• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پولیس کے نظام میں ایسی اصلاحات کہ وہ شہریوں کے لیے خوف و دہشت ، رشوت ستانی اور ظلم و ستم کے بجائے دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کی طرح تعاون، ہمدردی اور سہولت رسانی کی علامت بن جائے ، روز اول سے اہل پاکستان کی ایک ناگزیر ضرورت ہے لیکن عملی حقیقت یہ ہے کہ سات دہائیاں گزرجانے کے بعد بھی ہماری پولیس بنیادی طور پر دور غلامی کے ڈیڑھ سو سال پرانے قانون کے تحت کام کررہی ہے۔ اس فرسودہ نظام کو ایک آزاد قوم اور مہذب معاشرے کی ضروریات کے مطابق بدلنے کے لیے چار ماہ پہلے عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر لاء اینڈ جسٹس کمیشن نے پولیس کے سابق اعلیٰ افسروں پر مشتمل ایک 14رکنی پولیس اصلاحات کمیٹی تشکیل دی تھی جس نے حال ہی میں تین سو سے زائد صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ سپریم کورٹ کو پیش کردی ہے۔ کمیٹی کی سفارشات میں پولیس کو غیرسیاسی بنانے کو اولین ترجیح دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پولیس نظام میں اس وقت تک بہتری نہیں آسکتی جب تک پولیس کو غیر سیاسی اور مالی و انتظامی طور پر خود مختار نہ بنا یاجائے۔سفارشات میں محکمہ پولیس کے اندر ایک ایسا خود احتسابی نظام قائم کرنے کی ضرورت کا اظہار کیا گیا ہے جس کی موجودگی میں کوئی پولیس اہلکار یا افسر اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے کاسوچ بھی نہ سکے۔کمیٹی نے اپنی ایک اور تجویز میں واضح کیا ہے کہ باہمی تنازعات کے متبادل حل میں پولیس اہم کردار ادا کرسکتی ہے اس لئے تمام صوبے اپنے تمام صوبائی قوانین کا جائزہ لیتے ہوئے اس ایشو پر قانون سازی کریں تاکہ عمومی نوعیت کے معاملات نچلی سطح پر حل ہو جائیں اورعدالتوں پر غیر ضروری بوجھ ختم ہو۔امید ہے کہ عدالت عظمیٰ اور وفاقی و صوبائی حکومتیں ان سفارشات کا جلد جائزہ لے کر انہیں حتمی شکل دیں گی ۔ پولیس کو بہتر بنانے، اسے سیاسی وابستگیوں سے پاک کرنے اور مالی و انتظامی خودمختاری دینے میں یہ امر بھی لازماً ملحوظ رکھا جانا چاہیے کہ پولیس ان اختیارات کو پوری ذمہ داری سے شہریوں کے بہترین مفاد میں استعمال کرے اور ملک کے پولیس اسٹیٹ بن جانے کا کوئی خدشہ پیدا نہ ہو۔

تازہ ترین