• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں ابھی سوچ رہا تھا کہ موجودہ حکومت کتنی فراخ دل ہے۔ اس نے بیگم کلثوم نواز کی وفات کے موقع پر اپنے سیاسی مخالفین کوبہت سہولتیں دیں۔قائد حزب اختلاف میاں شہبازشریف کو خصوصی طیارہ فراہم کیا گیا۔ نواز شریف، مریم نواز اورکیپٹن صفدر کووقت سے پہلے ہی پیرول پر رہائی دے دی گئی۔ ابھی صرف لندن سے وفات کی خبر آئی تھی کہ ادھر جیل کے دروازے کھول دیئے گئے۔ پھرپیرول پر دی گئی رہائی میں کئی روزکی توسیع کردی گئی تاکہ تدفین کے بعد قل خوانی ہوجائے اور قل خوانی کے بعد بھی ایک دن مل جائے۔ مسلم لیگ (ن) کی درخواست پر مشترکہ اجلاس بھی ملتوی کردیا گیا۔ ان سہولتوں کے طفیل سیاسی مخالفین کی توپیں خاموش رہیں۔ اب یہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں تنازع ہے کہ مادرِ جمہوریت کون ہے۔ بیگم نصرت بھٹو ہیں یا پھر بیگم کلثوم نواز؟ ویسے یہ خطاب پہلے بیگم نصرت بھٹو کودیاجاچکا ہے۔ ان کی قربانیاں بھی جمہوریت کے لئے زیادہ ہیں، ان کی زندگی میں دکھو ںکی تعداد بھی زیادہ ہے مگر میں پھربھی اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔ ابھی یہ باتیں سوچ ہی رہا تھاکہ بشیراپہلوان میرے پاس آ گیا۔ ایک زمانے میں بشیرا بھی جیل میں تھا۔ میں نے ایسے ہی وقت گزاری کے لئے بشیرے سے پوچھا کہ بشیرے! کوئی جیل کی بات سنائو۔آخر تم بھی تو جیل میں رہے ہو۔ چوریاں، ڈاکے تمہاراپیشہ ہی سہی مگر تم بڑے بہادر ہو۔ بشیرے نے میری طرف بڑی حیرت سے دیکھا اورپھر کہنے لگا ’’سر جی! آپ طنزکررہے ہیں۔ میرے ڈاکے اور چوریاں تو بہت معمولی نوعیت کی تھیں۔ میں نے اپنے ملک و قوم کا سرمایہ تو نہیں لوٹا۔ میں نے کوئی جھوٹ تو نہیں بولا۔ میری بیرون ملک توکوئی جائیداد نہیں۔ میرا بیرونی بینکوں میں کوئی پیسہ نہیں۔ میں نے اس غریب قوم کا پیسہ تو ہڑپ نہیں کیا۔ اگرمیں نے چھوٹا موٹا جرم کیاتھا تو میں نے جیل بھی کاٹی ہے۔ میں تو جیل میں بیمار نہیں ہوتا تھا۔ میں نے توکوئی بہانے بازیاں نہیں کیں۔ مجھے تو موجودہ حکومت پر حیرت ہو رہی ہے کہ اس نے نواز شریف اور دیگر کو کیوں اتنے دن پیرول پررہائی دی۔ انہیں ہتھکڑیاں بھی نہیں لگائیں، آپ کو یاد ہوگا کہ جب میری والدہ فوت ہوئی تھیں تو جنازہ پڑھنے کے لئے بڑی مشکلوں سے چند گھنٹوں کے لئے پیرول پر رہائی ملی تھی۔ میر ےہاتھوں میں ہتھکڑی تھی۔ میں کسی سے بغلگیر نہیں ہوسکتا تھا۔ کسی سے اچھی طرح ہاتھ بھی نہیں ملا سکتا تھا۔ سرجی! آپ مجھ پر طنز نہ کریں۔ آپ مان جائیں کہ امیر کے لئے قانون اور ہوتا ہے، غریب کے لئے کوئی اور قانون ہوتاہے۔ امیر کے لئے جیل میں بھی سہولتیں ہوتی ہیں جبکہ غریب کو وہاں بھی پیس کر رکھ دیا جاتا ہے۔ میں نے جیلوں میں اپنی آنکھوں سے ظلم ہوتے ہوئے دیکھاہے۔ انسانوں کی تذلیل دیکھی ہے۔ غریبوں کو سڑتے ہوئے دیکھا ہے۔ امیروں کو تو جیل میں بھی اے سی لگا کر دیاجاتا ہے۔ یہ فرق ختم ہونا چاہئے قیدی تو تمام مجرمان ہوتے ہیں۔ قیدیوں میں برابری ہونی چاہئے۔ امیروں نے اپنے لئے قانون الگ بنا رکھا ہے۔ وہ تو جیل میں جاتے ہی بیمار ہو جاتے ہیں پھر انہیں اسپتالوں میں منتقل کیاجاتا ہے۔ پھر انہیں زیتون اور شہد بھی مہیا کردیا جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے اس ’’اعلیٰ شہد‘‘ پر رات کو مکھیاں بھی آتی ہوں۔ اس کے برعکس میرے جیسے غریب قیدی جتنا مرضی بیمار ہوجائیں ہمیں کوئی اسپتال نہیں بھیجتا، ہمارے لئے علاج گاہ اور درس گاہ جیل ہی ہوتی ہے۔ یہاں اے کلاس، بی کلاس اور سی کلاس کی درجہ بندی ہے حالانکہ پڑھے لکھے لوگوں کوتوزیادہ سخت جیل ہونی چاہئے کہ انہیں سب کچھ پتا تھا مگر پھر بھی انہوں نے جرم کیا۔ سر! آپ کو برا نہ لگے توسچ یہی ہے کہ اس ملک کو پڑھے لکھے لوگوں نے زیادہ لوٹا ہے۔ اس ملک کی بربادی میں پڑھے لکھوںکا ہاتھ زیادہ ہے۔ یہاں کے ادارے برباد کرنے میں یہی پڑھے لکھے شامل ہیں۔ ان بابوئوں نے اس عظیم وطن کا ستیاناس کر دیا ہے۔ یہی قانون توڑتے ہیں، یہی قانون موڑتے ہیں، حیرت کی بات ہے یہ پھر بھی بابو کے بابو ہیں۔ ہم جب جیل سے رہا ہو کر آتے ہیں تو ہمیں طرح طرح کے القابات سے نوازا جاتا ہے اور جب یہ رہا ہوکر آتے ہیں تو انہیں جمہوریت کے سارے اعزازات پہنا دیئے جاتے ہیں۔ آپ جیسے لوگ لکھتے ہیںکہ فلاں شخص نے جمہوریت کی خاطر اتنی جیل کاٹی۔ آپ اس پیسے کا نام کیوں نہیں لیتے جو اس شخص نے لوٹا ہوتا ہے۔ آپ کو بھی سارا غصہ ہم غریبوں پر آتا ہے.....‘‘

بشیرے کی تقریر ختم ہوئی تو میں نے عرض کیا کہ میرے پیارے بشیرے میں نے تو ہمیشہ اس قلم کو سچائی کے لئے استعمال کیا ہے، تم مجھے بھی رگڑ گئے ہو۔ میں تو ان لٹیروں کے خلاف ہوں۔ ابھی میں رات ہی ایک ٹی وی رپورٹ دیکھ رہا تھا تو مجھے اپنے ایک ہم نام پر بہت غصہ آیا۔قصہ کچھ یوں ہے مظہر رفیق نامی اسٹاک بروکر 2017-18 میں سرمایہ کاروں کے ڈھائی ارب روپے لے کر لندن فرار ہوگیا۔ سیکورٹی ایکسچینج کمیشن کی ریگولیشن کے تحت سنگل ممبر کمپنی کو مارکیٹ میں شیئرز کی خرید و فروخت کی اجازت نہ ہونے کے باوجود مظہر رفیق ایسا کرتا رہا۔ یہ سب سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے افسران کی ملی بھگت سے ہوا۔ لوگ ہائی کورٹ میں گئے۔ ہائی کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود نیب بروکر مظہر رفیق اوراس کے بیٹے فرید مظہر کو گرفتار کرنے میںناکام رہی۔ مظہر رفیق پر مبینہ طور پر سابق وزیر خزانہ کے لئے منی لانڈرنگ کرنے کا بھی الزام ہے۔ کیا حسین اتفاق ہے کہ دونوں ایک ہی وقت میں لندن میں حالت مفروری میں عیش کی زندگی گزاررہے ہیں۔ اگر نیب مظہر رفیق کو گرفتار کرنے میںکامیاب ہو گیا تو پھر امکان ہے کہ اسحاق ڈار کے کئی کھاتے کھل جائیں گے۔ ایک مظہر رفیق کی وجہ سے ساڑھے آٹھ سو خاندان اذیت سے گزر رہےہیں۔ یہاں اس جیسے اور پتا نہیںکتنے کردار ہیں۔

نہیں بشیرے، ایسا نہیں، جن ملکوں میں انصاف ہوتا ہے، جہاں انسانوںکا خیال کیا جاتا ہے وہاں کے معاشرے مشکلات سے گزر کر بھی زندگی کا احساس دلاتے ہیں۔ آپ شام ہی کو لے لیجئے۔ شام پر امریکہ، اسرائیل اور کئی دوسرے ملکوں نے جنگ مسلط کی۔ اہل شام کھڑے رہے اور جنگ مسلط کرنے والوں کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ آج بھی بشار الاسد شام کے مقبول ترین رہنما ہیں۔ ان کی مقبولیت میں ان سہولتوں کا دخل ہے جو شام کے سربراہ بشار الاسد نے اپنے لوگوں کودے رکھی ہیں۔ شام میں سستی بجلی، سستی روٹی اور سستی ٹرانسپورٹ ہے۔ وہاں تمام لوگ فلیٹس ہی میں رہتے ہیں۔ شام میں صحت کی سہولتیں مفت ہیں۔ پہلی بارہ کلاسوں تک تعلیم بھی مفت ہے۔ وہاں گاڑیاں سڑک پر پارک ہوتی ہیں اور چوری بھی نہیں ہوتیں۔ ایک اور حیران کن بات سن لیجئے۔ بشارالاسد کی بیوی اسماکو کینسر ہے۔ اس کا علاج لندن میں نہیں ہورہا بلکہ دمشق کے ایک اسپتال میں ہو رہا ہے۔ آپ کو مزید حیرت اس بات پر ہوگی کہ بشار الاسد کے بچے پاکستان انٹرنیشنل اسکول میں پڑھے ہیں۔ یہ اسکول پاکستانی سفارتخانے کے تحت چل رہا ہے۔ شام میں انصاف کا بول بالا ہے۔ وہاں فرقہ بندی کے نام پر لڑائیاں بھی نہیںہوتیں۔ ایک نظراپنے بابوئوں پر بھی کر لیجئے۔ شام کی حکومت دمشق میں بین الاقوامی تجارتی میلہ کرواتی ہے۔ وہ حکومت پاکستانی حکومت کو خط لکھتی ہے کہ پاکستان اس تجارتی میلے کاحصہ بنے مگر ایک اہم وزیر کے پسندیدہ بابواس خط کوہوا نہیں لگنے دیتے بلکہ کسی ایسی جگہ چھپا دیتے ہیں کہ کسی کو یاد ہی نہ آسکے۔ موجودہ حکومت بھی ہرطرف ڈی ایم جی کے بابوئوں کو مسلط کر رہی ہے بابوئوں سے کب خیر ہوئی ہے خواہ بابو نام ہی کا کیوں نہ ہو۔ اس میں غرور اورتکبر جھلکتا رہتا ہے۔ ثوبیہ نیازی کی کتاب ’’میرا محرم راز‘‘ سے دوشعر آپ کی نذر کررہا ہوں کہ؎

وہ مرا درد آشنا ہی نہیں

میری سوچوں کو جانتا ہی نہیں

کیسے کہہ دوں اُسے مسیحا میں

جو مری سمت دیکھتا ہی نہیں

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین