• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معلوم ہوتا ہے چکوال اور راجن پور کے ڈپٹی کمشنروں نے سعادت حسن منٹو کا افسانہ’’نیا قانون‘‘ نہیں پڑھا۔ اگر پڑھا ہوتا تو آج وہ اپنی نوکری کی خیر نہ منا رہے ہوتے۔ افسانے کے منگو کوچوان نے سمجھ لیا تھا کہ انگریزوں کے زمانے کا1935 کا قانون آجانے کے بعد وہ آزاد ہو گیا ہے اور اب وہ شراب کے نشے میں دھت کسی گوری چمڑی والے کے حکم کی پروا نہیں کرے گا۔ اور اپنی قانونی آزادی کاپورا پوراحق استعمال کرے گا۔ وہ ’’نئے قانون‘‘ کے دھوکے میں آ گیا تھا اور اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ ہمارے سادہ لوح ڈپٹی کمشنر بھی یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ الیکشن کے بعد عمران خان کا نیا پاکستان بن گیا ہے۔ اب کوئی رکن اسمبلی، کوئی سیاسی چودھری، کوئی سردار یا کوئی وڈیرا ان سے غیر قانونی کام کرانے کی جرأت نہیں کرے گا۔ لیکن منگو کوچوان کی طرح وہ بھی نیا قانون اور نیا پاکستان کی خوش فہمی میں مارے گئے۔ چکوال میں تو تحریک انصاف کے ایک رہنما نے پٹواریوں اور گرداوروں کی باقاعدہ ایک فہرست ڈپٹی کمشنر کے حوالے کر دی کہ ان کا تبادلہ کر دیا جائے۔ راجن پور کے ڈپٹی کمشنر سے ہمالیہ سے بھی بڑی یہ غلطی ہو گئی کہ اس نے اپنے دفتر سے باہر نکل کر تحریک انصاف کے ایک سردار صاحب کا استقبال نہیں کیا اور وہ جو حکم دینا چاہتے تھے اسے نہیں سنا۔ ان دونوں ڈپٹی کمشنروں نے یہ ساری کتھا ایک خط میں لکھ کر اپنے کمشنروں اور دوسرے متعلقہ اداروں کو بھیج دی۔ یہ الگ بات ہے کہ ضابطے کے مطابق انہیں ایسا کرنا چاہئے تھا یا نہیں؟ وہ تو نئے پاکستان میں اپنا آئینی اور قانونی حق استعمال کر رہے تھے۔ اب اخبار اور ٹیلی وژن والے تو ایسی خبروں کی تلاش میں رہتے ہیں، وہ خط ان کے ہاتھ بھی لگ گئے اور خبر بن گئی۔ ہمارے پنجاب کے وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار نے، کہ وہ بھی اپنے قبیلے کے سردار ہیں، دونوں ڈپٹی کمشنروں سے جواب طلب کر لیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جن ضابطوں کے تحت یہ جواب طلب کئے گئے ہیں ان میں ڈپٹی کمشنروں کی نوکری بھی جا سکتی ہے۔ اس سے آگے کی خبر یہ ہے کہ الیکشن کمشنر نے چکوال کے رکن اسمبلی کے بارے میں شکایت متعلقہ قانونی ادارے کو بھیج دی ہے کہ وہ ضروری کارروائی کرے۔ چکوال کے رکن اسمبلی تو قانون کی زد میں آ گئے لیکن راجن پور کے سیاسی رہنماکے بارے میں کیا فیصلہ کیا گیا ہے؟ یہ ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ البتہ دونوں ڈپٹی کمشنر اپنی سادگی میں مارے گئے۔ کیا ان کی داد رسی بھی ہو گی؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا حالانکہ عمران خان سول سروس کے افسروں کو یقین دلا چکے ہیں کہ وہ آئین اور قانون کے مطابق بلا جھجک اپنے فرائض انجام دیں۔ ان کی پشت پناہی کی جائے گی بلکہ انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر آپ غلطی بھی کریں گے تو میں آپ کے ساتھ ہوں۔

بہرحال عمران خان نیا پاکستان بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وزیر اعظم کے دفتر میں جو گاڑیاں ہیں ان میں سے صرف دو رکھی جائیں گی باقی نیلام کر دی جائیں گی۔ چنانچہ وہ تمام گاڑیاں پرائم منسٹر ہائوس کے لان میں قطار اندر قطار کھڑی کر دی گئیں۔ اب ان میں سے کتنی نیلام ہو گئیں؟ ابھی تک معلوم نہیں ہوا۔ اور ہاں، ان گاڑیوں کے علاوہ چند بھینسیں بھی تو ہیں۔ ان پر بھی برائے فروخت کی تختی لگا دی گئی ہے۔ خود وزیر اعظم ہائوس بھی برائے فروخت ہی ہے کیونکہ عمران خان نے اس میں یونیورسٹی بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اول تو شک و شبہ کے مارے لوگ یہ کہتے نہیں تھکتے کہ یہ عمارت تعلیمی ادارہ بنانے کے لیے موزوں نہیں ہے۔ دوسرے کہا جا رہا ہے کہ تعلیمی ادارے صرف عمارتوں سے نہیں بنتے۔ تعلیمی ادارے بناتے ہیں ان میں پڑھانے والے اساتذہ۔ آپ وہ اساتذہ کہاں سے لائیں گے؟ ہماری عدلیہ بھاری بھاری تنخواہوں پر پہلے ہی اپنی برہمی کا اظہار کر چکی ہے۔ اگر آپ باہر سے اساتذہ لائیں گے تو وہ بھاری بھاری تنخواہوں کے بغیر نہیں آئیں گے (بلکہ پاکستان کے اندر سے بھی لائق اور قابل اساتذہ ایسے ہی نہیں مل جائیں گے) پھراتنی مہنگی یونیورسٹی میں داخلہ لینے والے طلبہ کو بھی خوب بھاری بھاری فیس دینا پڑے گی۔ لیجئے، یہاں ہم یہ سوال کرنا تو بھول ہی گئے کہ یہ یونیورسٹی سرکاری ہو گی یا غیر سرکاری؟ ہمارے ہاں سرکاری یونیورسٹیوں کا جو حال ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ اور اگر یہ غیر سرکاری ہو گی تو کن شرائط پر یہ پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کی جائے گی؟ یا پھر یہ پرائیویٹ اور پبلک سیکٹر مل کر چلائیں گے؟ ایسے ہی بہت سے سوال ہیں جو اپنا دوٹوک جواب چاہتے ہیں۔ یہی حال گورنر ہائوسوں اور گیسٹ ہائوسوں کا ہے۔ وہاں کیسے میوزیم بنائے جائیں گے؟ کیا ہمیں ایسے عجائب گھروں کی ضرورت ہے؟ کیا ہمارے پاس لاہور اور ٹیکسلا جیسے عجائب گھر اور لوک ورثہ جیسا ادارہ موجود نہیں ہے؟ اب رہی فائیو اسٹار ہوٹل بنانے کی بات؟ تو کیا آپ کے سامنے ایسی اسامیاں ہیں جو یہ ہوٹل بنانے پر تیار ہوں؟ اس کے علاوہ آپ کو یہ بھی تو دیکھنا چاہئے کہ لاہور کے گیسٹ ہائوس جیسی عمارتیں ہمارا قومی ورثہ ہیں۔ کیا آپ اپنا قومی ورثہ فروخت کریں گے؟ کراچی میں بھی یہی حال ہے۔ بلاشبہ، حکومت چلانے کے لیے آپ کو اربوں کھربوں روپیہ چاہئے مگر قومی اور تاریخی ورثہ پر ہاتھ ڈالنا تو مناسب نہیں۔ اب آخر میں ہم اپنی سادہ لوحی، اپنے بھول پن اور اپنی خوش فہمی کا اعتراف بھی کر لیں۔ ہم نے اب تک جتنی باتیں بھی کی ہیں ظاہر ہے ان پر کوئی بھی کان نہیں دھرے گا۔ ہو گا وہی جو پیا چاہیں گے۔ اور یہ پیا ہیں وزیر اعظم عمران خان۔ آپ ان کی جماعت کے کسی بھی کارکن یا رہنما سے پوچھ کر دیکھ لیجئے، ایک ہی جواب ملے گا ’’جو بھی عمران خان کہیں گے وہی ہو گا۔ ہم تو ان کے’’وژن‘‘ پر چل رہے ہیں‘‘۔ اور عمران خان کہہ رہے ہیں کہ دو سال کے اندر پاکستان میں دولت کی ریل پیل ہو گی۔ ہم کسی سے کچھ نہیں مانگیں گے، باہر کے لوگ ہم سے مانگیں گے۔ اگر عمران خان یہ کہہ رہے ہیں تو ٹھیک ہی کہہ رہے ہوں گے۔

تازہ ترین