھپ چھپ کر چاند کو دیکھتے ہیں البتہ انہیں صبح سے بہت ڈر لگتا ہے شاید اسی لئے اقبال نے کہا تھا
ڈرتے ڈرتے دم سحر سے تارے کہنے لگے یہ قمر سے
چلنا چلنا مدام چلنا کام ہے صبح و شام چلنا
جھروکے کی ساخت شاعرانہ ہوتی ہے، اس میں کھڑے ہو کر مزاج عاشقانہ بھی ہوسکتے ہیں اور اس میں کوئی حرج بھی نہیں۔ بند ڈبے جب ایک دوسرے پرکھلیں گے تو کیا پتہ فیض# کی یہ حسرت پوری ہوجائے
کہیں سے بہر خدا اب تو ذکرِ یار چلے
جھروکے فن تعمیر کا اور عشقِ بے پیر کا شاہکار ہوتے ہیں اوریہ آئیڈیا بھی اچھی اور موثر آڑہے جسے لے کے کہا گیا کہ جھروکے بنانے چاہئیں۔ اس طرح پردے میں رہنے والی خواتین بھی باہر کے واقعات پر نگاہ رکھ سکتی ہیں۔شاید یہ بھلا دیا گیا کہ
پردے میں رہنے دو پردہ نہ اٹھاؤ
پردہ جو اُٹھ گیا تو بھید کھل جائے گا
کیا جھروکوں کے ذریعے خواتین کو آزاد کرنے سے بہتر نہیں کہ وہ باغوں میں بہاروں میں ٹھنڈی گھاس پر ننگے پاؤں خرام کرسکیں ا ور باذوق طبائع کہہ سکیں
دیکھو تو دلفریبیٴ انداز نقشِ پا
موجِ خرامِ یار بھی کیا گل کتر گئی

میاں نواز شریف فرماتے ہیں: ”آئندہ الیکشن مسلم لیگ ن ہی جیتے گی۔ موجودہ حکمرانوں سے کہتا ہوں آئندہ اقتدار کے خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔“
علم غیب توصرف اللہ کو ہے۔ یہ میاں صاحب کوکیسے معلوم ہوگیا کہ یقینا آئندہ ان کی جماعت ہی جیتے گی۔ ضرور کوئی اوربات ہے۔ کسی زمینی ہاتف ِ غیبی نے سگنل دے دیا ہوگا لیکن وہ جمع خاطررکھیں ابھی زرداری اپنی رصدگاہ میں بیٹھے ستاروں کا حساب لگا رہے ہیں کہ کس کس کو اپنے برج میں داخل کریں، مسلم لیگ ن تو تاحال ایک تارا ہے جو سرشام تن تنہا دمکتاہے اور کچھ دیربعد نہ جانے جاتی عمرہ کے کس گنبد میں ہریسہ کھانے لگتا ہے اورا گلی شام زیادہ زور سے چمکتا ہے۔ بس ایک طلوع ہے جب کہ طلوع کچھ نہیں ہوتا، کچھ خدشات کچھ عالمی خطرات اور عالمی استعماری قوتوں کا دامن کھینچنے کے سواکوئی اور مرغوب مشغلہ ہی نہیں۔ یہ سیاست سیاست کی تسبیح پھیرنے یا لکھنے سے کوئی رموز ِ سیاست سے پردہ نہیں اٹھا سکتا۔ جس انداز سے میاں صاحب نے اپنے جیتنے کی خبر دی ہے اس سے تو یوں لگتا ہے کہ یہ خبر بھی شاید زرداری آبزرویٹری ہی سے ریلیز ہوئی ہے۔ آخر ہم باہمی مفاہمت کے قصہ ٴ پارینہ کوکیسے بھول سکتے ہیں
کبھی ہم کبھی تم ناچ رے میور بھاگڑ بم بم بم
رہ گئی بات موجودہ حکمرانوں کے خواب ِ اقتدار کی تو وہ یہ بھی ذہن میں رکھ لیں کہ
ہیں اقتدار میں ہنوز جو جاگے ہیں اقتدار میں
جیالا کمپنی لمیٹڈ پیپلزپارٹی گروپ آف بھٹو، نے خواب نہیں دیکھا وہ پانچ سال پورے کرنے والی ہے البتہ کچھ کہہ نہیں سکتے کہ بی بی کے سربالیں سے دھواں سااٹھتا ہے اور آواز آتی ہے
آ جاؤ تڑپتے ہیں ارماں اب رات گزرنے والی ہے
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا کیونکہ سیاسی گھوڑے دوڑ رہے ہیں مگر اصطبل زرداری کے پاس ہے۔ تاہم غیرموزوں ہی عرض ہے
ابھی دیکھتے ہیں کہ ہوتا ہے کیا کیا
حکمرانوں سے آگے حکمراں اور بھی ہیں
تازہ ترین