• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طاقت ور ہو، مقتدر ہو، بڑا عہدہ ہو یا اعلیٰ افسر، اپنے سے کم درجے کے ملازم ’’نسبتاً کمزور یا قوت برداشت رکھنے والے طبعاً خاموش انسان کو ناچیز ہی گردانتا ہے، زور آور یہی سمجھتا ہے کہ اس کے ظلم و بربریت کو کوئی روک سکتا ہے نہ اس میں کوئی رکاوٹ بن سکتا ہے، طاقتور کم ظرفی کا مظاہرہ اسلئے بھی کرتا ہے کہ اسے یقین ہوتا ہےکہ اس کے منہ، ہاتھ اور دخل اندازی کرتے قدم بڑھتے ہی جائیں گے اور وہ سب کچھ روندے چلا جائے گا۔ بقول پروفیسر طاقت کے نشہ ور شاید بھول جاتے ہیں کہ زندگی ان کے ساتھ کیا برتائو کرے گی تادیر انہیں اس کا واقعی پتہ نہیں چلتا لیکن ناقابل ترید حقیقت یہی ہے کہ موت سب کے ساتھ ضرور برابر سلوک کرتی ہے۔یعنی رشتہ دیکھتی، عمر گنتی نہ بلند مقام کا اندازہ کرتی ہے اور نہ ہی طاقت و عروج کا پتہ لگاتی ہے بس اپنی آغوش میں لے لیتی ہے.....! ایسا ہر بار ہوتا ہے لیکن اس امر مسلسل سے کوئی ایک بھی سبق سیکھنے کی کوشش نہیں کرتا اور بالآخر انجام کا شکار ہوجاتا ہے۔ ہم یوں بھی بدنصیب ہیں کہ کتنے ہی بڑے زخم کھا لیں، گھائو لگوا لیں، ظلم وستم سہہ لیں، ہمیشہ خود پر جبر کرکے صبر کرتے رہتے ہیں، کوئی سر اٹھانے یا بغاوت کی جرات نہیں کرتا اگر کوئی ہمت کرے تو اتنے توڑے جاتے ہیں کہ مر جاتے ہیں یا مار دیئے جاتے ہیں۔ یہی زمانے کی ریت ہے اور ایسا جانے کتنی لاکھوں ہزاروں صدیوں سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ بھی کہیں زیادہ تلخ ہے کہ ہم کبھی خود بھی ظالم بن جاتے ہیں، پہلے اپنا سب کچھ کسی دوسرے کے حوالے کرتے ہیں اور پھر مظلوم بننے کی کوشش کرتے ہیں، سب کچھ معلوم ہوتاہے مگر معصوم بن کر مزاحمتی رویہ اختیار نہیں کرتے، ایسے میں جب عزت و حرمت کو پائوں تلے روندا جارہا ہوتا ہے، جب انسانیت منہ چھپائے شرمائے جارہی ہوتی ہے ہم فقط اپنا چہرہ خود ہی سے چھپانے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔ شاید ہم وہی لوگ ہیں جو بے بس کہلاتے ہیں، پھر بے سہارا ہوجاتےہیں، کج فہم اور بے زبان ہوتے ہیں پھر ناسمجھ ہوجاتے ہیں۔ مسلح آمر کےہاتھوں اپنا بائوجی قید کرانے اور ’’سورما‘‘ پارٹی رہنمائوں کی بے وفائی کا گھائو کھا کر عوام کے لئے باہر نکلنے والی باعصمت و بہادر خاتون کی ایک للکار نے اس کی زندگی کو تو امر کیا ہی پھر موت کےبعد بھی جس عظمت، عزت اور توقیر اور بلندی سے سرفراز کیا اس کا منظر پوری دنیا نے 14ستمبر بروز جمعہ کو اس کی نماز جنازہ کے لئے ٹھاٹھیں مارتے انسانی سمندر کے روپ میں دیکھا۔ اس آفت بھری گھڑی سے کسی کا اندازہ ہے کہ بائوجی ٹوٹ گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ چھوٹ جانے والا عشق، صدمے کی صورت اس میں چٹان جذبہ پیدا کر گیا ہے، اور بلند عزم نازک گڑیا اس کی قوت بن گئی ہے۔

شاید ہم بطور انسان اتنے کمزور اور مجبور ہیں کہ وقت گزرتا ہے تو ہم سارے صدمے بھول جاتے ہیں لیکن کچھ رشتے مر کر امر ہوجاتے ہیں جو کبھی نہیں بھلائےجاسکتے، زندگی کی کتاب کو اچھی طرح پڑھ لکھ لینے والی کلثوم نواز بھی ایسی ہی پختہ کردار کی قدآور گھریلو خاتون تھیں جو جاتے وقت بھی پورے ملک کی سیاسی قیادت کو پھر سے یکجا کرگئی ہیں اور نام تاریخ میں رقم کرگئیں۔ انتہائی حرمت والے مہینے میں ان کی وفات نے ذہنوں کو بہت کچھ یاد بھی دلا دیا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہےکہ ظالم کے ظلم پر خاموش رہنا اس کے ظلم میں شریک ہونے کے مترادف ہے۔‘اسی کو سچ ثابت کرنے کے لئے نواسہ رسول سید الشہداء جناب امام حسینؓؒ نےسب حقائق پہلے سے جاننے کے باوجود سرکش اور طاقتور یزید سے ٹکرانے کا فیصلہ کیا، یہ کربلا کے مقام پر حق کی فتح عظیم رہتی دنیا اور آنے والے جہاں کے لئے باعث ہدایت اور وسیلہ رہ نمائی ہے، یہی سر اٹھا کر جینے کا وہ فلسفہ ہے جونہتے خاندان نے مسافرت، پیاس اور شدید مظالم کےباوجود غیرت و حمیت سے سرشار ہو کر اپنے خون سے تحریر کیاہے۔ جان و مال کی قربانی کے ساتھ اہم پہلو پیش نظر ہونے چاہئیں کہ نبیﷺ کےچین وقرار نےمسجد نبویؐ میں اصحابؓ رسول کے سامنے بچپن میں اسلام بچانے کا وعدہ پورا کر دکھایا جو روز ازل تک وعدہ خلافی کے طاق بند کرتا رہے گا۔

تاریخ حقائق اور سچ کا سامنا کرنے والوں اور جھوٹ کو جھوٹ کہنے والوں کےقصوں سے اٹی پڑی ہے لیکن مفاد پرستی کے اس دور میں اس کھلی کتاب کو کون پڑھتاہے۔ ارسطور زہر کا پیالہ پئے یا گلیلیو پس زندان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اقتدار کے پجاری اور حواری تو صرف طاقتور سےوفاداری اور قوم سے غداری کے جذبے سے ہی آشنا ہوتے ہیں اور تو اور بیٹے جان بچانے کی خاطرماں کے جنازے کو کندھا دینے نہیں آتے۔

وطن عزیز اس دور سے گزر رہاہے جہاں نئے پاکستان کی صدائیں بلند ہیں، جذبات سے بھری پلاننگز کا شور ہے۔ ملک کی تقدیر بدلنے کا جنون ہے۔ لیکن بے چاری حقیقت اپنا چہرہ ڈھانپے آہیں بھر رہی ہے، اس کی ناتواں خاموشی چلا رہی ہے کہ اپنے وعدے پورے کرو، اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں سے باہر نکلو، عوام کی چیخیں سنو مگر ایک دفعہ موقع دینے کامطالبہ کرنے والوں کو اقتدار ملے آج ایک ماہ ہوگیا، محض نئے دعوئوں کے سوا ابھی تک نیا کچھ نہیں ملا، عوام کے بنیادی مسائل پر بات تو ہوئی لیکن ان پر حکمت عملی کی پیش بندی نہ ہوسکی، بدقسمتی سے بے روزگاری، مہنگائی، توانائی کے بحران ،تباہ حال معاشی حالت کی بہتری، تعلیم و صحت سمیت امن وامان جیسے بنیادی امور نمٹانےکی ابتدا نہیں کی جاسکی، فوری عوامی ریلیف کے شارٹ ٹرم یا میڈیم ٹرم منصوبوں کی بجائے لانگ ٹرم منصوبوں پر توجہ مرکوز ہے، بلاشبہ ڈیم کی تعمیر ہو، بڑی عمارتوں کی شناخت تبدیل کرنے کی کوشش ہو، بیوروکریسی کو سیدھا کرنے کا عزم ہو یا درخت لگانے کی مہم یہ پاکستان کے بہتر مستقبل کے لئے ضروری ہیں مگر ہر کام سلسلہ وار ترتیب سے ہو تو نتائج زیادہ بہتر نکل سکتے ہیں۔ سیکورٹی، پروٹوکول مجبوری ہے تو پھر ’’نہ لینۓ‘‘ کے دعوے بھی اب ترک کردینے چاہئیں۔ کیونکہ وعدوں کو پورا اور سچ کا سامنا کرنے، زمینی حقائق کو تسلیم کرکے بیان کرنے کے حوصلہ سے ہی ہجوم قوم بن جاتے ہیں۔ ظالم نہیں مظلوم کا ساتھی بن کر معاشرے سے جبر کاخاتمہ ممکن ہوجاتا ہے، قربانیاں دے کر وطن اور ہم وطنوں کی عزت و ناموس بچائی جاتی ہے، کمزور کی مدد سے ہر شخص آزاد اورسماج طاقتور بن جاتا ہے،برداشت کا مادہ پیدا کرنے سےمشکلات کو سہل کیا جاتا ہے، راستوں کو بند کرنے کی بجائے نئےدر کھولنے سے زندگی میں تازگی کا احساس پیدا ہوتا ہے، طاقتور گھمنڈ کی بجائے ان اسلوب کوجلد یا بدیر اختیار کرلیں تو امیر شہر سمیت ناری، نوری، لکھاری اور پس زندان مخلوق کو درپیش ابتر ابتلا کی صورت حال بدل سکتی ہے پھر دیس کے باسیوں کو بھی اطمینان ہوجائےکہ دہائیوں سے پریشان کن عشق کے امتحان ختم ہونے کو ہیں ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین